Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Farhat Abbas Shah/
  3. Pakistan Ki Muashi Taraqi Ka Naya Safar Aur Aalmi Tawaquat

Pakistan Ki Muashi Taraqi Ka Naya Safar Aur Aalmi Tawaquat

پاکستان اس وقت اپنی معاشی تاریخ کے ایک نازک مگر امید افزا موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف عالمی مالیاتی دباؤ، مہنگائی، تجارتی خسارہ اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے، تو دوسری طرف ترقی، استحکام اور علاقائی رابطوں کے نئے امکانات ابھر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان چین کی طرز پر "پاکستان۔ سعودی اکنامک کوریڈور" کے قیام کی پیش رفت ایک غیر معمولی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ منصوبہ جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور رابطوں کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ تجزیہ کار اسے پاکستان کی معاشی تاریخ کے لیے "دوسرا سی پیک" قرار دے رہے ہیں، ایک ایسا معاشی وڑن جو پاکستان کو خلیجی دنیا سے جوڑ کر ترقی، صنعت اور ٹیکنالوجی کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ اقتصادی راہداری چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی طرز پر قائم کی جا رہی ہے، جو سعودی عرب کے ویژن 2030ء اور پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات سے ہم آہنگ ہے۔ سعودی عرب اس منصوبے میں نہ صرف سرمایہ کاری کرے گا بلکہ توانائی، معدنیات، زراعت، سیاحت، آئی ٹی اور ہاؤسنگ جیسے شعبوں میں شراکت داری کو فروغ دے گا۔ دوسری جانب پاکستان اس منصوبے کے ذریعے اپنی برآمدات بڑھانے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ایک 18 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی ہے جو پاکستان۔ سعودی اقتصادی فریم ورک کے تحت مذاکرات اور عملی اقدامات کی نگرانی کرے گی۔ اس کمیٹی کا دائرہ کار روایتی توانائی یا دفاعی شعبوں سے آگے بڑھ کر ماحولیات، تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی اور گرین انرجی جیسے نئے میدانوں کو شامل کرتا ہے، جو ایک جدید اور پائیدار معاشی وڑن کی علامت ہے۔

پاکستان کی معیشت، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قرضوں، غیر مستحکم مالیاتی پالیسیوں اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مشکلات کا شکار رہی، اب ایک ایسے مرحلے پر ہے جہاں علاقائی تعاون اور اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے ذریعے استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سی پیک نے پاکستان کو چین کے ساتھ صنعتی، تجارتی اور انفراسٹرکچر کے میدان میں نئی بنیادیں فراہم کیں اور اب پاکستان۔ سعودی اکنامک کوریڈور ان امکانات کو مشرقِ وسطیٰ تک وسعت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ راہداری نہ صرف تجارت کا راستہ بنے گی بلکہ ثقافتی، تعلیمی اور انسانی وسائل کے تبادلے کا پلیٹ فارم بھی ثابت ہوگی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ ویژن 2030ء کے اصولوں کے مطابق آگے بڑھتا ہے تو پاکستان میں بڑے پیمانے پر صنعتی زونز، جدید توانائی منصوبے اور سرمایہ کاری کے مراکز قائم ہو سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف روزگار کے نئے دروازے کھلیں گے بلکہ پاکستان کے نوجوان طبقے کے لیے مہارت، تربیت اور ٹیکنالوجی تک رسائی کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ یہ منصوبہ پاکستان کے لیے ایک نیا "تعمیر و ترقی ماڈل" فراہم کر سکتا ہے جس میں پائیدار ترقی، ماحولیاتی تحفظ اور سمارٹ اکانومی کے اصول بنیادی کردار ادا کریں گے۔

تاہم اس ترقیاتی سفر کی اصل کامیابی کا انحصار صرف پالیسیوں یا معاہدوں پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کے ثمرات عوام تک کتنی جلدی اور کتنے منصفانہ طور پر پہنچتے ہیں۔ پاکستان کے کروڑوں غریب عوام آج بھی بہتر زندگی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، صاف پانی، رہائش اور انصاف جیسے بنیادی حقوق اُن کے لیے آج بھی ایک خواب کی مانند ہیں۔ ہر بڑی اقتصادی پیش رفت اُس وقت تک حقیقی ترقی نہیں بن سکتی جب تک اس کے فوائد عام شہری تک نہ پہنچیں۔

پاکستان کے کسان، مزدور، محنت کش، طالب علم، نرسیں، معمولی ملازمین اور چھوٹے کاروباری طبقے سب اس انتظار میں ہیں کہ ملکی ترقی کے یہ بڑے منصوبے ان کی روزمرہ زندگی میں آسانی اور خوشحالی کب لارے ہیں۔ حکمران مانیں یا نہ مانیں معیشت کی بحالی اور ترقی کے حقیقی اشاریے بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کے پیش کردہ نہیں بلکہ عوام کی حالت سے عیاں ہوتے ہیں۔ بجلی کے بل، پٹرول کی قیمت اور ٹیکسز کی نوعیت سے بڑا کوئی اشاریہ کیا ہوسکتا ہے۔

پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ نچلی سطح پر بھی سرمایہ کاری کی جائے۔ چھوٹی صنعتوں، زرعی اصلاحات، صحت عامہ اور تعلیم کے میدان میں جدید نظام لائے بغیر معاشی استحکام محض اعداد و شمار کا کھیل بن کر رہ جائے گا۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ پاکستان۔ سعودی اقتصادی فریم ورک میں ماحولیاتی استحکام اور انسانی وسائل کی ترقی کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ منصوبہ محض انفراسٹرکچر تک محدود نہیں بلکہ ایک جامع سماجی و معاشی ترقیاتی ویژن رکھتا ہے۔

پاکستان کا یہ نیا معاشی سفر محض حکومتی کامیابی نہیں بلکہ قومی اجتماعی شعور کا امتحان بھی ہے۔ ریاست، سرمایہ کار، عوام اور ادارے سب اگر ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ آگے بڑھیں تو پاکستان ایک پائیدار ترقی کی مثال بن سکتا ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے اقتصادی نقشے میں وہ ممالک آگے بڑھ رہے ہیں جو علم، ٹیکنالوجی، شفافیت اور انسانی سرمائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہی وقت ہے کہ وہ محض امداد کی معیشت سے نکل کر پیداوار، تحقیق، اختراع اور تجارت پر مبنی معیشت کی طرف قدم بڑھائے۔

پاکستان۔ سعودی اکنامک کوریڈور اس سفر کی ایک اہم کڑی بن سکتا ہے۔ ایک ایسا پل جو ماضی کی کمزوریوں اور مستقبل کی امیدوں کو جوڑتا ہے۔ اگر اس منصوبے کو شفافیت، قومی مفاد اور علاقائی توازن کے ساتھ آگے بڑھایا گیا تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ مگر یہ تبدیلی اُس وقت حقیقی معنوں میں کامیاب ہوگی جب پاکستان کے عام شہری کو یہ محسوس ہوگا کہ ترقی کے ثمرات صرف اشرافیہ تک محدود نہیں بلکہ اُس کے گھر، اُس کے سکول، اُس کے ہسپتال اور اُس کے مستقبل تک پہنچ رہے ہیں۔

پاکستان کے عوام، جو طویل عرصے سے قربانیاں دے رہے ہیں، اب امید کی اس نئی روشنی کے منتظر ہیں۔ ایک ایسے معاشی نظام کے جو ان کے بچوں کو تعلیم، نوجوانوں کو روزگار، مریضوں کو علاج اور محنت کشوں کو عزت دے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ترقی کے اعداد و شمار کو انسانی خوشحالی کے پیمانے سے ناپا جائے۔ پاکستان اگر اس وڑن کو حقیقت بنا سکا تو یہ صرف ایک اقتصادی کامیابی نہیں بلکہ ایک قومی احیاء کی داستان ہوگی۔ ایک ایسے ملک کی جو مشکلات سے لڑ کر اپنے عوام کے لیے نئی زندگی تراش رہا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran