ہمارے چار اور نفسانفسی کا کھڑکی توڑ رقص جاری ہے بیچوں بیچ آسمان سے برستی بارشیں ہیں اور اونچے نیچے پہاڑی ندی نالوں سے شور مچاتے پتھر ملے پانیوں کا رقص ہے نفسا نفسی کا رقص دیمک کی طرح سماج کو کھاتا ہے تو پانیوں کا شتر بے مہار رقص سیلاب کہلاتا ہے اس سیلاب سے فقط ذی نفس ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ لہلاتے کھیت شجر سایہ دار گھروندے وہ کچے ہوں کہ پختہ بری طرح متاثر ہوتے ہیں ذرا چار اور نگاہ دوڑا کر دیکھ لیجے تگڑم دستوری کے بقول
ارے پانی پانی کر گئی ہم کو سیلاب کی یہ بات
بند نہیں بنائے تھے تو مکاں کیوں دریا کے رستے میں
تگڑم دستوری فقیر راحموں کی دریافت ہے اور فقیر ہمارا ہمزاد سو ہمزاد کی دریافت کو برداشت کرنا سزا بالکل نہیں لیکن جب وہ اچھے بھلے شعر اور شاعر دونوں کو ذبح کرنے لگتا ہے تو فقیر راحموں پر غصہ آتا ہے اب بالائی سطور میں درج اس شعر کو دیکھ لیجے جس سے تگڑم دستوری نے بلاتکار کیا ہے اچھا ویسے یہ کوئی نیا اور انوکھا کام نہیں آپ حالیہ بارشوں اور سیلاب کو لے لیجے ان دنوں (یہ سطور لکھتے وقت سیلاب ملتان وغیرہ پر دستک دے رہا ہے)
کیسی کیسی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں انصافی کہہ رہے ہیں امت مسلہ کے قائد کو دوسال سے بے گناہ جیل میں رکھا ہوا ہے عذاب تو آنا تھا فقیر راحموں نے ایک انصافی دوست کو کہا " یار یہ تو انصاف نہ ہوا اسے اقتدار دو تو کورونا جیسی عالمی وبا پھوٹ پڑتی ہے اقتدار سے نکالو تو دواڑھائی سال بعد سیلاب ٹوٹ پڑتا ہے " فقیر کا انصافی دوست ناراض ہوگیا کہتا ہے تم اور تمہارا شاہ پکے پپلے ہو ہم نے لقمہ دیا کسی دن پپلوں سے تو پوچھ لو خیر چھوڑیں ہم کچھ اور باتیں کرتے ہیں کیونکہ حالاتِ حاضرہ پر باتوں سے ایک سے زائد فریق ناراض ہوجاتےہیں
بڑے بزرگ کہا کرتے تھے تاریخ کے دستر خوان پر "بھوکوں" کے لئے بھی سب کچھ موجود رہتا ہے اور طالب علموں اور تحقیق پسندوں کے لئے بھی۔
گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران جب بھی کسی عزیز، قاری یا طالبعلم نے تاریخ اور اس کے گھٹالوں پر سوال اٹھایا تو ہم نے بہت ادب سے عرض کیا۔ " ہمیں اور آپ کو تاریخ کے اوراق الٹنے اور رائے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضرور ذہن میں رکھنا ہوگا کہ لکھنے والا اپنے عہد سے متاثر ہوا۔ درباروں کی نوازشات سے یا پھر اس نے نا مساعد حالات میں ڈھنگ سے حالات کا نقشہ کھینچا "؟
دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب آپ تاریخ کے گھٹالوں پر کف اڑاتے دوستوں کو دیکھیں تو جناب عدم سے رجوع کریں، عدم کہتے ہیں
عشق کی چوٹ تو سبھی پہ پڑتی ہے یکساں
پر ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے
کیسی عجیب بات ہے طالب علم کے حافظے پر جب بھی عدم کے اس شعر نے دستک دی بے اختیار شہید سرمدؒ یاد آجاتے ہیں۔
شہید سرمدؒ کہتے ہیں" آدمی اپنے ظرف سے کلام کرتا ہے"۔
بہت سال ہوتے ہیں جب چند طالب علم دوستوں کے ہمراہ دادو سندھ کے تاریخی قصبے " سن" میں مرشد جی ایم سید کے حضور حاضری کا شرف حاصل ہوا۔
دو تین گھنٹوں پر پھیلی اس نشست کی یادوں نے ان سموں حافظے پر دستک دی۔ یاد آیا کہ ہم نے تاریخ کے گھٹالوں کو سمجھنے کے لئے ان سے رہنمائی چاہی تھی۔ مرشد جی ایم سید نے فرمایا
" تاریخ کو اپنے سچ کے طور پر دیکھنے کی بجائے لازم ہے کہ تقابلی مطالعہ کرلیا جائے تاکہ نتیجہ حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو"۔ یہ وجہ ہے کہ میں
سفر حیات کے اس 66ویں برس میں بھی چار اور ہوتے مناظروں ملاکھڑوں اور مناظرہ بازوں کے کچے پکے دلائل پر حیران ہوں۔
اس کرب کو لفظوں میں بیان کرنا از بس مشکل ہے جب محسوس ہو کہ اختلاف رائے میں دلیل کم اور نفرت زیادہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم انسان اور طالب علم کی حیثیت سے زندہ رہنے پر اکتفا کیوں نہیں کرلیتے؟ کاش ہم سمجھ سکیں کہ تلواروں کے زخم بھر جاتے ہیں مگر لفظوں سے لگے گھائو نہیں بھرتے۔
بچپن کے دنوں میں مادرِ تربیت آپا سیدہ فیروزہ خاتونؒ فرمایا کرتی تھیں۔ " تاریخ سے لڑتے ہیں نا، چار اور کے لوگوں سے۔ ہر شخص اپنے سچ اور جھوٹ کے ساتھ جینے پر بضد ہے۔
مناسب یہ ہے کہ طالب علم کے طور پر جینے کی لگن کو استقامت کے ساتھ پروان چڑھاتے رہو۔ فائدہ یہ ہوگا کہ سنھل کر کلام کرو گے اور احترام انسانیت کو روندنے سے محفوظ رہ جاو گے"۔
کل کی طرح یاد ہے کہ جواباً آپا حضور کی خدمت میں عرض کیا تھا۔ "سید ابو الحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم بھی تو یہی فرما گئے۔ " انسان اپنی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے۔ کلام کرے گا تو پہچانا جائے گا"۔
ماتھے پر انعام میں ایک بوسہ ملا اور بہت ساری دعائیں بھی
یہ سال 1972ء کی بات ہے۔ آج 2025ء ہے۔ ترپن برس قبل کے اس سبق کو طالب علم نے کبھی فراموش کرنے کی غلطی نہیں کی۔
کتابوں کے اوراق الٹے، مکالموں کی نشستوں میں عرض گزار ہوا۔ یا کبھی بحثوں میں کودا، ہمیشہ کوشش یہ کی کہ ظرف کا پیالہ نہ چھلکنے پائے۔
جب کبھی اپنے چار اور دندناتے زبان دانوں اور قدم قدم پر ملتے داناوں سے واسطہ پڑتا ہے تو سوچتا ہوں لوگ آخر جھوٹ کی بکل مار کر کیسے جی لیتے ہیں۔
ایسے میں ہمیشہ حافظ شیرازی یاد آئے۔ فرماتے ہیں
" اپنے عہد اور گزرے وقت پر جھوٹ باندھنا ایسے ہی ہے جیسے اگلے ہوئے لقمہ دہن میں ٹھونسے جائیں"۔
ان ساعتوں میں تلسی داس یاد آرہے ہیں، کہتے تھے
" چوتھائی روٹی سے جیا جاسکتا ہے تو حلق تک ٹھونس کر کھانے کی ضرورت کیا ہے؟"
ہمیں اپنے سچ کے ساتھ بہر طور جینا چاہئے مگر یہ سچ اجتماعی زندگی کے لئے زہر نہ ہو ورنہ خطائے اجتہادی کے پیچھے پناہ لینا پڑے گی۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ نہیں کرتے۔
ان سطور میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہمیں تاریخ کی کتابوں کے صرف وہ اوراق پسند ہیں جہاں ہمارے موقف کی تائید لکھی ہو۔ بد نصیبی یہ ہے کہ بسا اوقات ہم ہزار بارہ سو سال پہلے دنیا سے گزر چکے تاریخ نویسوں کے بارے عدالت لگاتے وقت اپنے تعصب کو انصاف کا ہتھوڑا بنا لیتے ہیں۔
یہ روش، فہم اور ضد درست نہیں تقابلی مطالعے کے بنا تاریخ کے سچ کو پانا ممکن نہیں ہوتا۔
کامل انکار ضد سے جنم لیتا ہے۔ انسانیت کا پہلا سبق اعتدال اور دوسرا احترام ہے۔
اچھا چلیں آدمیوں کے جنگل میں انسان تلاش کرتے ہیں۔
کیا اس مرحلہ پر بہت ادب کے ساتھ عرض کروں۔
انسان تلاش کرنے کی بجائے ہم خود انسان کیوں نہیں بن جاتے۔ طلباء اور نوجوان عزیز جب کبھی مکالمے کی مجلس سجاتے ہیں تو ان سے یہ ضرور عرض کرتا ہوں۔ آپ خود دوسروں کے لئے مثال کیوں نہیں بنتے؟
طالب علم کا کندھا ہلاتے ہوئے فقیر راحموں نے کہا۔
"کن الجھنوں میں ہو۔ بھائیوں کا گوشت شوق سے کھانے کی عادت پڑ جائے تو سچ دریا کے کنارے قتل ہوتا ہے"۔۔
مکرر عرض ہے تاریخ فہمی لازم ہے اور اس سے زیادہ لازم یہ کہ یہ تعصب سے عبارت نہ ہو۔
ہائے مگر تصعب سے یہاں کون محفوظ ہے۔
فقیر راحموں نے ایک دن کہا تھا
"حُبِ ذات اندھے تعصب کو جنم دیتا ہے جو اس سے بچ رہے وہی ہمیشہ زندہ رہیں گے"۔
جب کبھی اس حوالے سے سوچتا ہوں تو سقراط سے نفس ذکیہؒ تک اور حسین بن منصور حلاجؒ سے شہید سرمدؒ یا پھر حاذق سے بلھے شاہؒ تک کے وہ سارے اُجلے لوگ یاد آتے ہیں جنہوں نے زمانوں کی اپنے علم و کردار سے رہنمائی کی۔
کاش ہمارے عہد کو بھی کوئی حاذق۔ سامت، سرمد، حلاج یا بلھے شاہؒ نصیب ہوجائے، اے کاش لیکن کیا نفسا نفسی کا شمار سماج کے نصیب صرف دعاوں سے بدل سکتے ہیں؟ اس پہ غور ضرور کیجے گا۔