ملکوں اور معاشروں کی تعمیر ایک مسلسل عمل ہے۔ اس عمل میں حکومتیں بھی اپنی استطاعت کے مطابق بہتری کی کوشش کرتی ہیں اور عوام بھی اپنے کردار سے نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں ایسی کئی پالیسیاں سامنے آرہی ہیں جن پر ہمیں جذبات سے زیادہ حکمت اور خیرخواہی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست اور شہری ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھ سکیں۔
حالیہ ایّام میں حکومت کی جانب سے ٹریفک قانون پر سختی، دستاویزات کی پابندی اور جرمانوں کے نفاذ نے بلاشبہ لوگوں کی روزمرہ زندگی میں ایک نیا ارتعاش پیدا کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ لمحہِ فکریہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم قانون پسندی اور نظم و ضبط کے کلچر کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بہت سی آسانیاں صرف اس وجہ سے موجود ہیں کہ وہاں شہری اصولوں کو اپنی ذمے داری سمجھ کر نبھاتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی یہی راستہ حکمت بھرا اور محفوظ ہے۔
توانائی اور سہولتوں کا بحران یقیناً عوام کے لیے آزمایش ہے، مگر ہمیں اس حقیقت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مسائل کا حل اجتماعی دانش، صبر اور درست سمت میں مستقل مزاجی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ جہاں حکومت سے بہتری کی توقع ہے، وہیں عوام کو بھی یہ سمجھنا ہے کہ وسائل محدود ہونے سے نظم بدلا نہیں کرتا، بلکہ نظم اپنایا جاتا ہے۔ شہری اگر ٹریفک اصولوں، بجلی کے استعمال اور دستاویزات کے نظم میں اپنا کردار ادا کریں تو حکومتی اقدامات بھی زیادہ مؤثر ہو جاتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے سے متعلق پالیسیوں پر بھی سادہ جذبات سے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ حکومت چاہے تو سرکاری اداروں کو بہتر بنا سکتی ہے اور نجی اداروں کو مناسب ریگولیشن کے تحت چلا سکتی ہے، مگر والدین اور اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جو قومیں تعلیم کو محض سرکاری ذمے داری نہیں سمجھتیں بلکہ اسے اپنی اخلاقی اور سماجی ترجیح بناتی ہیں، وہی کامیاب ہوتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون اور بہتری کی اجتماعی سوچ کو فروغ دیں، تاکہ آنے والی نسلیں محفوظ مستقبل پا سکیں۔
اسی طرح بے روزگاری اور ہجرت جیسی مشکلات میں بھی یہ ضروری ہے کہ حکومت اپنے نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرے، جبکہ نوجوان بھی اپنی محنت، مہارت اور ثابت قدمی کو اپنے راستے کا حصہ بنائیں۔ دنیا کی کوئی کامیاب ریاست اس وقت تک مستحکم نہیں ہوئی جب تک اس کے شہریوں نے صبر، دیانت اور جدوجہد کو اپنا شعار نہ بنایا ہو۔
آج ٹریفک پولیس یا دیگر اداروں کی فعالیت بظاہر سختی دکھائی دیتی ہے، تاہم یہ سختی انصاف، شفافیت اور سہولت کے ساتھ ہو تو یہی نظم و ضبط مستقبل میں آسانیوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ قانون سب کے لیے یکساں ہو اور اس پر عمل پیرا ہونے میں شہری بھی وقار اور امن کا ساتھ دیں۔ ہمیں حکومت سے یہ خیرخواہانہ توقع بھی رکھنی چاہیے کہ صرف چالان یا سزا پر انحصار کرنے کے بجائے سہولتوں، روزگار کے مواقع، تعلیم کے فروغ، صحت کے نظام اور انصاف کے مؤثر طریقوں پر توجہ بڑھائے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ عوام کو یہ احساس دلائے کہ وہ ان کی مشکلات کو سمجھتی ہے اور ان کے بوجھ کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سمیت تمام حکومتی ذمہ داران کے لیے یہ لمحہِ تدبر ہے کہ خدمت کا اصل معیار وہی ہے جو دلوں کو اطمینان دے، خوف کم کرے اور امید بڑھائے۔ قومیں بوجھ سے نہیں اٹھائی جاتیں، اعتماد سے اٹھتی ہیں۔ قانون کی موجودگی نعمت ہے، مگر اس کا مقصد سہولت ہونا چاہیے، دباؤ نہیں۔
ملک نظم، قانون اور دیانت سے چلتا ہے مگر اس کے ساتھ امید، سہولت اور انصاف بھی ضروری ہیں۔
حکومت اگر قانون مضبوط کرے تو ساتھ عوام کی زندگی کو بھی مضبوط بنائے کیونکہ قومیں چالانوں سے نہیں، اعتماد اور آسانیوں سے آگے بڑھتی ہیں۔ اللہ کرے ہمارا ملک وہ مقام پائے جہاں نہ بیجا سختی ہو، نہ بیسمت آزادی۔ بلکہ ایک ایسا متوازن نظام ہو جس میں ریاست بھی مہربان ہو اور عوام بھی ذمہ دار۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ عزت اسی حکمران کو ملتی ہے جو حکومت کو اقتدار و اختیار کی بجائے ذمہ داری اور خود کو جوابدہ سمجھتا ہے۔