درج ذیل تجزیاتی کالم کا مقصد صرف ہماری سیاسی و حکومتی خرابیوں کی فہرست بنانا نہیں بلکہ اجتماعی و انفرادی سطح پر، قومی و بین الاقوامی روابط اور طرزِ کار کے ہر پہلو سے اس نظام کا جائزہ لینا ہے، تا کہ شعور بیدار ہو سکے اور عوامِ وطن کے سامنے "اُٹھنے" اور "بدلنے" کا عمل واضح ہو جائے۔
سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان کا ریاستی نظام کئی ایسی بنیادی کمزوریوں کے بوجھ تلے ہے جنہوں نے ملکی ترقی، سماجی انصاف اور شفاف حکمرانی کے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ ایک اہم مثال یہ ہے کہ فیصلہ سازی اور عمل درآمد کے مابین بڑا خلا موجود ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ گڈ گورننس یعنی "اچھی حکمرانی" کے اصول پاکستان میں مکمل نہیں ہو سکے اس کی اہم وجہ بدعنوانی، شفافیت کی کمی اور اداروں کی کمزور نفاذی صلاحیت ہے۔
مزید یہ کہ جگہ جگہ قانون اور ضابطے موجود ہونے کے باوجود، ان کا نفاذ یکساں نہیں رہا اور نتیجتاً عوام میں ریاستی اداروں سے اعتماد کم ہوا ہے۔
نظام کا ایک اور بڑا مسئلہ وفاقی ڈھانچے میں بے توازن ہے۔ مثال کے طور پر، حال ہی میں پیش کردہ آئینی مسودہ 27th Constitutional Amendment وفاق اور صوبوں کے اختیارات کے درمیان دوبارہ مرکزیت کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو صوبائی خودمختاری کے حصول کے بعد سوالیہ نشان ہے۔ جب اختیارات مرکزی حکومت کے پاس زیادہ ہوں گے تو مقامی سطح پر سماجی مسائل کا حل متاثر ہوتا ہے، کیونکہ مقامی انتظامیہ کو وسائل، اختیار اور عمل کی آزادی نہیں ملتی۔ اس طرح عوامی توقعات اور ان کے حقوق پورے نہ ہو پاتے۔
بدعنوانی پاکستان کے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ ایک مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف اداروں کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ عوامی خدمات، قانون کی حکمرانی اور ترقیاتی عمل کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ جب ایک طرف نگرانیاں جان بوجھ کر سامنے آتی ہیں، تو دوسری طرف عوام کا یہ جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ احتسابی نظام وقتی اور انتخابی نوعیت کا رہا ہے، مستقل اور غیر جانبدارانہ نہیں۔ نتیجتاً، شفاف فیصلہ سازی اور منصفانہ نظام کا تصور متاثر ہوا ہے۔
نظام کا چوتھا اہم مدعا یہ ہے کہ مقامی سطح پر حکومتیں کمزور ہیں، ان کو مالیاتی خودمختاری اور سیاسی آزادی نہیں ملی۔ تحقیق بتاتی ہے کہ مقامی حکومتوں کو اختیارات تو دیے گئے، مگر وسائل، فنڈنگ اور نفاذ کی آزادی نہیں مل سکی۔
یہ صورتحال ان علاقوں میں خاص طور پر شدید ہے جہاں عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔ "اُٹھو عوام، بدلو نظام" کا شعار انہی بنیادی درجوں سے شروع ہونا چاہیے مقامی سطح پر فعال شہری شرکت، وسائل کی تقسیم اور شفاف فیصلے ضروری ہیں۔
پاکستان کا معاشی ڈھانچہ خاصا کمزور ہے۔ قرضوں کا بوجھ، بجٹ خسارہ، بیرونی مالیاتی اداروں سے انحصار یہ تمام عوامل نظام کی کمزوریوں کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر، ایسا تاثر بنتا جا رہا ہے کہ ملکی معیشت مسلسل بحران کی طرف ہے، جس کا تعلق صرف اندرونی نظم و نسق سے نہیں بلکہ عالمی ماحول، تجارت اور توانائی کے حوالے سے غلط حکمتِ عملی سے بھی ہے۔ اس تناظر میں، عوامی مطالبات کا یہ ہونا ضروری ہے کہ معیشت کی شفافیت، دیانتدارانہ قرضہ لینے کی پالیسی اور خود کفالت کی سمت متعین کی جائے۔
نظام کی خرابی کا فوری مظہر یہ ہے کہ عوامی خدمات بشمول تعلیم، صحت، صفائی اور بنیادی سہولیات مناسب انداز سے میسر نہیں ہو رہی۔ ایک تجزیہ میں کہا گیا ہے کہ حکومتیں "پیکیجز" بناتی رہی ہیں مگر حقیقی نفاذ نہیں ہوا۔
جب ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق جیسے معیاری تعلیم یا صحت فراہم نہیں کر پاتی، تو یہ معاشرتی ناہمواری اور بے چینی کا باعث بن جاتا ہے۔ اس صورتحال میں عوامی شعور بیدار ہونا چاہیئے کہ یہ محض حکومتی ذمہ داری نہیں، بلکہ ریاستی معاہدہ ہے۔
پاکستان کا نظامی اور حکومتی ڈھانچہ بین الاقوامی سطح پر بھی زیرِ تنقید ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں عوامی نظام کی خرابیاں بیرونی سرمایہ کاری، انسانی ترقیاتی اشاریوں، تجارتی شراکتوں اور خارجہ پالیسی پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، حکمرانی سے جڑی کمزوری نے "قابلِ اعتماد شراکت دار" کے طور پر پاکستان کی حیثیت متاثر کی ہے۔
یہ امر "اُٹھو عوام، بدلو نظام" کے نعرے سے منسلک ہو جاتا ہے: جب عوام خود تبدیلی کا مطالبہ کریں گے، تو ریاستی نظام بین الاقوامی سطح پر ذمہ دار ملک کی صورت اختیار کرے گا۔
اب ہم اس شعار کی طرف آتے ہیں: اُٹھو عوام، بدلو نظام۔ یہ محض نعرہ نہیں، ایک عملی راستہ ہے۔ عوام کے فردِ واحد کے طور پر اور اجتماعی طور پر درج ذیل کردار اہم ہیں:
شعور پیدا کرنا: اپنی ریاست، اداروں اور فیصلہ سازی کے عمل کو سمجھنا ضروری ہے۔ حقائق، اعداد و شمار اور تجزیاتی مطالعے عوام کو مضبوط بناتے ہیں۔
شراکت داری اور احتساب: عوام کو نہ صرف ووٹ ڈالتے رہنا ہے بلکہ منتخب نمائندوں، مقامی سطح پر حکومتی اداروں اور پالیسیز کی نگرانی بھی کرنی ہے۔
قانونی و شہری حقوق کا ادراک: صرف شکایت نہیں، بلکہ باقاعدہ شکایات، شہری درخواستیں، عدالتی عمل کا استعمال بھی ضروری ہے۔
تنظیمی اور عوامی تحریکات: جب عوام متحد ہو کر اچھے نظام کی تشکیل کا مطالبہ کریں گے، حکومتیں مجبور ہوں گی اصلاحات لانے پر۔
ذمہ دارانہ رویہ: انتخابی عمل، سرکاری پالیسیز، مقامی کونسلنگ اور شہری آزادیوں کے حوالے سے عوامی حصہ داری اور ذمہ داری کا جذبہ ضروری ہے۔
نظام کی تبدیلی کا مطلب صرف حکومت بدلنا نہیں بلکہ حکمرانی کے انداز، اداروں کی کارکردگی، عوامی شمولیت اور شفافیت کا بڑھنا ہے۔ چند اقدامات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
مقامی حکومتوں کو وسائل، اختیارات اور جواب دہی کا اختیار دینا۔
شفاف نظامِ احتساب اور مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے ادارے بنانا۔
معاشی پالیسیز کو عوام دوست، قرض کش پالیسیز کی طرف موڑنا اور حکومتی اخراجات میں مؤثریت لانا۔
عوامی خدمات میں معیار کو بنیاد بنانا، صرف "کسی پیکیج" کی حد تک محدود نہ رہنا۔
آئینی و قانونی فریم ورک کو مضبوط کرنا، وفاق و صوبوں کے اختیارات کا توازن دوبارہ قائم کرنا۔
عوامی شعور و تعلیم میں سرمایہ کاری کرنا تا کہ شہری جان سکیں کہ ان کا حق کیا ہے اور نظام کا کیا راستہ ہونا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستانی نظام کی خرابیاں محض جزوی نہیں بلکہ ساختی نوعیت کی ہیں۔ یہ خرابیاں سیاسی، معاشی، سماجی اور بین الاقوامی سطح پر موجود ہیں اور اس وقت تک یہ ٹھیک نہیں ہوں گی جب تک عوام صرف "ٹھیک حکومت" کا انتظار کریں گے بلکہ خود "نظامِ کار" کے تبدیل ہونے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔
اُٹھنا یعنی شعور، شمولیت، مطالبہ اور ذمہ داری لینا۔ بدلنا یعنی صرف لیڈر نہ تبدیل کرنا بلکہ حکمرانی کا انداز، اداروں کا کردار، عوامی شراکت اور شفافیت کا راستہ اپنانا۔
اگر یہ شعار صرف نعرے تک محدود رہ جائے گا، تو نظام وہی رہے گا مگر اگر اس نے عملی روپ اختیار کیا، تو پاکستان ایک نئے دور کا آغاز کر سکتا ہے، جہاں ریاست صرف طاقت کا محور نہیں بلکہ عوام کا سہارا بنے گی۔
آگے کی راہ روشن ہے: "اُٹھو عوام، بدلو نظام" اب عمل کی باری ہے۔