Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Farhat Abbas Shah/
  3. Tarmeemi Match Mein Bilawal Bhutto Ka Chakka

Tarmeemi Match Mein Bilawal Bhutto Ka Chakka

ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری پاکستان کے آئینی اور ادارہ جاتی ارتقاء کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں دفاعی، عدالتی اور حکومتی ڈھانچے کے درمیان ایک نیا توازن قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ "کسی کا باپ بھی اس ترمیم کو ختم نہیں کر سکتا" محض سیاسی نعرہ نہیں بلکہ ترمیمی میچ میں لگایا جانے والا جیت کا چھکا اور ایک تاریخی اعلان ہے جو ریاستی اداروں کی آئینی مرکزیت اور عسکری قیادت کے کردار کو ایک نئی آئینی جہت عطا کرتا ہے۔

ان کا کہنا کہ "پوری دنیا ہمارے سپہ سالار کو سراہ رہی ہے" اس امر کی علامت ہے کہ سیاسی قیادت اور عسکری ادارے ایک ہی قومی بیانیے پر متفق دکھائی دے رہے ہیں، یعنی پاکستان کو ادارہ جاتی ہم آہنگی، دفاعی تسلسل اور انتظامی استحکام کی سمت میں بڑھنا ہے۔ ستائیسویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 243 میں جو بنیادی تبدیلی کی گئی ہے، اس نے پاکستان کی فوجی قیادت کے ڈھانچے کو از سرِ نو ترتیب دیا ہے۔

اب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کرکے چیف آف ڈیفنس فورسز کے نام سے ایک متحدہ عسکری قیادت تشکیل دی گئی ہے، جو بری، بحری اور فضائیہ کے درمیان آپریشنل، کمانڈ اور اسٹریٹیجک سطح پر براہِ راست ربط و تعاون کو یقینی بنائے گی۔ اس کے ساتھ ہی فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ اب فوجی قیادت کا استحقاق محض اعزازی نہیں بلکہ آئینی درجہ رکھتا ہے، جس سے دفاعی ڈھانچے میں تسلسل اور ادارہ جاتی وقار بڑھایا جا رہا ہے۔ اس اقدام سے جہاں عسکری نظم و نسق میں وضاحت آئے گی، وہیں قومی دفاع کی مربوط پالیسی سازی میں بھی تیزی ممکن ہوگی۔

اس ترمیم کے ذریعے نہ صرف فوج بلکہ عدلیہ کے ڈھانچے میں بھی اصلاحات تجویز کی گئی ہیں، جن میں سب سے اہم "وفاقی آئینی عدالت" کا قیام ہے جو وفاق اور صوبوں کے مابین آئینی تنازعات کا فوری اور مؤثر فیصلہ کرے گی۔ یہ عدالت ایک ایسا آئینی فورم فراہم کرے گی جو آئینی شقوں کی تشریح، حکومتی اختیارات کی حد بندی اور صوبائی خودمختاری کے مسائل پر فوری انصاف دے سکے گی۔ یوں یہ اقدام عدلیہ کی فعالیت اور آئینی ہم آہنگی کو بہتر بنانے کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے۔

مزید برآں ججوں کے تبادلے، تقرری اور نگرانی سے متعلق انتظامی ڈھانچے میں بھی نئی شفافیت متعارف کرائی گئی ہے جس سے عدالتی استقلال کے ساتھ ساتھ جوابدہی کا تصور بھی مضبوط ہوگا۔ اس ترمیم کے نتیجے میں داخلی سطح پر سب سے بڑا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ فوجی فورسز کے درمیان ربط و ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا، دفاعی فیصلوں میں تاخیر کم ہوگی اور قومی سلامتی کے نظام میں ایک واضح کمانڈ لائن قائم ہوگی۔ اس سے بحرانوں میں ردعمل کی رفتار بہتر ہوگی اور ملک دفاعی لحاظ سے زیادہ مربوط و فعال بن سکے گا۔

اسی طرح عدالتی نظام میں تبدیلیاں صوبائی تنازعات اور وفاقی رکاوٹوں کو جلد سلجھانے کا موقع فراہم کریں گی، جس کے نتیجے میں انتظامی فیصلے تیزی سے عملی شکل اختیار کریں گے۔ یوں حکومتی پالیسیوں کا نفاذ زیادہ مؤثر ہو سکے گا اور عوامی فلاح کے منصوبے غیر ضروری تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔ اگر ان اصلاحات کو دیانتداری سے نافذ کیا گیا تو ملک کے اندر قانون، نظم اور پالیسی سازی میں واضح پیش رفت ممکن ہے۔ بیرونی سطح پر بھی یہ ترمیم پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام لے کر آئی ہے کہ ملک اب دفاعی، آئینی اور انتظامی اعتبار سے اپنے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے۔

یہ اقدام عالمی برادری کو یہ اشارہ دے سکتا ہے کہ پاکستان اپنے اداروں میں تسلسل، شفافیت اور آئینی ذمہ داری کو مضبوط کر رہا ہے، جس سے بین الاقوامی اعتماد بحال ہوگا۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ترقیاتی شراکت داروں کے لیے یہ آئینی پیش رفت ایک اطمینان بخش اشارہ ہو سکتی ہے کہ اب پاکستان کا ادارہ جاتی نظام پائیدار فیصلوں کی جانب گامزن ہے۔ یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ جب کسی ملک میں داخلی استحکام اور آئینی شفافیت میں اضافہ ہوتا ہے تو سرمایہ کاری، تجارتی روابط اور سفارتی اعتماد بھی بہتر ہوتا ہے۔

اس لحاظ سے یہ آئینی ترمیم نہ صرف اندرونی نظم و ضبط بلکہ بیرونی تعلقات میں بھی توازن پیدا کر سکتی ہے۔ تاہم ان تمام فوائد کا انحصار اس بات پر ہے کہ حکومت، فوج، عدلیہ، صوبائی انتظامیہ اور سول سوسائٹی اس عمل میں باہمی تعاون کو برقرار رکھے۔ اگر یہ ادارے ذاتی مفادات کے بجائے قومی اتفاقِ رائے کی بنیاد پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو ستائیسویں ترمیم ملک کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ ترمیم محض آئینی الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پاکستان کے آئینی ارتقاء کی سمت متعین کرنے والی ایک دستاویز ہے جو ملک کو ادارہ جاتی استحکام، شفافیت، احتساب اور قومی وحدت کی نئی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ اگرچہ کچھ حلقے اسے طاقت کے توازن میں عسکری برتری کے طور پر دیکھ رہے ہیں، مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب کسی نظام میں وضاحت آتی ہے تو غیر یقینی کم ہو جاتی ہے اور یہی وضاحت ادارہ جاتی اعتماد کی بنیاد بنتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ستائیسویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی اصلاح نہیں بلکہ ایک آئینی عہد ہے جو پاکستان کو نظم و استحکام، شفافیت، عدل اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی نئی منزل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran