پاکستان میں ہمیشہ سے یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ مسلح افواج کے سربراہان کی مدتِ ملازمت کتنی ہے اور کیا یہ مدت کسی وقت حکومت کی خواہش یا کسی غیر معمولی صورتِ حال کے تحت بڑھائی یا کم کی جا سکتی ہے۔ یہ سوال کئی بار سیاسی مباحث کا موضوع رہا اور کبھی کبھار عدالتوں تک بھی جا پہنچا۔ ماضی میں مختلف مواقع پر فوجی سربراہوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع دی جاتی رہی، کبھی ایگزیکٹو فیصلوں کے ذریعے تو کبھی صدارتی احکامات سے۔ ان فیصلوں پر تنقید بھی ہوتی رہی اور یہ بھی کہا جاتا رہا کہ اس سلسلے میں کوئی واضح قانونی فریم ورک موجود نہیں۔
2019ء میں جب سپریم کورٹ میں اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف مقدمہ زیرِ سماعت آیا تو عدالتِ عظمیٰ نے کھل کر یہ بات سامنے رکھی کہ فوجی سربراہان کی تعیناتی اور مدتِ ملازمت سے متعلق قوانین میں واضح اور صریح دفعات موجود نہیں ہیں۔ عدالت نے یہ معاملہ پارلیمان کو بھیج دیا اور کہا کہ اگر واقعی یہ قومی ضرورت ہے تو اس پر قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ ہر بار غیر یقینی کیفیت پیدا نہ ہو اور ریاست کے سب سے بڑے ادارے کی قیادت کے حوالے سے شکوک و شبہات نہ ابھریں۔
اسی عدالتی ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے پارلیمان نے 2024ء میں ایک جامع قانون سازی کی جس نے تینوں افواج یعنی آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان کی مدتِ ملازمت کو پانچ سال کے لیے مقرر کر دیا۔ یہ ترامیم محض وقتی یا وقتی سیاسی ضرورت کے تحت نہیں کی گئیں بلکہ یہ ایک دیرپا اور پائیدار انتظامی و قانونی حل تھا جسے ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے یعنی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ یہ ترامیم اب پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء، پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961ء کا مستقل حصہ ہیں اور ان پر مکمل عملدرآمد جاری ہے۔
آرمی ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف کی مدتِ ملازمت پانچ سال ہوگی اور اگر کسی وجہ سے دوبارہ تقرری یا توسیع دی جاتی ہے تو وہ بھی زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک ہو سکتی ہے۔ اس قانون میں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت کے دوران ریٹائرمنٹ کی عمر یا سروس کی حد کا اطلاق نہیں ہوگا۔ گویا ایک مرتبہ جب آرمی چیف مقرر کر دیا جائے تو وہ اپنی مقررہ مدت مکمل کرے گا اور اس دوران کوئی انتظامی ابہام یا رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی۔ بالکل یہی اصول نیوی اور ائیر فورس کے لیے بھی اختیار کیا گیا ہے۔ نیول چیف اور ائیر چیف کی مدتِ ملازمت بھی پانچ سال مقرر کر دی گئی ہے اور ان کی تعیناتی یا توسیع کے دوران بھی سروس کی عمر یا ریٹائرمنٹ کی حد لاگو نہیں ہوگی۔ اس طرح تینوں افواج کے سربراہان کے لیے ایک مساوی اور ہم آہنگ نظام بنا دیا گیا ہے تاکہ آئندہ کسی سطح پر کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔
یہ قانون سازی محض کاغذی کارروائی نہیں بلکہ عملی طور پر نافذ ہے اور اس کے تحت موجودہ فوجی سربراہان اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابَر سدھو نے 19 مارچ 2021ء کو کمان سنبھالی اور رائج قانون کے مطابق وہ 19 مارچ 2026ء تک اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کریں گے۔ اسی طرح فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے 29 نومبر 2022ء کو چیف آف آرمی اسٹاف کا منصب سنبھالا اور قانون کے مطابق ان کی مدتِ ملازمت 29 نومبر 2027ء تک ہے۔ نیول چیف بھی اسی قانون کے تحت اپنی مدت پوری کر رہے ہیں۔ یہ مثالیں اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ قانون پر عملدرآمد جاری ہے اور کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ اس کا سب سے اہم جواب یہ ہے کہ ماضی میں آرمی چیفس کی مدتِ ملازمت میں توسیع یا دوبارہ تقرری ہمیشہ ایک تنازع کی صورت اختیار کر جاتی تھی۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام لگاتی تھیں، عدالتوں میں درخواستیں دائر کی جاتی تھیں اور میڈیا میں بے یقینی کی فضا پیدا ہو جاتی تھی۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ریاستی اداروں کے وقار کو پہنچتا تھا اور کبھی کبھار قومی سلامتی کے امور بھی غیر یقینی کیفیت میں نظر آنے لگتے تھے۔ اب جبکہ پارلیمان نے یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل کر دیا ہے، تو اس سے نہ صرف قیادت میں تسلسل آیا ہے بلکہ ادارہ جاتی استحکام بھی یقینی دکھائی دیتا ہے۔
مزید یہ کہ اس قانون سازی نے عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان اس معاملے پر موجود ممکنہ تصادم کے خطرے کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اب اگر کسی چیف کی مدتِ ملازمت کا سوال اٹھتا ہے تو اس کا جواب سادہ ہے، قانون کہتا ہے کہ یہ مدت پانچ سال ہے۔ نہ کسی نئی توسیع کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے، نہ ہی کوئی ابہام باقی رہتا ہے۔ یہ واضح اور دو ٹوک قانون ملک میں آئین کی بالادستی اور اداروں کی ہم آہنگی کا ثبوت ہے۔
کچھ ناقدین یہ سوال ضرور اٹھاتے ہیں کہ آیا پانچ سال کی مدت زیادہ لمبی ہے یا اس سے کمانڈ میں جمود پیدا ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچ سال کی مدت دراصل پالیسی کے تسلسل اور دفاعی منصوبہ بندی کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں فوجی سربراہان کو ایک مقررہ طویل مدت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی حکمت عملی کو نافذ کر سکیں اور ادارے کو ایک واضح سمت دے سکیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت کے حالات اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے یہی سب سے مناسب مدت سمجھی گئی ہے۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ قانون نہ صرف ایک انتظامی خلا کو پر کرتا ہے بلکہ یہ پاکستان کی جمہوری اور آئینی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت بھی ہے۔ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اب ریاست کے بڑے ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چل رہے ہیں اور قانون سازی کے ذریعے ان امور کو مستقل حل دیا جا رہا ہے جن پر ماضی میں بار بار بحث ہوتی رہی ہے۔ آج پاکستان کے تینوں مسلح افواج کے سربراہان ایک واضح قانونی مدت کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں اور ان کی مدتِ ملازمت نہ تو کسی حکومتی ایگزیکٹو حکم پر منحصر ہے اور نہ ہی کسی صدارتی نوٹیفکیشن پر۔
یہ سب پارلیمان کی منظور کردہ قانون سازی کا نتیجہ ہے، جس نے یہ باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے کہ مدتِ ملازمت کے معاملے پر کوئی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو یا تنازع کھڑا ہو۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ 2024ء کی یہ قانون سازی پاکستان میں نہ صرف ایک بڑا قانونی و آئینی قدم تھی بلکہ یہ قومی سلامتی، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور قیادت کے تسلسل کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔ اب یہ معاملہ کسی نئی قانون سازی کا محتاج نہیں رہا بلکہ مکمل طور پر واضح اور طے شدہ ہے۔ آنے والے برسوں میں بھی یہی قانون رہنمائی کرے گا اور مسلح افواج کے سربراہان اپنی پانچ سالہ مدت کے مطابق ذمہ داریاں سنبھالتے اور منتقل کرتے رہیں گے۔
ادارہ جاتی استحکام اور آئین کی بالادستی کسی بھی ریاست کے لیے ناگزیر ہے۔ پارلیمان کی بروقت اور متفقہ قانون سازی نے ایک ایسا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے جو ماضی میں قومی مباحث، عدالتی تنازعات اور سیاسی ہلچل کا باعث بنتا رہا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ریاستی ادارے اس استحکام کو مزید مضبوط کریں تاکہ پاکستان کے دفاع اور جمہوری عمل دونوں کو ایک ساتھ مستحکم بنیاد مل سکے۔