اس دفعہ یوم آزادی کے موقع پر اکادمی ادبیات پاکستان کا ملی مشاعرہ ملک بھر کے شعراء کی زد میں آگیا، جس کی وجہ محترم المقام حضرت افتخار عارف اور چل استاد کی مشاعرے میں موجودگی تھی۔ لوگوں نے براہ راست اکادمی کی سربراہ نجیبہ عارف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور پبلک فنڈز کے مخصوص اور پندیدہ لوگوں پر استعمال کیے جانے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
آج سے چالیس سال پہلے تک پاکستان کا ادبی منظر نامہ تہذیبی شناخت، فکری بالیدگی اور سماجی آگہی کا امین رہا ہے۔ یہ وہ مقدس محراب ہے جہاں الفاظ کی اینٹوں سے معاشرتی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ قومی زبان و ادب کے ادارے، جنہیں اس مقدس کام کی نگرانی کا ذمہ سونپا گیا ہے، پاکستان کی روحانی دولت کے امین ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ان اداروں کے انتظامی ماحول پر مباحث اور خدشات کا دھندلکا چھایا ہوا ہے۔
ادبی حلقوں میں یہ بات زیرِ بحث رہی ہے کہ کئی اہم ادبی و ثقافتی ادارے اور ان کے بورڈز آف ڈائریکٹرز ایک مخصوص دائرے کے زیرِ اثر چل رہے ہیں۔ مبصرین کا مشاہدہ ہے کہ طویل عرصے تک ان کی باگ ڈور ایک ہی گروہ یا ان سے وابستہ افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے او ابھی تک چلی آ رہی ہے۔ یہ صورتِ حال ایک نازک سوال کو جنم دیتی ہے: کیا انتظامی عہدوں اور تخلیقی پہچان کے درمیان مفاد کا ٹکراؤ ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا طویل کنٹرول تخلیقی تنوع اور نئے لہجوں کے فروغ میں رکاوٹ نہیں بن چکا؟
ادبی تقاریب اور ایوارڈز کسی بھی ملک کے ادبی منظر نامے کا تاج ہوتے ہیں جو تخلیق کار کی محنت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ بدقستمی سے، عرصہ دراز سے یہ شکایات سنائی دیتی ہیں کہ ادبی تقاریب پر ایک ہی مخصوص گروپ کا قبضہ ہے اور اب تو اکثر اوقات سول اعزازات بھی محض ایسے کمزور ادیبوں کو دیے جانے لگے ہیں جن کا کام نہ تو عوامی توجہ حاصل کر پاتا ہے اور نہ ہی تنقیدی حلقوں میں نمایاں مقام بنا پاتا ہے، جبکہ حقیقی معیاری کام نظر انداز ہو جاتا ہے۔
یہ صورتِ حال نہ صرف نظر انداز شدہ تخلیق کاروں کے لیے مایوسی کا باعث بنتی ہے، بلکہ ایوارڈز کے وقار کو بھی مجروح کرتی ہے۔ عوام اور ادب کے سنجیدہ قارئین کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر، یہ ملک کی تہذیبی شناخت کے ساتھ ناانصافی ہے جب ثانوی درجے کے کام کو اولین درجہ دیا جائے۔ ان ایوارڈز کے انتخاب کے لیے شفاف، غیر جانبدار اور کڑے ادبی معیار پر مبنی نظام کی از سرِ نو تشکیل اشد ضروری ہے۔
ادب کا مستقبل نوجوان لکھاریوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، مگر ایک اہم خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ موجودہ ڈھانچے میں نوجوان، غیر روایتی یا بااثر حلقوں سے دور رہنے والے تخلیق کاروں کو سرکاری سرپرستی اور پلیٹ فارمز ملنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اگر نئی مگر جینوئن آوازوں، نئے تجربات اور نئے موضوعات کو فروغ نہیں ملتا تو ادب جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ ادبی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ہر دور کے بہترین تخلیق کاروں کی شناخت کرے اور انہیں متعارف کروائے۔
ان تمام خدشات کا مقصد کسی فرد یا گروہ کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ پاکستان کے ادبی اداروں کو ہر طرح کی اجارہ داری اور قبضے سے واگزار کرواکے مضبوط، شفاف اور حقیقی معنوں میں نمائندہ بنانے کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اس مقصد کے لیے تجاویز پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے سب سے پہلے اداروں کے سربراہوں کے طور پر مدرسین کی ترجیح کو ختم کرنا ہوگا۔ تمام فیصلہ ساز بورڈز میں ملک بھر کے مختلف علاقوں، زبانوں اور ادبی رجحانات کے نمائندہ، معتبر اور غیر جانبدار ادیبوں، شاعروں اور ناقدین کو شامل کیا جائے۔
ہر ادبی ایوارڈ کے لیے نامزدگی کے معیار، جیوری کے اراکین کے نام اور ان کے انتخاب کی وجوہات کو عوامی سطح پر دستیاب کرایا جائے۔ تمام ادبی اداروں کے مالیاتی معاملات اور انتظامی فیصلوں کا باقاعدہ آڈٹ ہو اور نتائج شائع کیے جائیں۔ نوجوان اور ابھرتے ہوئے ادیبوں و شاعروں کے لیے علیحدہ پروگرامز، گرانٹس اور اشاعتی مواقع دیے جائیں۔ ادبی اداروں کو سیاسی یا بیوروکریٹک دباؤ سے مکمل طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ ان کا واحد مقصد پاکستانی ادب کی بہترین خدمت ہونا چاہیے۔
پاکستان کا ادب اس ملک کی روح ہے۔ قومی ادبی ادارے اس روح کے محافظ ہیں۔ ان کی سالمیت، شفافیت اور معیاری کارکردگی پوری قوم کی تہذیبی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ موجودہ مباحث اور خدشات درحقیقت ایک بیداری کی گھنٹی ہیں۔ یہ وقت کسی کو موردِ الزام ٹھہرانے کا نہیں، بلکہ اجتماعی دانش، بے غرضی اور محبِ وطن جذبے سے کام لے کر ان اداروں کی اصلاح اور تجدید کا ہے۔
ہمیں ایسا نظام تعمیر کرنا ہے جہاں تخلیقی قابلیت، ادبی معیار اور قومی نمائندگی ہی ترقی اور سرپرستی کی واحد بنیاد ہوں۔ جہاں ہر جینوئن تخلیق کار کو اس کا حق ملے، جہاں نئی آوازوں کو سننے اور پروان چڑھانے کا راستہ ہموار ہو اور جہاں پاکستان کا ادبی منظر نامہ اپنی پوری آب و تاب اور تنوع کے ساتھ دنیا کے سامنے روشن ہو سکے۔ یہی ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے اور یہی مستقبل کی ادبی تاریخ ہم سے تقاضا کرتی ہے۔ اگر یہ مثبت اور تعمیری اقدامات اٹھائے جانے ممکن نظر نہ آئیں تو مزید وقت اور وسائل ضائع کرنے کے بجائے ان اداروں کو تحلیل کردیا جائے۔