کم از کم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ سرائیکی وسیب کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے قوم پرست رہنما کارکن دانشور، ادیب و شاعر بہت ہیں لیکن جس طرح کی توانا آواز اور کرشماتی قیادت کی ضرورت ہے وہ ہم سرائیکیوں کے پاس نہیں ہے۔ دو درجن سے زائد قوم پرست سیاسی جماعتیں ہیں لیکن معروف تین چار ہیں۔
سرائیکی پارٹی اندرونی اختلافات کے باعث حال ہی میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایس ڈی پی ہے، سرائیکستان قومی کونسل، سرائیکستان قومی اتحاد اور سرائیکی نیشنل پارٹی سرائیکی پارٹی کے دونوں دھڑے متحرک ہیں۔ ایس ڈی پی فراز نون کی قیادت میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ظہور احمد دھریجہ کی سرائیکستان قومی کونسل وسیب کے لئے آواز بلند کرنے کا کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتی۔
ایس کیو ایم حمید اصغر شاہین کے سانحہ ارتحال کے بعد کس حال میں ہے تحریر نویس آگاہ نہیں ان کے علاوہ بھی قوم پرست پارٹیاں ہیں لیکن یہ ایک دو افراد یا ایک گروپ کا قوم پرست تعارف ہیں فقط۔ عبید خواجہ امریکہ میں مقیم ہونے کے باوجود بہت فعال ہیں۔
بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کے سانحہ ارتحال کے بعد سرائیکی قوم پرست سیاست کا کیا حال ہوا وہ سب جانتے ہیں ماسوائے ہم سرائیکیوں کے۔ پی پی پی میں سرائیکی صوبے اور قومی شناخت کے حامی اس کے کارکنان سرائیکی تحریک کو جھمریوں کا ٹولہ قرار دے کر دلپشوری کرتے ہیں قوم پرست بھی اٹھتے بیٹھتے پی پی پی پر پھبتیاں کستے ہیں۔
قوم پرستوں کے بڑے حلقے نے 2013ء 2018ء اور 2024ء کے انتخابات میں مقامی انتظامات کے نام پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے ان میں اکثر پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں اس سے صوبے کے وعدے بارے پوچھنے کی بجائے پی پی پی کو منہ بھر کے گالیاں دیتے رہے۔
چند قوم پرست جو پی پی پی کو سرائیکی وسیب کی تحریک ہائی جیک کرنے ک طعنہ مارتے روٹی ہضم کرتے تھے اور ہیں پی پی پی پر موروثی سیاست کی پھبتی بھی کستے ہیں لیکن آجکل وہ سوشل میڈیا پر میر مرتضیٰ علی خان بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو) کی سیاست کا وارث ثابت کرنے کیلئے دلائل کے انبار لگاتے دیکھائی دیتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) سرائیکی صوبے کی بجائے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے دو صوبوں کی حامی ہے دو صوبوں کی قرارداد ہی اس نے 2012ء میں پنجاب اسمبلی سے منظور کروائی تھی۔ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات سے قبل آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے چائلڈ بے بی "جنوبی پنجاب صوبہ محاذ" کو اپنے ٹرک میں سوار کراتے وقت اشٹام پیپر پر جو معاہدہ کیا تھا اس میں لکھا تھا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں 100 دن میں صوبے کے قیام کا روڈ میپ دیا جائے گا۔
ظلم یہ ہوا کہ اس انتخابی مہم میں (2018ء کے انتخابات میں) پی ٹی آئی اور اس کی حمایت کرنے والے قوم پرستوں نے سرائیکی وسیب کے لوگوں سے غلط بیانی کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو 100 دن میں سرائیکی صوبہ بن جائے گا یہ جھوٹ کیوں بیچا گیا؟ جب کبھی جھوٹ بولنے والے قوم پرستوں اور پی ٹی آئی والوں سے سوال کیا جاتا ہے ان کی ان کی جبینوں پر شکنیں پڑجاتی ہیں۔
بہت سارے قوم پرست مجھ طالب علم سے ناراض ہوکر پی پی پی کا منشی اور تنخواہ دار قرار دیتے ہیں جب میں یہ عرض کرتا ہوں اولاً یہ کہ پی ٹی آئی کے دور میں اڑھائی تین سال بعد جو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنایا گیا تھا وہ اولین مرحلے میں مسلم لیگ (ن) کی دو صوبوں والی قرارداد کا پرتو تھا۔
ملتان اور بہاولپور میں ابتدا سے تقسیم جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا کچھ حصہ عثمان بزدار نے اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں ڈیرہ غازی خان منتقل کروایا تھا یہیں سے پی ٹی آئی کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔
عثمان بزدار ذہنی اور نسلی طور پر سرائیکی وسیب اور سرائیکی صوبے کا مخالف تھا اس کے مرحوم والد نے ایک سے زائد بار تونسہ کو بلوچستان کا حصہ بنانے کے لئے نہ صرف اجتماعات منعقد کرائے بلکہ ایک بار جلوس بھی نکالا تھا۔
عرض یہ کررہا تھا کہ سرائیکی تحریک بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کے بعد ایک توانا اور کرشماتی شخصیت سے محروم ہے۔ میں ذاتی طور پر قومی تحریک کو طبقاتی تحریک نہیں سمجھتا۔ قومی تحریک اور طبقاتی تحریک ہر دو کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں اس کے باوجود میں اپنے ان دوستوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جب تک وسیب کے بڑے خاندان اس تحریک میں شامل نہیں ہوتے صوبے کی تحریک میں جان نہیں پڑے گی۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا سرائیکی عوام ان پیروں، میروں، مخدوموں، جاگیرداروں کی قدم بوسی کرتے ہوئے ان کی خدمت میں درخواست پیش کریں کہ "حضور سئیں، مخدوم، سردار صاحب آیئے ہماری قیادت کیجئے صوبہ بن جائے گا تو وزارتیں آپ کے بچوں کا حق ہوں گی ہم رعایا تابعداری کریں گے؟
دوسری جو بات وسیب زادوں اور دوستوں کی خدمت میں اڑھائی تین عشروں سے عرض کررہا ہوں وہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ایک وفاق پرست سیاسی جماعت ہے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے وہ جو کچھ کرسکتی تھی کرچکی وہ حمایت تو کرتی رہے گی لیکن ایک وکیل کی طرح ہمارا مقدمہ نہیں لڑپائے گی اس کی اپنی سیاسی اور علاقائی مجبوریاں بھی ہیں اور ضرورتیں بھی۔ سرائیکی قومی تحریک کو اپنا راستہ اور وزن خود بنانا اٹھانا ہوگا۔
یہ دو کام صرف اس صورت میں ممکن ہیں کہ اولاً ہم یہ سمجھ لیں کہ قوم پرست تحریک ذہنی و فکری طورپر ترقی پسندوں اور لبرل خیالات والے طبقات کے قریب ہوتی ہے۔ کٹھ ملائیت کے ہرگز نہیں ترقی پسند اور لبرل طبقات قومی شناخت کو تسلیم کرتے ہیں مقابلتاً ہندو پاک کا اسلام مقامی قومی شناخت کا انکاری ہے کیونکہ اس کا کاروبار مسلم قومیت کی بنیاد پر چلتا ہے۔
مذہبی کاروباری طبقہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ امت قوموں کی کنفیڈریشن ہوتی ہے بذات خود کوئی قوم نہیں۔ بہرطور آج کے حالات میں سرائیکی قوم پرستوں کو سنجیدگی کے ساتھ چار اور میں تبدیل ہوتے منظرنامے، وسیب میں ہمیں اقلیت بنانے کے لئے آزمائے جانے والے ہتھکنڈوں، زمینوں کی مقامی بے زمین کاشتکاروں کی بجائے سول ملٹری اشرافیہ کے سابقین اور اب فارمرز کمپنیوں کو الاٹ منٹ وفاق اور صوبے کی ملازمتوں اور دیگر وسائل میں سے سرائیکی وسیب کو اس کا جائز حصہ نہ د یئے جانے سے پیدا ہونے والے مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہونا ہے؟
میں اسے بدقسمتی ہی سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں (سرائیکی وسیب) کوئی بھی وسیب کی ہمسایہ اقوام اور وسیب کے اندر موجود دوسری نسلی اکائیوں سے بات کرنے کی ضرورت کو سمھجنے کے لئے تیار ہے نہ ہمسایہ اقوام کے رویوں اور سلوک کا تجزیہ کرنے کو۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ صوبہ آج بنایا کل۔ ایسا نہیں ہے ہم سرائیکی ایک ایس ایچ او کا تبادلہ کرانے کی پوزیشن میں نہیں مزید کہوں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے کی بھی۔
قومی تحریک کو جس طرح فعال اور وسیب کا چہرہ ہونا چاہیے وہ نہیں ہے ہم قومی تحریک کے تقاضوں کو سمجھنے کے لئے ہی تیار نہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی تحریک کی معاونت کرنے والے ادارے قائم ہوں وسیب سے تعلق رکھنے والے زرعی، معاشی، طبی اور تعلیمی ماہرین کے علاوہ دوسرے شعبوں کی شخصیات قومی شعور کے ساتھ وسیب کے جاری استحصال کو بے نقاب کرنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود قوم پرست ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور مل کر چلنا سیکھ لیں۔