Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Haider Javed Syed/
  3. Pakistani Siasat Ka Aik Baab

Pakistani Siasat Ka Aik Baab

نیشنل عوامی پارٹی پر بھٹو صاحب کے دور میں پابندی لگی حیدرآباد سازش کیس میں نیپ کی تقریباً ساری قیادت جیل چلی گئی۔ نیپ پر پابندی بھٹو حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کئے گئے ریفرنس میں لگی تب سردار شیر باز خان مزاری سینیٹر ہاشم غلیزئی اور پیپلز پارٹی کے سندھ سے رکن قومی اسمبلی میر حاکم علی زرداری آگے بڑھے اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کی بنیاد رکھی گئی۔ شیرباز مزاری مرحوم اس پارٹی کے صدر اور محترمہ بیگم نسیم ولی خان سینئر نائب صدر بنیں۔ میر حاکم علی زرداری 1970 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نوابشاہ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ خان عبدالولی خان کے خاندان سے اپنے خاندان کے دیرینہ مراسم کی وجہ انہوں نے پیپلز پارٹی سے الگ ہوکر نئی بننے والی جماعت میں سندھ کے چیف آرگنائزر کا عہدہ سنبھالا۔ این ڈی پی بھٹو حکومت کے خلاف بننے والے دونوں سیاسی اتحادوں اولاً یو ڈی ایف اور بعدازاں پاکستان قومی اتحاد پی این اے کا حصہ تھی۔

پانچ جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے ملک پر مارشل لا نافذ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ صدر مملکت چوہدری فضل الہٰی کی جگہ بھی بعدازاں جنرل ضیا الحق نے سنبھال سابقہ نیپ اور اپوزیشن اتحاد پی این اے کے جیلوں میں بند رہنماوں اور کارکنوں کو رہا کردیا گیا۔ نیپ کے قائدین میں اسیری کے ماہ و سال کے دوران اختلاف پیدا ہوچکے تھے۔ سادہ لفظوں میں کہہ لیجے کہ نیپ کے پشتون اور بلوچ رہنماوں نے الگ الگ سیاست کرنے کا ذہن جیل میں بنا لیا تھا۔ عمل جیل سے رہائی کے بعد ہوا پشتون رہنما اور سرائیکی پنجابی مہاجر رہنماوں میں سے کچھ این ڈی پی میں شامل ہوگئے۔ بلوچ سیاستدان میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے جب پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنائی تو سابقہ نیپ کے سیکرٹری جنرل سید محمد قسور گردیزی سیدہ عابدہ حسین اور دیگر رہنما و کارکنان بزنجو صاحب کی پی این پی میں شامل ہوگئے۔

کالعدم ہوئی نیپ کی کوکھ سے ایک تیسری سیاسی جماعت نے بھی جنم لیا یہ تھی پروگریسو نیشنل پارٹی اس میں خالد سیف اللہ سمیت نیپ کے وہ نوجوان دوست گئے جو خود کو خالص کمیونسٹ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا این ڈی پی سیاسی اشرافیہ کا کلب ہے۔ پروگریسو نیشنل پارٹی سیاست کے میدان میں بہت زیادہ سفر نہ کرپائی البتہ این ڈی پی نے ایک طویل سیاسی سفر طے کیا۔ بھٹو مخالف اتحادوں یو ڈی ایف اور پی این اے میں رہنے والی این ڈی پی جنرل ضیا الحق کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کی محرک بنی اس اتحاد نے پاکستان میں بحالی جمہوریت کیلئے شاندار اور پرعزم جدوجہد کی۔

آپ غور کیجے ایم آر ڈی میں نیپ این ڈی پی اور پی این پی کے ناموں سے شامل تھی بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کرنے والے ایئر مارشل ر محمد اصغر خان کی تحریک استقلال بھی تو ملک محمد قاسم کی قیادت میں مسلم لیگ کا ایک گروپ بھی شامل تھا۔ اتحادوں کی سیاست کے باواآدم نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی مولانا مفتی محمود کی جے یو آئی فتح یاب علی خان کی مزدور کسان پارٹی اور فاضل راہو و رسول بخش پلیجو کی سندھی عوامی تحریک کے ساتھ معراج محمد خان کا پاکستان قومی محاذ آزادی بھی۔

ایم آر ڈی کا حصہ بننے والی سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کی اکثریت ماضی میں بھٹو کے خون کے پیاسے تھے۔ ان میں سے اکثر جماعتوں کے رہنما جنرل ضیا الحق کی فوجی و سویلین مخلوط کابینہ کا بھی حصہ رہے جسے استعمال کے بعد فوجی آمر نے پھینک دیا ان میں وہ بھی شامل تھے جو پی این اے کے جلسوں میں بھٹو کو اوئے گھاسی رام کہہ کر ان کا تمسخر اڑاتے رہے۔ یوں کہہ لیجے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو ہروہ گالی دی جو مارکیٹ میں دستیاب تھی لیکن پھر ان سیاستدانوں کو احساس ہوا کہ ہماری لڑائی لولے لنگڑے سہی اس جمہوری نظام کو نگل گئی جسکا بانی مبانی ہونے کا دعویٰ ہم کرتے تھے۔

درگزر کرکے سیاسی عمل میں آگے بڑھنے کیلئے سب سے زیادہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ پیپلز پارٹی نے کیا کیوں؟ آئین اور جمہوریت کی بحالی کیلئے جنرل ضیا الحق کے راج پاٹ کے خاتمے میں گیارہ برس لگے گو وہ جمہوری جدوجہد سے شکست کھاکر نہیں طیارے کے حادثے میں رخصت ہوئے لیکن ان کے جبروستم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ہمارے سماج کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

پسِ نوشت:

ایم آر ڈی میں آزاد جموں کشمیر کے "مجاہد اول" البرق مجاہدین نامی تنظیم کے بانی اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عبدالقیوم خان اپنی جماعت سمیت شامل تھے بعدازاں وہ پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہونے کے واقع کے بعد ایم آر ڈی سے الگ ہوکر جنرل ضیا الحق کی بیعت کر گئے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran