انسانی تاریخ کی سب سے بڑی صداقت یہ ہے کہ کوئی بھی سلطنت، کوئی بھی طاقت، کوئی بھی قوم خواہ کتنی ہی مضبوط، مالدار، یا عسکری قوت میں بے مثال کیوں نہ ہو، ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہتی۔ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والوں کے لیے یہ کرسی کبھی دوام نہیں رکھتی۔ وقت کا بے رحم دھارا نہ رومی قیصر کو بچا سکا، نہ ایرانی کسریٰ کو، نہ فرعون کے اہرام کو دوام دے سکا اور نہ ہی اندلس کی جنت نظیر بستیوں کو۔ وقت کے تیز بہاؤ نے ہر طاقتور کو خس و خاشاک کی مانند بہا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم بار بار انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ تم سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا۔
دنیا کے بڑے مورخین جیسے ابن خلدون، ول ڈیورنٹ اور آرنلڈ ٹوائن بی اس حقیقت پر متفق ہیں کہ تاریخ محض قصے کہانیوں کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے، ایک سبق ہے جو ہر آنے والی نسل کو خبردار کرتا ہے کہ اگر تم نے بھی وہی غلطیاں کیں جو ماضی کی سلطنتوں نے کیں تو تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کا ہوا۔ ابن خلدون نے اپنی مشہور تصنیف مقدمہ میں عروج و زوال کی ایک فلسفیانہ سائنس پیش کی جسے جدید ماہرینِ عمرانیات بھی سراہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سلطنتوں کا عروج اس وقت ہوتا ہے جب ان کے اندر اتحاد، انصاف اور قربانی کا جذبہ موجود ہو اور ان کا زوال اس وقت ہوتا ہے جب وہ عیش پرستی، ظلم، ناانصافی اور داخلی انتشار میں مبتلا ہو جائیں۔
رومی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی اور منظم سلطنتوں میں سے ایک تھی۔ اس کے قوانین آج بھی دنیا کی قانونی تاریخ میں سنگِ میل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سلطنت اپنے ہی تضادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ امراء کی عیاشیاں، غریبوں کی محرومیاں، غلاموں کا استحصال اور سیاسی رسہ کشی نے ایک ایسے طوفان کو جنم دیا جس کے سامنے قیصر کی عظیم دیواریں بھی کمزور پڑ گئیں۔ بظاہر یہ زوال بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اندر سے یہ سلطنت کھوکھلی ہو چکی تھی۔
اسی طرح اندلس، جو آٹھ سو سال تک علم و فن، سائنس اور تہذیب کا گہوارہ رہا، اپنی داخلی نااتفاقیوں اور فرقہ واریت کے باعث زوال پذیر ہوا۔ وہاں کے مسلمان جب تک علم و عدل کے ساتھ جڑے رہے، یورپ ان کے دروازے پر شاگرد بن کر آتا رہا۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے اپنے مقاصد کو بھلا دیا اور اقتدار کی جنگوں میں الجھ گئے، ان کی شاندار مساجد، یونیورسٹیاں اور محل کھنڈرات میں بدل گئے۔ آج کا قاری ان آثار کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ ایک عظیم تہذیب یوں غبارِ ماضی بن گئی۔
عثمانی سلطنت بھی کم و بیش اسی انجام سے دوچار ہوئی۔ بظاہر چار براعظموں پر حکومت کرنے والی یہ سلطنت اپنی کمزوریوں کو نہ سنبھال سکی۔ اندرونی بدعنوانی، مغربی استعمار کے دباؤ اور اصلاحات میں تاخیر نے اس کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ اس مثال سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ طاقت صرف فوجی یا مالی وسائل کا نام نہیں، بلکہ اداروں کی مضبوطی، عوامی انصاف اور اتحاد ہی حقیقی طاقت ہیں۔
سوویت یونین کا زوال ہمارے قریب ترین ماضی کی مثال ہے۔ ستر سال تک دنیا کو چیلنج کرنے والی اس طاقت کے پاس ایٹمی ہتھیار، سائنس، ٹیکنالوجی اور وسیع رقبہ موجود تھا۔ لیکن کمیونزم کے جبر، عوامی آزادیوں کی پامالی اور معاشی تضادات نے اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن اچانک دنیا نے دیکھا کہ "آہنی پردہ" کہلانے والی یہ سلطنت ریت کے گھروندے کی طرح بکھر گئی۔
یہ تمام مثالیں ہمیں یہی سبق دیتی ہیں کہ طاقت کا اصل راز انصاف، مساوات، انسانی حقوق اور ادارہ جاتی استحکام میں ہے۔ کوئی قوم جب ان اصولوں کو چھوڑ دیتی ہے تو چاہے اس کے پاس دنیا کے خزانے ہوں یا سب سے بڑی فوج، وہ دیرپا نہیں رہ سکتی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "وَتِلُكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيُنَ النَّاسِ" (آلِ عمران 140) یعنی ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ اس آیت میں پوری تاریخ کا خلاصہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ سپر پاورز اس تاریخی سبق سے کیا سیکھ رہی ہیں؟ کیا امریکہ اور اسرائیل اپنی موجودہ روش پر چل کر واقعی مستقبل کے فاتحین رہیں گے یا ان کا انجام بھی ماضی کی سلطنتوں جیسا ہوگا؟ امریکہ کی موجودہ صورتحال دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ داخلی سطح پر وہ شدید بحران کا شکار ہے۔ نسلی امتیاز، معاشی ناہمواری، سیاسی تقسیم اور ماحولیاتی خطرات نے اس کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ بظاہر دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور فوج رکھنے والا ملک اندر سے اس قدر کمزور دکھائی دیتا ہے کہ خود اس کے مفکرین اور صحافی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا "امریکن ڈریم" اب ایک دھوکہ بن چکا ہے؟
امریکہ کی خارجہ پالیسی بھی اس کے زوال کی علامت بنتی جا رہی ہے۔ افغانستان اور عراق میں شکست، مشرقِ وسطیٰ میں ناکام پالیسیوں اور اب یوکرین جیسے مسائل نے اسے ایک ایسے دلدل میں پھنسا دیا ہے جس سے نکلنا آسان نہیں۔ داخلی طور پر امریکہ کا سیاسی نظام بھی تقسیم کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کی کشمکش نے عوام کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ یہ تقسیم کبھی کبھار خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت کا ارتکاز صرف چند سو خاندانوں کے پاس ہے جبکہ کروڑوں عوام غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا شکار ہیں۔ یہ تمام عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت بھی غیر لافانی نہیں۔
اسرائیل کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ستر سال سے زیادہ عرصے سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود آج یہ ریاست اپنے وجود کے جواز کے بحران میں مبتلا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، مضبوط فوج اور مغربی حمایت کے باوجود اسرائیل کے لیے امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا۔ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کے بڑھتے ہوئے شعور نے اسرائیل کی پالیسیوں کو سخت تنقید کے دائرے میں ڈال دیا ہے۔ یہاں بھی تاریخ کا وہی سبق دہرایا جا رہا ہے کہ ظلم کا نظام دیرپا نہیں ہوتا۔
ابن خلدون نے لکھا تھا کہ جب ایک قوم عیش پرستی اور ظلم میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اس کی "عصبیت" ختم ہو جاتی ہے۔ عصبیت کا مطلب ہے وہ قوتِ اتحاد جو ایک قوم کو اکٹھا رکھتی ہے۔ جب یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو سلطنتیں اپنی بنیادوں پر قائم نہیں رہ سکتیں۔ یہی صورتحال آج دنیا کی بڑی طاقتوں کو درپیش ہے۔ امریکہ میں نسلی تقسیم اور اسرائیل میں داخلی خلفشار اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی عصبیت کمزور پڑ رہی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو قرآن نے بارہا بتایا ہے کہ قوموں کی بقا عدل پر ہے۔ ایک مشہور حدیث ہے کہ "کفر کے ساتھ حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں"۔ اس فرمان میں پوری انسانی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ فرعون کی سلطنت ظلم پر قائم رہی لیکن انجام کار وہ دریا میں غرق ہوا۔ شداد نے جنت نظیر بستی آباد کی لیکن اس کا غرور خاک میں مل گیا۔ یہ عبرت انگیز داستانیں ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ظلم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، ایک دن ڈھیر ہو جاتا ہے۔
آج کے دور میں ماحولیاتی بحران بھی ایک نیا عنصر ہے جو سلطنتوں کے عروج و زوال میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔ ماضی میں قوموں کی تباہی کا سبب اکثر قدرتی آفات یا وسائل کی کمی ہوا کرتی تھی۔ آج سائنس ہمیں بتا رہی ہے کہ گلوبل وارمنگ، پانی کی قلت اور ماحولیاتی آلودگی بڑے خطرے ہیں۔ اگر طاقتور قومیں اس خطرے کو سنجیدگی سے نہ لیں تو وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنے زوال کو دعوت دے رہی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: "ظَهَرَ الُفَسَادُ فِي الُبَرِّ وَالُبَحُرِ بِمَا كَسَبَتُ أَيُدِي النَّاسِ" (الروم 41) یعنی خشکی اور تری میں فساد انسان کے اپنے ہاتھوں کی وجہ سے ظاہر ہوا۔ یہ آیت آج کے ماحولیاتی بحران کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔
دنیا کی بڑی طاقتیں جب اپنے آپ کو ناقابلِ شکست سمجھنے لگتی ہیں تو دراصل ان کے زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔ امریکہ کی مثال سامنے ہے جو بیسویں صدی کے اواخر میں واحد سپر پاور کے طور پر ابھرا لیکن اکیسویں صدی کی پہلی ربع صدی کے اندر ہی اس کے اندرونی انتشار نے اسے کھوکھلا کر دیا۔ نسلی امتیاز کی آگ، معاشی تفاوت کی خلیج، سیاسی انتہاپسندی اور بیرونی محاذوں پر مسلسل عسکری مداخلت نے اس کے وقار کو گھٹا دیا ہے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکہ کو وہ زخم دیے ہیں جو عسکری طاقت کے باوجود مندمل نہیں ہو سکے۔ آج اس کے شہری اندرونی تقسیم، بے یقینی اور خوف میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ٹوائن بی کے الفاظ میں، "طاقت کا نشہ قوموں کو اندھا کر دیتا ہے اور جب وہ حقیقت سے نظریں چراتی ہیں تو ان کا انہدام ناگزیر ہو جاتا ہے"۔
اسرائیل کی کہانی بھی اسی تناظر میں دیکھنے کے قابل ہے۔ یہودی ریاست نے اپنی بنیاد ہی ظلم اور غصب پر رکھی۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، ان کی زمینیں ہتھیانا اور ان پر مسلسل ظلم ڈھانا، ایسے اعمال ہیں جو کسی بھی ریاست کو اخلاقی جواز سے محروم کر دیتے ہیں۔ بظاہر اسرائیل عسکری لحاظ سے طاقتور ہے لیکن اخلاقی محاذ پر وہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ نے وہ سب کچھ دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جسے ماضی کی طاقتور حکومتیں چھپا لیتی تھیں۔ اب نہتے بچوں کی لاشیں، برباد بستیاں اور روتی ماؤں کی آوازیں دنیا کے ہر کونے تک پہنچ رہی ہیں اور یہی آوازیں اسرائیل کے زوال کی تمہید ہیں۔
ابھرتی ہوئی طاقتیں جیسے چین اور روس اگرچہ امریکہ اور یورپ کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن ان کے سامنے بھی وہی تاریخی چیلنجز ہیں جو ماضی کی سلطنتوں کو لاحق تھے۔ اگر چین اپنی اقتصادی ترقی کو صرف طاقت کے توازن میں بدلنے پر اصرار کرے اور انسانی حقوق، عدل اور شفافیت کو نظرانداز کرے تو اس کی ترقی بھی زیادہ دیرپا نہیں رہے گی۔ روس اگر محض عسکری قوت پر انحصار کرے اور اپنے شہریوں کو آزادانہ سیاسی و سماجی فضا فراہم نہ کرے تو وہ بھی اسی گرداب میں پھنس جائے گا جس نے سوویت یونین کو ڈبو دیا تھا۔
تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کی بقا کا راز نہ ہتھیاروں میں ہے نہ دولت کے انباروں میں، بلکہ عدل، مساوات، باہمی احترام اور ماحولیاتی توازن میں ہے۔ قرآن کہتا ہے: ظَهَرَ الُفَسَادُ فِي الُبَرِّ وَالُبَحُرِ بِمَا كَسَبَتُ أَيُدِي النَّاسِ یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے انسانوں کے اپنے اعمال کے سبب۔ آج کا ماحولیاتی بحران اس آیت کی سچی تفسیر ہے۔ موسمیاتی تغیر، گلوبل وارمنگ، پانی کی کمی اور زمین کی زرخیزی کا خاتمہ وہ خطرات ہیں جو نہ صرف چھوٹی قوموں بلکہ بڑی طاقتوں کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ ماضی کی تہذیبیں بھی ماحولیاتی تباہی سے گزریں، جیسا کہ مایان تہذیب یا انڈس ویلی کے زوال میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آج کی دنیا نے سبق نہ سیکھا تو تاریخ پھر وہی انجام دہرائے گی۔
ابن خلدون نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "مقدمہ" میں لکھا تھا کہ قوموں کی زندگی بھی انسانوں کی طرح ہے۔ وہ بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ جب تک وہ عزم، اتحاد اور قربانی کی روح سے جڑی رہتی ہیں، ان کی جوانی برقرار رہتی ہے، لیکن جب عیش و عشرت، ظلم و فساد اور داخلی کشمکش غالب آ جائے تو ان پر بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے اور پھر فنا ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ یہی اصول آج کی سپر پاورز پر بھی صادق آتا ہے۔
آج دنیا کو ایک نئے موڑ پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ طاقتور اقوام اگر تاریخ کے سبق کو نظرانداز کریں گی تو وہی ملبہ ان کا نصیب بنے گا جو روم، اندلس، عباسیہ اور سوویت یونین کی یادگاروں میں بکھرا پڑا ہے۔ یہ محض تاریخ کی کہانیاں نہیں بلکہ مستقبل کا نقشہ ہیں اور یہ نقشہ ہمیں چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی بنیاد پر کھڑی کوئی بھی ریاست زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔
لہٰذا آج کا اصل سبق یہ ہے کہ عدل و انصاف کو ہر ریاست کی پالیسی کا ستون بنایا جائے، عوامی فلاح اور برابری کو یقینی بنایا جائے، انسانی وقار کی حفاظت کی جائے اور ماحولیاتی توازن کو مقدم رکھا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو امریکہ ہو یا اسرائیل، روس ہو یا چین، سب ایک دن تاریخ کی گرد میں کھو جائیں گے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: وَتِلُكَ الُأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيُنَ النَّاسِ اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔ کوئی قوم ہمیشہ غالب نہیں رہتی اور کوئی ظلم ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔
یہی تاریخ کا پیغام ہے، یہی انسانیت کا سبق ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں ماننی پڑے گی۔