عالمی یومِ ذہنی صحت اس بات کی مؤثر یاد دہانی ہے کہ ذہنی صحت دراصل ہماری مجموعی فلاح و بہبود کا بنیادی اور لازمی جزو ہے۔ تیز رفتار دنیا میں جہاں انسان مشینوں کے ساتھ دوڑ لگا رہا ہے، وہاں یہ دن اس امر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنے ذہنی و جذباتی توازن پر غور کرنا چاہیے بلکہ دوسروں کے لیے ہمدردی، احساس اور تعاون کے جذبات کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ یہ دن ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد معاشروں میں ذہنی صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرنا، غلط فہمیوں کا خاتمہ اور علاج و بحالی کے امکانات کو اجاگر کرنا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (World Health Organization) کے تعاون سے یہ دن پہلی مرتبہ 1992ء میں منایا گیا، جب عالمی فیڈریشن برائے ذہنی صحت (World Federation for Mental Health) نے اس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس وقت ذہنی بیماریوں کو ایک "سماجی داغ" (Social Stigma) کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور ایسے افراد معاشرتی تنہائی، تضحیک اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ طبّی علوم، نیوروسائنس اور نفسیاتی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ ذہنی بیماری جسمانی بیماریوں کی طرح حقیقی اور قابلِ علاج ہوتی ہے۔
ذہنی صحت محض بیماری سے نجات کا نام نہیں، بلکہ یہ انسان کی نفسیاتی، جذباتی اور سماجی توازن کی ایسی کیفیت ہے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانتا ہے، زندگی کے دباؤ سے مؤثر طور پر نبرد آزما ہوتا ہے، مثبت اندازِ فکر اپناتا ہے اور معاشرے کے لیے مفید کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق:
"Mental health is a state of well-being in which an individual realizes his or her own abilities, can cope with the normal stresses of life, can work productively, and is able to contribute to his or her community."
جدید زندگی میں ذہنی دباؤ اور اضطراب کے اسباب بے شمار ہیں۔ ان میں معاشی عدم استحکام، بے روزگاری، تعلیمی دباؤ، خاندانی تنازعات، معاشرتی عدم مساوات، سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی بے یقینی شامل ہیں۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق، ڈیجیٹل دور نے جہاں معلومات کی فراہمی آسان بنائی، وہیں انسانی تعلقات کو سطحی اور وقتی بھی کر دیا۔ "لائکس"، "کمنٹس" اور "فالوورز" کی دوڑ نے انسان کے اندر نفسیاتی تشنگی پیدا کر دی ہے یعنی وہ تسلیم کیے جانے کی خواہش میں اپنی اصل شناخت کھو بیٹھا ہے۔
پاکستان میں ذہنی بیماریوں کا تناسب تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق، ملک کی تقریباً 35 تا 40 فیصد آبادی کسی نہ کسی درجے کی ذہنی یا نفسیاتی پریشانی کا شکار ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگ علاج کے لیے رجوع نہیں کرتے کیونکہ وہ یا تو شرمندگی محسوس کرتے ہیں یا سماجی بدنامی کے خوف سے خاموش رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں نوجوانوں میں ڈپریشن، اینگزائٹی اور سوشل آئیسولیشن کے کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسکول اور کالج کے طلبہ خود پر غیر ضروری دباؤ ڈالتے ہیں، والدین کی توقعات، گریڈز اور روزگار کے خدشات ان کے ذہنوں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔
سائنس بتاتی ہے کہ ذہنی بیماری صرف "خیالات" یا "کمزور ارادے" کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں دماغی کیمیائی مادوں (Neurotransmitters) کے عدم توازن، موروثی عوامل، ہارمونی تبدیلیوں اور بیرونی ماحولیاتی اثرات میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ڈوپامین (Dopamine)، سیروٹونن (Serotonin) اور نوری ایڈرینالین (Norepinephrine) جیسے نیورو ٹرانسمیٹرز انسانی موڈ، نیند، توانائی اور خوشی کے احساس پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ ان میں کمی یا زیادتی ڈپریشن، اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر اور دیگر نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات ذہنی سکون اور روحانی توازن کی بہترین راہ دکھاتی ہیں۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: "أَلَا بِذِكُرِ اللہِ تَطُمَئِنُّ الُقُلُوبُ" (یقیناً اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔) نماز، دعا، مراقبہ اور شکر گزاری کے اعمال انسان کے اندر روحانی تسکین پیدا کرتے ہیں، جو جدید سائنس کے مطابق "نیورولوجیکل ریلیکسیشن" (Neurological Relaxation) کا سبب بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ نفسیات آج روحانیت (Spirituality) کو ذہنی علاج کے ایک مؤثر جز کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر ہونے والی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ادارے جو اپنے ملازمین کی ذہنی فلاح کو ترجیح دیتے ہیں، وہاں پیداواری صلاحیت (Productivity)، وفاداری اور مجموعی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر ہوتی ہے۔ "ورلڈ اکنامک فورم" کے مطابق، دنیا کی معیشت ہر سال ذہنی بیماریوں کی وجہ سے ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان برداشت کرتی ہے۔ اس لیے ذہنی صحت پر سرمایہ کاری دراصل انسانی وسائل میں سرمایہ کاری ہے۔
ذہنی صحت کے فروغ کے لیے سب سے بنیادی قدم تعلیم اور آگاہی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں"مینٹل ہیلتھ ایجوکیشن" کو نصاب کا حصہ بنانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف طلبہ میں برداشت، خود آگاہی اور جذباتی نظم و ضبط پیدا ہوگا بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی ہمدرد بن سکیں گے۔
خاندان ذہنی صحت کا پہلا قلعہ ہوتا ہے۔ محبت، گفتگو، اعتماد اور باہمی احترام وہ ستون ہیں جو ذہنی توازن کو قائم رکھتے ہیں۔ جب والدین بچوں کی بات توجہ سے سنتے ہیں اور ان کے احساسات کو تسلیم کرتے ہیں، تو یہ عمل انہیں نفسیاتی استحکام فراہم کرتا ہے۔ برعکس صورت میں، تنقید، طنز، یا عدمِ توجہ بچوں میں احساسِ کمتری، اضطراب اور خود انکاری پیدا کر سکتی ہے۔
ذہنی بیماریوں کے علاج میں جدید سائنس نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ سائیکو تھراپی (Psychotherapy) فرد کو اپنے خیالات اور احساسات کو سمجھنے اور منظم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ میڈی کیشن تھراپی ماہرِ نفسیات کی تجویز کردہ دواؤں کے ذریعے دماغی کیمیائی توازن بحال کرتی ہے۔ کاؤنسلنگ سماجی یا پیشہ ورانہ دباؤ سے نمٹنے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے، جبکہ گروپ تھراپی افراد کو احساسِ تنہائی سے نکال کر اجتماعی شفا بخشی کا ذریعہ بنتی ہے۔
ذہنی صحت صرف انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی فلاح سے وابستہ ہے۔ جب ہم کسی پریشان حال شخص کی بات بغیر ججمنٹ کے سن لیتے ہیں، تو دراصل ہم اس کی شفا کا پہلا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گفتگو میں نرمی، اپنے رویوں میں احترام اور اپنے عمل میں محبت پیدا کریں۔
عالمی یومِ ذہنی صحت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جسمانی تندرستی کے ساتھ ذہنی توازن بھی زندگی کی کامیابی اور خوشی کا بنیادی تقاضا ہے۔ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے معاشرے کی تشکیل کریں جہاں ذہنی بیماریوں کو کمزوری نہیں بلکہ علاج طلب حالت سمجھا جائے۔ آئیے ہم سب مل کر ایسے ماحول کی تعمیر میں حصہ لیں جہاں ذہنی صحت کے موضوع پر بات کرنا معمول کا حصہ بن جائے جہاں ہر فرد کو سنا جائے، سمجھا جائے اور اس کی تکلیف کو وقار کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ وہ تمام معالجین، ماہرینِ نفسیات اور سماجی کارکن خراجِ تحسین کے مستحق ہیں جو اس شعبے میں شب و روز کام کر رہے ہیں اور دوسروں کو شفا، امید اور خوشی حاصل کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔