Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Farhat Abbas Shah/
  3. Dehshatgardi Ki Haliya Lehr, Wajoohat o Khadshat

Dehshatgardi Ki Haliya Lehr, Wajoohat o Khadshat

دنیا کے کسی بھی ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کو محض مقامی سیاق و سباق میں دیکھنا حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے ناکافی ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کے لیے جہاں مشکلات پر غور کرتے وقت تمام تر سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ آخر کیوں جب بھی پاکستان ترقی کے ٹریک پر چلنا شروع ہوتا ہے، اندرونی و بیرونی سازشیں، جلوس، انتشار، رکاوٹیں، حملے اور دہشت گردی زور پکڑ لیتی ہیں۔

موجودہ صورتحال میں پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا کر رہا ہے، جس کے سب سے گہرے اثرات خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر مرتب ہو رہے ہیں، جہاں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور آئی ایس کے پی جیسی تنظیمیں غیر ملکی محفوظ پناہ گاہوں سے سرگرم ہیں اور اندرونی سیاسی انتشار اور تقسیم سے تقویت حاصل کر رہی ہیں۔ ان دہشت گردوں کی ڈوریاں سی آئی اے اور را کے ہاتھ میں ہیں اور ماضی میں پی ٹی آئی حکومت کے مذاکراتی رویے نے ٹی ٹی پی کو ازسر نو منظم ہونے کا موقع دیا، جبکہ آج بھی خیبر پختونخوا میں اسی طرح کا رویہ کاؤنٹر ٹیررازم کی کوششوں کو کمزور کر رہا ہے۔

پی ٹی آئی کی قیادت کا نابالغانہ رویہ، جو اقتدار کی حرص سے مغلوب ہے، ریاست مخالف جذبات بھڑکانے میں مصروف ہے، جبکہ ٹی ٹی پی اور افغان سرپرستی پر ان کی نرمی اور پی ٹی ایم و اے این پی کی ریاست مخالف تعبیرات قومی بیانیے پر بہیمانہ وار کر رہی ہیں۔ ان سب نے ریاستی بیانیوں کو ڈالر وار کا نام دے کر شہداء کی قربانیوں کی توہین کی ہے اور عوامی اعتماد پر کاری ضرب لگائی ہے۔ 2021ء میں امریکی انخلا کے بعد دہشت گرد دراندازی میں اضافہ ہوا ہے، جس میں 70 سے 80 فیصد دہشت گرد افغان شہری ہیں جنہیں ٹی ٹی پی پاکستان لانے اور رہنمائی فراہم کرنے کا کردار ادا کرتی ہے اور صرف 2025ء میں 126 افغان دہشت گرد پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

افغان سرزمین پر 57 سے زائد دہشت گرد کیمپس اب بھی لانچ پیڈ کے طور پر فعال ہیں اور افغان حکومت کی کارروائیاں محض سطحی اور نمائشی ہیں، جبکہ پاکستان میں سیاسی انتشار اور مختلف بیانیے دہشت گردوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں اور شہداء کے خاندان سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کی قربانیوں کا احترام کیا جا رہا ہے۔

اس بحران کے حل کے لیے ایک جامع قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت تمام سیاسی قوتوں کا دہشت گرد تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف غیر مبہم اور مشترکہ بیانیہ اپنانا، افغانستان کے باب میں دو طرفہ، علاقائی اور اقوام متحدہ کی سطح پر سخت مؤقف اپنا کر افغان حکومت پر دباؤ ڈالنا کہ وہ پناہ گاہیں ختم کرے اور لانچ پیڈز بند کرے، غیر ملکی مہاجرین کی بتدریج مگر غیر مبہم واپسی کو انسانی وقار اور قانون کے مطابق یقینی بنانا تاکہ دہشت گردی کے نیٹ ورکس ٹوٹ سکیں، بیانیہ وار فیئر کے ذریعے پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور اے این پی کی دوہرے معیار والی سیاست کو شواہد و دلیل کے ساتھ بے نقاب کرنا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نفاذ، فاٹا کے انضمام کی مؤثر پالیسی اور مقامی عمائدین، علما، نوجوانوں اور انفلوئنسرز کو ساتھ ملا کر ریاستی کمٹمنٹ کا عملی اظہار کرنا، نیز انسداد دہشت گردی قوانین کا شفاف نفاذ کرتے ہوئے پروپیگنڈا اور سہولت کاری کرنے والوں پر مؤثر قانونی چارہ جوئی کو یقینی بنانا شامل ہے۔

یہ جنگ محض عسکری نہیں بلکہ سیاسی، نظریاتی اور سماجی بھی ہے اور افغان سرپرستی کا خاتمہ، مہاجرین کی واپسی اور اندرونی سیاسی ہم آہنگی کے بغیر دہشت گردی کی نئی لہر کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں، صرف ایک جامع قومی حکمتِ عملی ہی پائیدار امن اور استحکام کی ضمانت دے سکتی ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی موجودہ دہشت گردی کی لہر کوئی اچانک واقعہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل المدتی تاریخی تناظر اور علاقائی سیاست کے گہرے اثرات کارفرما ہیں۔ 1979ء کی سوویت جنگ سے لے کر موجودہ دور تک، افغانستان ہمیشہ سے بین الاقوامی طاقتوں کی war proxy کا مرکز رہا ہے، جس کے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں ایک طرف افغان طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف بھارت نے اپنی علاقائی بالادستی کی خواہش کے تحت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات اور ریاست مخالف بیانیے درحقیقت ملک کی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے امن کے محافظوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ محکمہ داخلہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، صرف جنوری سے مارچ 2025ء تک پاکستان کے 100 سے زائد سیکورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں، جبکہ عام شہریوں کے نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ہمارے امن کے محافظوں کی قربانیوں کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اس بات کی شدید ضرورت بھی ظاہر کرتے ہیں کہ قومی سطح پر ایک متفقہ اور جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے تو ہمیں اپنے داخلی محاذ کو مستحکم کرنا ہوگا۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ اقتدار کی سیاست سے بالا تر ہو کر ملکی سلامتی کے مفادات کو ترجیح دیں۔ پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور اے این پی جیسی جماعتوں کو اپنے ریاست مخالف بیانیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے اور قومی مفاد میں ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ان جماعتوں کے لیڈران کو سمجھنا چاہیے کہ ریاست کے خلاف بیانات دینا درحقیقت دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔

دوسری اہم بات افغانستان کے ساتھ تعلقات کی ہے۔ افغان حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان دوستی کا خواہاں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سلامتی کے مفادات کا تحفظ بھی اولین ترجیح ہے۔ ہمیں بین الاقوامی فورمز پر افغانستان میں موجود دہشت گرد کیمپوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے اور عالمی برادری کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہمیں اس معاملے کو اٹھانا چاہیے اور افغان حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہیے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔

تیسرا اہم پہلو مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کے باعث پاکستان کی معیشت پر بہت بوجھ پڑ رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان میں چھپے دہشت گرد عناصر سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ ہمیں ان مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک منظم اور مرحلہ وار حکمت عملی اپنانی چاہیے، جس میں بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ان کی واپسی کو انسانی طریقے سے ممکن بنایا جائے۔

چوتھا نکتہ سماجی و اقتصادی ترقی کا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کو تیز کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے ہوں گے تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے بہکاوے میں نہ آسکیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بہتری لانی ہوگی اور علاقائی لوکل گورنمنٹ کے نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔

پانچواں اہم قدم کاؤنٹر ٹیررازم کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور تربیت پر سرمایہ کاری ہے۔ ہمارے سیکورٹی فورسز کو جدید ترین اسلحہ اور تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا اور علاقائی ممالک کے ساتھ باہمی تعاون بڑھانا ہوگا۔

آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمارے دشمن ہمارے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں ہر پاکستانی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی مفاد کو ذاتی یا سیاسی مفادات پر ترجیح دے۔ ہمیں اپنے شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہوگا اور ان کی عظیم قربانیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پرامن اور خوشحال پاکستان بنانا ہے اور اس کے لیے ہمیں آج ہی اٹھ کھڑے ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں گے اور اپنے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔

یہ جنگ صرف فوج کی نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی اپنی جنگ ہے۔ ہمیں اپنے گھروں، اپنے معاشروں اور اپنے ملک کو دہشت گردی کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان ہماری سب سے بڑی طاقت ہے اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آئیے، مل کر عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کو دہشت گردی کے اس عفریت سے نجات دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ہمارے شہداء کی قربانیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمیں ان کی قربانیوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے پرامن اور خوشحال رہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran