اس قلم مزدور کی "تکالیف" اور تحریک انصاف پر تنقید پر پریشان قارئین کرام اور میڈیائی مجاہدین سے دست بدستہ ایک سوال ہے۔ کیا کبھی انہوں نے تحریک انصاف کی محبت کے سمندر میں غوطہ زن صحافیوں اور ڈالر کمانے والے مقامی و بھگوڑے یوٹیوبرز سے سے بھی یہ کہا ہے کہ صحافی اور یوٹیوبرز کو غیرجانبدار، یعنی نیوٹرل (نقد ترجمہ جس کا "جانور" خود عمران خان نے کیا تھا) ہونا چاہیے؟
اچھا اگر وہ اپنے حامیوں اور بنی گالہ و اڈیالہ گیت مالا لکھنے والوں کو ہی صرف سچا، محب وطن، بااصول اور بہادر صحافی سمجھتے ہیں تو یہ بھی کوئی بری بات ہرگز نہیں۔
یہ صرف ان کی ذہنی اور فکری حالت نہیں دستیاب سیاسی اور مذہبی (یعنی مسلکی) جماعتوں کے ہمدردان کا بھی یہی رویہ ہے۔ جو لکھنے والے ان کی سوچ کےقریب ہوتے ہیں وہی اچھے اور اصول پسند صحافی ہوتے ہیں باقی کے سارے بکائو مال۔
بکائو مال تک کی پھبتیاں مختلف الخیال صحافیوں پر عشروں سے کسی جاتی ہیں، مثلاً ابھی چنددن قبل ایک سوال پر کرہ ارض کی سب سے بڑی جمہوری و اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت پیپلز پارٹی کے بچے کھچے پنجابی اور دوتین سندھی جیالوں نے ہمیں ہماری اوقات ایسے بتائی جیسے ہماری گزر اوقات بھٹو خاندان کے خمس یا جیالوں کے چندوں سے ہوتی ہے بعض جیالوں کے بازاری پن نے ہمیں یہ برطور سمجھادیا کہ جیالوں اور ان کی قیادت کو وہی لوگ کیوں اچھے لگتے ہیں جو ان کی پگڑیاں اچھالیں خواتین کے آنچل نوچیں اور پیپلز پارٹی کو کرہ ارض کی سب سے بڑی برائی کے طور پر پیش کرتے آرہے ہیں۔
خیر جانے دیجئے ہم عدم مرحوم کے ایک شعر کے مصرعہ سے جی بلاتے ہیں "ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے"۔
ہمارے بنی گالوی و اڈیالوی پیاروں نے تو ناقدین و مخالفین کیلئے نئی نئی اصطلاحات اور جملے ایجاد کر لئے ہیں اور وہ ان کا آزادانہ استعمال عبادت سمجھ کر کرتے ہیں کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ ان اصلاحات جملوں اور ٹوٹوں کو اکٹھا کرکے ایک کتابچہ شائع کروا دیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے پتہ نہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ پاکستان ایک بڑے شاہی قلعہ (ماضی میں لاہور کے شاہی قلعہ میں قائم بوچڑ خانے) جیسا بن گیا ہے اور پیارے پیارے انصافی اس شاہی قلعہ کے تفتیشی اہلکار ہیں۔
یہ مماثلت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ جب ہم جنرل ضیاء الحق کے دور میں لاہور کے شاہی قلعہ کی مہمان نوازی سے مستفید ہوئے تھے۔ اس وقت ہماری حیات عزیز 22 سال گزار کر 23 ویں سال میں چہل قدمی کررہی تھی۔
22 برسوں کے دوران گو لگ بھگ پورا پاکستان گھوم لئے تھے اور مقیم بھی کراچی میں تھے جہاں پورا پاکستان بستا ہے لیکن جو "نوادرات" جیسی گالیاں ہم نے شاہی قلعہ کے تفتیشیوں کے دہن مبارک سے جھڑتی دیکھیں ایسی گالیوں نے اس سے قبل کبھی سماعتوں پر دستک نہیں دی تھی۔
کاش اخلاقیات اور صحافتی اقدار اجازت دیتے آپ کو "نوادرات" جیسی ان گالیوں کا آسان اردو ترجمہ کرکے پڑھاپاتا۔
یہاں سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ وہ کیسی گالیاں ہوں گی جن کا آسان اردو ترجمہ بھی نہیں لکھا جاسکتا۔ بس یہی صورتحال سوشل میڈیا کی فیس بک اور ایکس سابقہ ٹیوٹر نام کی سائٹس پر ہوتی ہے۔
بڑے بڑے علامے اُلامے بنے دیکھائی دیتے ہیں۔ سینکڑوں پی ایچ ڈی کچرات ملیں گے۔ کسی دن وقت نکالیں اور صرف سلیم صافی، سیدہ عاصمہ شیرازی، غریدہ فاروقی، سید طلعت حسین (نمونے کے طور پر چند کے نام لکھے ہیں فہرست طویل ہے) کے ٹیوٹرز اکائونٹس کا دورہ پھڑکائیں اگر آپ کے 27 طبق روشن اور ایمان کا حقہ قیامت تک کے لئے تازہ نہ ہوگیا تو پھر کہیئے گا۔
اسی طرح تحریک انصاف کے حامی صحافیوں، یوٹیوبرز اور اینکروں کی وال پر بھی حامیوں اور مخالفوں کے درمیان زبان دانی کے مقابلے دیکھے جاسکتے ہیں۔
مکرر عرض ہے ہر شخص یہ توقع کرتا ہے کہ اس کی پسندیدہ جماعت اور لیڈر کی تعریف کی جائے اور مخالفین کو رگڑا لگایا جائے۔ ہمارے پیپلزپارٹی کے دوست سلیم صافی اور حامد میر کے علاوہ چند مخصوص یوٹیوبرز کو کیا کیا نہیں کہتے۔
اس سے تو پچھلی صدی کی آخری چار دہائیاں اچھی تھیں خصوصاً چھٹی۔ ساتویں اور آٹھویں صحافت اور سیاست میں زیادہ سے زیادہ یہود و ہنود کے ایجنٹ ہوتے تھے یا رجعت پسند۔ بہت ہوتا تھا تو صالحین کے حامی اسلام پسند صحافی اور کارکنان ترقی پسند صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو انجمن عاشقان "واوڈکا" قرار دیتے تھے جواباً ان پر ڈالر خور کی پھبتی کسی جاتی تھی۔
کیا مجال کے ایک دوسرے کے حامی مخالف اخلاقیات کے کپڑے اتارنے پر اتر آئیں۔
ہاں 1970ء کی دہائی میں جہاں بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین کے نام بگاڑے۔ ڈبل بیرل خان کہا، آلو خان، وہیں جماعت اسلامی کے حامی صحافیوں اور دوسروں نے بھٹو صاحب کو گھاسی رام کہا لکھا وہیں اسلام پسند صحافیوں کی جانب سے ان کی مرحومہ والدہ اور بیگم نصرت بھٹو کیلئے سستے اور غلیظ بازاری جملے اچھالے جانے لگے لیکن برسوں بعد ان سستے بازاری جملوں سے اپنے جریدوں کے صفحے بھرنے والے ایک رجعت پسند صحافی کو محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر گڑھی خدابخش میں بنائے گئے اسٹیج پر بھٹو خاندان کے پہلو میں دیکھ کر فقیر راحموں نے کہا "یار شاہ یہ دونوں بے شرم ہیں یا وہ بے شرم ہے جس نے جنرل ضیا کو یقین دلوایا تھا کہ بھٹو کی مسلمانی نہیں ہوئی؟ ہم فقط یہ ہی کہہ سکے "اک چُپ سو سُکھ"۔
اسی طرح یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست میں مخالفین کیلئے ننگی گالم گلوچ بھٹو مخالف قومی اتحاد کی مشہور زمانہ تحریک سے شروع ہوئی بعد ازاں جب پیپلز پارٹی نے جوابی جلوس نکالنے شروع کیئے تو۔
طرفین اپنے جلسوں اور جلوسوں میں ایک دوسرے کے بارے میں ایسے جملے استعمال کرتے تھے کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگتا تھا۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی تحریک میں رنگ بازی کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکائے گئے اس تحریک کو تحریک نظام مصطفیﷺ کا نام دیا گیا۔
یہ وہی تحریک ہے جس کے دوران لاہور پولیس اور ایف ایس ایف کی خواتین اہلکاروں کو ہمارے "دیندار بھائیوں" نے "بیسوائیں" (رنڈیاں) قرار دیا اور کبھی "نتھ فورس" کی پھبتی کسی مگر مجال ہے کہ اس پر کبھی رتی برابر شرم بھی محسوس کی ہو ان دین داروں اور دینداروں نے۔
قومی اتحاد والوں کے سستے نعروں کے جواب میں اس وقت جیالوں نے بھی چند نعرے ایجاد کئے تھے۔ یہ جوابی نعرے لاہور میں ملک غلام مصطفی کھر کی قیادت میں نکلنے والے جلوس میں پہلی بار لگے۔ تب احساس ہوا کہ معاملات بگڑ جائیں گے۔
(یہ و ہی جلوس ہے جس پر 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگانے والے جنرل ضیاء الحق نے الزام لگایا تھا کہ (پیپلزپارٹی کے مسلح جلوس سے ملک میں خانہ جنگی ک خطرہ پیدا ہوگیا تھا)۔
ان دنوں علامہ شاہ احمد نورانی نے مشترکہ دوست کے توسط سے بھٹو صاحب کو کہلوایا کہ جلوسوں میں سوقیانہ نعرے بازی پی این اے کی قیادت کی مرضی سے نہیں ہورہی۔
بھٹو صاحب نے پیپلزپارٹی کے ناصر رضوی اور دیگر رہنمائوں کو ہدایت کی کہ کسی مخالف لیڈر کے خاندان کو زبان دانی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
اس پر پی پی پی کے کچھ رہنمائوں نے وہ اخبارات اور جرائد بھٹو صاحب کے سامنے رکھے جن میں بھٹو، ان کی اہلیہ اور مرحومہ والدہ کے لئے غلاظت بھری ہوئی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں ان کے اتحادی پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے خلاف جو کہتے لکھتے تھے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور یہ بھی تاریخ کا حصہ کہ پھانسی پاچکنے والے بھٹو کے جسم کی تصاویر۔
"مسلمانی کی شناخت و تصدیق کے لئے بنوائی گئیں"۔
اس سے اندازہ لگالیجئے پروپیگنڈے کا زہر کس تیزی سے پھیلتا ہے۔
معاف کیجئے بات دور بلکہ بہت زیادہ دور نکل گئی۔ اب اگر جنرل حمید گل کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر مسلم لیگ (ن) کے اٹھائے طوفان ہائے بدتمیزی کا ذکر نہ کروں تو یہ تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔ انصافی عزیز اٹھتے بیٹھتے اس دور اور بدزبانیوں کو اپنی ڈھال قرار دیتے ہیں۔
زیادہ تر بلاول کے لئے ایک ہی بات کہتے ہیں "اس بے شرم کو دیکھو جنہوں نے اس کی والدہ کی کردار کشی کی یہ ان کا اتحادی بن گیا"۔
بظاہر اس بات میں بڑی کشش ہے لیکن یہ کہتے ہوئے انصافی خواتین و حضرات (ان کی اکثریت سابق جیالے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے) یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر سیاست کے نام پر دشنام طرازی کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرلیا جاتا تو شاید آج بھی ملک پر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء مسلط ہوتا یا پھر ابھی تک پرویز مشرف ایوان صدر میں بیٹھا ہوتا۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں پپلزپارٹی کو اپنی بدترین مخالف (ن) لیگ کے ساتھ اے آر ڈی میں بٹھایا۔ اپنے شوہر کے ہمراہ جدہ کے سرور پیلس میں شریف خاندان سے ملنے گئیں۔ (ن) لیگ سے میثاق جمہوریت کیا۔
بہت پہلے بھٹو کی پھانسی کے سہولت کاروں کو بیگم بھٹو نے ایم آرڈی میں ساتھ بٹھایا۔
یہ چند فیصلے آپ انہیں جو مرضی کہیں حقیقت میں اس بات کا عملی مظاہرہ ہیں کہ اگر سیاست میں درگزر سے کام نہ لیا جائے تو سیاسی عمل اور دونوں نظام بند گلی میں پھنس جاتے۔
یہی بات انصافیوں کو سمجھنا ہوگی، خیر ابھی وہ جوبن پر ہیں اور جوان بھی اس لئے نہیں سمجھیں گے انہیں اپنے سوا سب چور، بداخلاق اور غدار لگتے ہیں۔
اپنی قیادت پر لگنے والے الزام من گھڑت اور مخالفین پر لگنے والے الزامات مقدس لگتے ہیں۔ لیکن وقت سب کو بہت کچھ سمجھادیتا ہے اور جو وقت سے نہیں سیکھتے وہ وقت کا رزق ہو جاتے ہیں۔
فی الوقت تو شاعر سے معذرت کے ساتھ یہی عرض ہے کہ
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں
ہزاروں ہیں قصے کس کس زباں پہ لاوں