Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi/
  3. Youm e Azadi, Marka e Haq Aur Shuhada Ki Amanat

Youm e Azadi, Marka e Haq Aur Shuhada Ki Amanat

14 اگست کا دن محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی قوم کی قربانیوں، جدوجہد اور یقینِ کامل کی وہ زندہ و تابندہ علامت ہے جس نے غلامی کے اندھیروں میں ڈوبی ایک قوم کو آزادی کی روشنی عطا کی۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کا قیام محض جغرافیائی حد بندی کا نام نہیں بلکہ یہ ایک فکری و روحانی انقلاب تھا، جس کی بنیاد "لا الہ الا اللہ" پر رکھی گئی۔ یہی نظریہ اس معرکۂ حق کی بنیاد بنا جس نے لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت، قربانی اور شہادت کے راستے پر گامزن کیا۔

برصغیر کے مسلمان صدیوں سے اکثریتی مذہب کے سائے میں اپنے دینی، تہذیبی، سماجی اور سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھے۔ انگریز سامراج کے خلاف جدو جہد اور ہندو اکثریتی ذہنیت کے ظلم و جبر نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ ان کی تہذیب و تمدن اس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک وہ ایک علیحدہ ریاست حاصل نہ کریں۔ علامہ اقبال کے خواب، قائداعظم محمد علی جناح کی بے مثال قیادت اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں نے اس خواب کو حقیقت میں بدلا۔ یہ وہی معرکۂ حق تھا جس میں قربانی کا ہر رنگ شامل تھا فکر، قلم، ہجرت اور سب سے بڑھ کر خون۔

قیام پاکستان کی تحریک محض سیاسی جدوجہد نہ تھی، یہ ایک ہمہ گیر انقلاب تھا۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنے گھر بار، زمینیں، رشتے اور حتیٰ کہ اپنی جانیں قربان کرکے اس وطن کو حاصل کیا۔ 1947ء کی خونی ہجرت تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جسے پڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیٹیوں کی عصمتیں پامال ہوئیں، قافلے ذبح کیے گئے، بوڑھے ماں باپ کو ان کے لٹے ہوئے خوابوں کے ساتھ قتل کر دیا گیا، لیکن زبان پر صرف ایک ہی نعرہ رہا: پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ۔

یہ وہ نعرہ تھا جو صرف آزادی کا اعلان نہ تھا بلکہ ایک عہد تھا کہ اس ریاست میں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق عدل، مساوات، اخوت، رواداری اور انسان دوستی کا عملی نمونہ قائم ہوگا۔ مگر آزادی کا جشن مناتے وقت ہمیں اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم نے شہداء کے ان خوابوں کو پورا کیا؟ کیا آج کا پاکستان وہی نظریاتی ریاست ہے جس کے لیے لاکھوں جانیں نثار ہوئیں؟ کیا آج ہم اس آزادی کی حفاظت اسی جذبے سے کر رہے ہیں جس سے ہم نے اسے حاصل کیا تھا؟

تحفظ آزادی کا مرحلہ شاید حصول آزادی سے بھی زیادہ پیچیدہ، طویل اور قربانی طلب ہوتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد دشمن کی نظریں کبھی ہم سے ہٹی نہیں۔ 1948ء سے لے کر 1965ء، 1971ء، کارگل اور حالیہ دہشت گردی تک ہر موقع پر پاکستان کے وجود اور نظریے کو چیلنج کیا گیا۔ مگر ہر بار ہماری بہادر افواج، سیکیورٹی ادارے اور عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس وطن کی حفاظت کی۔

1965ء کی جنگ میں کیپٹن سرور شہید، راشد منہاس، میجر طفیل شہید، میجر عزیز بھٹی اور دیگر غازیوں نے ثابت کیا کہ پاکستان کی سرحدیں صرف خاردار تاروں سے محفوظ نہیں بلکہ شہداء کے لہو کی دیوار سے محفوظ ہیں۔ 1971ء کے سانحے میں ہمیں اندرونی سازشوں، سیاسی نااتفاقیوں اور عالمی طاقتوں کے مشترکہ کھیل نے نقصان پہنچایا، مگر اس شکست سے سبق سیکھ کر ہم نے ایک نئے عزم کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔

نائن الیون کے بعد پاکستان ایک نئی طرز کی جنگ میں داخل ہوا دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ اس جنگ میں جہاں بیرونی مداخلت تھی وہیں اندرونی غداروں کا گٹھ جوڑ بھی شامل تھا۔ کراچی سے خیبر، وزیرستان سے بلوچستان تک ہر خطہ اس جنگ کی لپیٹ میں آیا۔ اسکول، مساجد، بازار، جنازے، امام بارگاہیں، کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ لیکن قوم نے ہمت نہ ہاری۔ پاک فوج نے آپریشن راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے کامیاب آپریشنز کے ذریعے دہشت گردی کی کمر توڑ دی۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں 2014ء کا المیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دشمن ہماری نسلوں کو مٹانا چاہتا تھا۔ لیکن اس خون آلود واقعے نے پوری قوم کو یکجا کر دیا۔ بچے شہید ہوئے مگر ان کے خون نے قوم کو جگا دیا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشنز کا تسلسل، نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل اور نوجوانوں کی فکری تربیت نے ایک نیا مورال پیدا کیا۔

2025ء میں بھارت کی جانب سے مسلط کردہ جارحیت "آپریشن سندور" کے جواب میں پاکستان نے "بنیان المنصوص" کے نام سے ایک فیصلہ کن عسکری معرکہ شروع کیا، جس نے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ہلا کر رکھ دیا۔ اس معرکہ میں پاک فضائیہ نے بھارت کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے تباہ کرکے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے اور وطن عزیز کا دفاع نہ صرف مضبوط عزم بلکہ جدید حربی مہارت سے کیا۔ یہ معرکہ پاکستان کی نظریاتی و عسکری برتری کا عملی اظہار ثابت ہوا۔ "بنیان المنصوص" نہ صرف ایک عسکری جوابی کارروائی تھی بلکہ پاکستان کی وحدت، استقامت اور نظریاتی اساس کا عملی اعلان بھی تھی گویا سیسہ پلائی دیوار کی مانند قوم دشمن کے سامنے ڈٹ گئی اور ہمیشہ ڈٹی رہے گی۔

ہم ایک مسلسل معرکۂ حق کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک طرف اقتصادی چیلنجز، سیاسی عدم استحکام، کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے اندرونی دشمن ہیں، تو دوسری طرف بھارت، افغانستان، اسرائیل اور بعض عالمی طاقتیں مسلسل ہمارے خلاف پراپیگنڈا اور سائبر وار کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ دشمن اب گولی سے نہیں، بلکہ خبر، ٹرینڈ، میم اور میڈیائی بیانیے سے حملہ آور ہے۔ ہماری نئی نسل کو نظریاتی طور پر الجھایا جا رہا ہے۔ دین، قوم، تاریخ اور تشخص کو مسخ کرکے ذہنی غلامی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

یہ بھی ایک جنگ ہے فکری و تہذیبی جنگ۔ اس کے شہداء وہ اساتذہ ہیں جو سچ پڑھاتے ہیں، وہ صحافی جو حق بولتے ہیں، وہ ماؤں باپ ہیں جو بچوں کو دین سکھاتے ہیں اور وہ نوجوان ہیں جو سوشل میڈیا پر باطل بیانیوں کا توڑ کرتے ہیں۔ ہمیں ان تمام شہداء کو یاد رکھنا ہوگا جو محاذ پر، ذہنوں میں، قلم کے ذریعے اور زبان کے ہتھیار سے معرکۂ حق لڑ رہے ہیں۔

آج جب ہم جشنِ آزادی مناتے ہیں، تو یہ محض ایک تہوار نہیں، بلکہ ایک قومی تجدید عہد ہے۔ یہ لمحہ ہے خود احتسابی کا، قوم کی اجتماعی تربیت کا اور ماضی کی قربانیوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا۔ یہ یاد دہانی ہے کہ آزادی کا سفر رکا نہیں، یہ جاری ہے ہر اسکول، ہر عدالت، ہر گلی، ہر محاذ پر۔

ہمیں ایک بار پھر اپنے نصب العین کو تازہ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد، نظم، دیانت اور قربانی کے جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آزادی کی قدر وہی قومیں جانتی ہیں جو غلامی کی ذلت سے گزر چکی ہوں۔ ہمیں اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے، ہماری نسلیں، ایک باوقار، آزاد، خوددار اور خوشحال پاکستان میں سانس لیں، تو ہمیں اس معرکۂ حق کو ہر سطح پر جاری رکھنا ہوگا۔ قلم سے، کردار سے، فکر سے، خدمت سے اور مسلسل جہاد و قربانی سے۔

یہی ہمارے شہداء کے خون کا تقاضا ہے، یہی پاکستان کی روح ہے، یہی یومِ آزادی کا پیغام ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran