استنبول کی خنک شاموں میں جب بوسپورس کی لہریں شہر کی پرانی عمارتوں سے ٹکرا رہی تھیں، ایک ہوٹل کے کانفرنس ہال میں پاکستان اور افغانستان کے نمائندے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ باہر ترک میڈیا کے کیمرے روشن تھے، مگر اندر فضا میں ایک عجیب سا تناؤ تھا جیسے کسی بڑی پیش رفت سے پہلے سب کی سانسیں تھم گئی ہوں۔ ترکی اور قطر کے نمائندے ثالث کے طور پر موجود تھے۔
دونوں فریقوں کے درمیان یہ کئی گھنٹوں پر مشتمل بات چیت تھی، جس سے دنیا کو امید تھی کہ شاید برسوں سے جاری کشیدگی کے بادل چھٹ جائیں۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ شروع سے ہی افغان وفد کا رویہ سرد اور غیر لچکدار دکھائی دیا۔ وہ بات سن کر خاموش ہو جاتے، کبھی طنزیہ انداز میں مسکرا دیتے اور کبھی ایسے جملے کہہ جاتے جن سے ماحول مزید بوجھل ہو جاتا۔ قطری اور ترک ثالثوں کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ شاید یہ وفد صلح کے لیے نہیں، وقت گزارنے کے لیے آیا ہے۔
پاکستانی وفد نے پوری سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا۔ ان کا مطالبہ واضح اور دوٹوک تھا۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستانی وفد نے ٹھوس شواہد پیش کیے، دہشت گردوں کی نقل و حرکت، ان کے اڈوں اور ان کی کارروائیوں کی ویڈیوز اور دستاویزات سامنے رکھیں۔ مگر افغان نمائندوں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی، کبھی کہا شواہد نامکمل ہیں، کبھی کہا کہ یہ ان کے دائرۂ اختیار میں نہیں۔
مذاکرات کے دوران بار بار ایک منظر دہرایا جاتا افغان وفد کے ارکان وقفے کے نام پر باہر جاتے، موبائل فون پر لمبی بات چیت کرتے، پھر واپس آ کر وہی مؤقف دہراتے جو کابل سے آتا۔ ترک اور قطری ثالثوں نے حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، جیسے سب کچھ سمجھ تو رہے ہوں مگر کہہ نہ سکتے ہوں۔ پاکستانی وفد کی قیادت جنرل شہاب اسلم کر رہے تھے۔ ان کا لہجہ پرسکون مگر فیصلہ کن تھا۔ جب افغان وفد نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کا ذکر چھیڑا تو جنرل شہاب نے نرمی مگر مضبوطی سے جواب دیا: "اپنی سرزمین سے دشمنانہ کارروائیاں روکنا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ اپنی حدود سے حملے رکوا لیں تو ہمیں بھی کسی کارروائی کی ضرورت نہیں پڑے گی"۔
یہ جملہ کمرے میں گونج گیا۔ چند لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ ثالثوں نے بات کو نرم کرنے کی کوشش کی، لیکن اختلاف کی لکیر گہری ہوتی جا رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے ایک بات بار بار دہرائی گئی ہم امن چاہتے ہیں، مگر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اگر افغانستان کے اندر سے دہشت گرد پاکستان کے شہریوں پر حملے کرتے رہے تو اسلام آباد اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھے گا۔ دوسری طرف افغان وفد ایک نئی شرط لے آیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کریں تو پاکستان وعدہ کرے کہ وہ افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ پاکستانی وفد نے صاف جواب دیا: پاکستان کسی تیسرے ملک کے یکطرفہ اقدامات کا ضامن نہیں بن سکتا۔ یوں گفتگو میں ایک بار پھر رکاوٹ آگئی۔
مذاکرات کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔ ذراع کے مطابق 27 اور 28 اکتوبر کی درمیانی شب بات چیت اٹھارہ گھنٹے تک چلی۔ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ دونوں فریقین نے مسودے پر اتفاق کیا، لیکن ہر بار افغان وفد آخری لمحے پر پیچھے ہٹ گیا۔ جنرل شہاب نے تیسری بار مسودہ طے ہونے پر افغان وفد سے مسکرا کر کہا، اسلام میں کہا گیا ہے کہ جو وعدہ تین بار دہرایا جائے وہ حتمی ہوتا ہے، کیا اب یہ حتمی ہے؟
افغان نمائندے بولے: "جی، بالکل"۔
مگر چند لمحوں بعد وہ کمرے سے باہر گئے، کابل سے فون پر بات کی اور واپس آ کر کہہ دیا کہ وہ معاہدے پر دستخط نہیں کر سکتے۔ یہ لمحہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ قطری اور ترک ثالث ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ایک ثالث نے بے ساختہ کہا۔
اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے اور معاف کرے۔
یوں کئی دنوں کی محنت، طویل نشستوں اور امیدوں کا سارا سلسلہ وہیں ٹوٹ گیا۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات تین دن تک جاری رہے۔ پہلے دن 19 گھنٹے، دوسرے دن 11 گھنٹے، تیسرے دن 18 گھنٹے۔ ہر نشست میں پاکستان نے ایک ہی بات پر زور دیا: افغان طالبان ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کی پشت پناہی ختم کریں اور اس بات کی ضمانت دیں کہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ کئی مواقع پر افغان وفد پاکستانی مؤقف کو درست تسلیم کر لیتا تھا، مگر جیسے ہی دستخط کا مرحلہ قریب آتا، کابل سے کوئی پیغام آتا اور ساری بات وہیں رک جاتی۔ ثالثوں کے مطابق اصل رکاوٹ افغان وفد نہیں بلکہ کابل میں بیٹھے وہ عناصر ہیں جو کسی بھی سمجھوتے سے خوفزدہ ہیں۔
پاکستان نے اپنی روایتی بردباری برقرار رکھی۔ ترک اور قطری نمائندوں کی درخواست پر اسلام آباد نے کہا کہ وہ ایک اور موقع دینے کو تیار ہے۔ یہ پاکستان کے عزم، سنجیدگی اور امن پسندی کا ثبوت تھا۔ ان مذاکرات کی ناکامی نے ایک بار پھر یہ بات واضح کر دی کہ مسئلہ نیت کا ہے، زبان کے وعدوں کا نہیں۔ پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے عوام بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک ذمہ دار ریاست ہے۔
استنبول کی وہ رات جب مذاکرات ختم ہوئے، ہوٹل کے دروازے سے باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ سب کے چہروں پر تھکن تھی، مگر پاکستانی وفد کے چہروں پر سکون تھا، وہ سکون جو سچ بولنے والے کو ملتا ہے۔ ان کے لیے معاہدہ نہ ہونا بھی ایک سچ تھا، کیونکہ امن صرف لفظوں سے نہیں، عمل سے آتا ہے اور عمل فی الحال کابل کی خاموش گلیوں میں کہیں گم ہو چکا تھا۔