فرانس کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا ایک اہم عالمی پیش رفت ہے جس کے غیر معمولی نتائج سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ فرانس کا اہم عالمی کردار ہے۔ یہ جوہری ملک یورپی یونین کے فیصلوں پر نہ صرف اثر انداز ہونے کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے بلکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں شامل ہے جن کے پاس ویٹوپاور ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی دفاعی تنظیم نیٹو کا بھی فعال رُکن ہے اسی لیے فرانس کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان بہت اہم ہے۔
اگرچہ کچھ حلقے اِس اعلان کو ایک بڑی پیش رفت قرار دینے پر مُصر ہیں تو غیر جانبدار حلقے اِسے فلسطینیوں سے حُب کی بجائے اندرونی دباؤ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ فرانس جو اسلام مخالف قوانین بنانے میں پیش پیش ہے اور اِس حوالے سے یورپی یونین کی مجموعی طور پر آزاد خیال پالیسی کے منافی سخت گیر پالیسی پرِ عمل پیرا ہے سے فلسطین بارے کسی اچھے رویے کی توقع رکھنا درست نہیں۔ علاوہ ازیں فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات آجکل غیر متوازن ہیں اسی بنا پر فرانسیسی حکومت کی طرف سے ایسا کوئی فیصلہ متوقع تھا جو امریکہ کے لیے پریشانی کا باعث ہو مگر اِس فیصلے میں جو بھی عوامل کارفرما ہوں فرانسیسی حکومت کا یہ فیصلہ بدلتے عوامی وعالمی رجحانات کا عکاس ہے۔
ارضِ فلسطین عشروں سے غاصب اسرائیلی ظلم و جبر کا شکار ہے یہاں دن رات انسانی آنسوؤں کی بارش ہوتی ہے۔ اسرائیلی حملوں سے یہاں ہر روز قیامت کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے لیکن عالمی برادری نے آنکھیں بندکر رکھی ہیں، وجہ یہ کہ اسرائیل کا پشت پناہ امریکہ ہے جس کا ڈر حقائق کا اعتراف کرنے سے روکتا ہے۔ کئی ماہ سے فلسطینی علاقے غزہ کو یکطرفہ بمباری کا سامنا ہے یہاں کے لوگوں کے لیے خوراک، پانی اور ادویات کا حصول بھی ناکہ بندی سے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ غزہ کے مکینوں کو بمباری کے ساتھ بھوک سے بھی مارا جا رہا ہے۔ اِتنے ظلم پر بھی عالمی ضمیر گہری نیند سو رہا ہے۔ امریکی خوف دنیا کو ظلم پر لب کشائی سے روکتا ہے مگر اب کچھ ایسے آثار ہیں کہ عالمی برادری آنکھیں کھول سکتی ہے اِس کی وجہ چاہے اندرونی عوامی دباؤ ہی سہی پھر بھی یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
فلسطین کی بدقسمتی یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ تیل ہی عالمی طاقتوں کی مشرقِ وسطیٰ میں دلچسپی کی وجہ ہے۔ مزید بدقسمتی یہ کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کی ہمسایہ ہے جسے توسیع پسندی کا ایک ایسا عارضہ لاحق ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جارہا ہے مگر اِس عارضے کا علاج کرنے میں کوئی عالمی طاقت یا اِدارہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے عشروں سے ناقابلِ علاج ہے اگر اقوامِ متحدہ چاہتی تو اسرائیل کو نسل کشی اور جارحیت سے روک سکتی تھی مگر ہربار امریکی خواہش آڑے آجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نہ صرف فلسطین پر قابض ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک کو بے خوف وبے لگام ہوکر محازِ جنگ بنا رکھا ہے۔
دراصل دنیا کی سیاست مفادات کا کھیل ہے اور امریکی مفاد اسرائیل کی سرپرستی میں ہے۔ اِس طرح وہ دو فائدے حاصل کرتا ہے ایک طرف دنیا کے امیر ترین صیہونیوں کی سرمایہ کاری حاصل ہے تو دوسرا مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کو بھی اسرائیلی خوف کی وجہ سے زبردستی اپنا اتحادی بنا رکھا ہے۔ اسی لیے اسرائیل کو جارحانہ اور وحشیانہ اقدامات سے روکنے کی بجائے حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ اب اسرائیل صرف فلسطین تک محدود رہنے کی بجائے دیگر ہمسایہ ممالک لبنان، شام اور عراق پر بھی حملے کرنے لگا ہے۔ ہمسایہ ملک نہ ہونے کے باوجود وہ ایران جیسے ملک پر جوہری طاقت بننے کا الزام لگا کر حملے کر چکا ایسی کوششیں دنیا کو دانستہ طور پر جنگ میں دھکیلنا ہے جس کا حل یہ ہے کہ عالمی اِدارے اور طاقتیں ناانصافی کی بجائے اسرائیلی جارحانہ و توسیع پسندانہ اقدامات پرخاموش رہنے کی بجائے انصاف کریں۔
سپین یورپی یونین کاوہ اولیں ملک ہے جس نے سب سے پہلے مفادات سے بالاتر ہوکر غزہ المیے پر نہ صرف آواز بلند کی بلکہ اسرائیل کے لیے ہتھیار لے جانے والے بحری جہازوں کے لیے اپنی بندرگاہیں تک بند کر دیں۔ یہ ایک ایسا منصفانہ فیصلہ ہے جس سے ثابت ہوا کہ سپین کے قول و فعل میں تضاد نہیں۔ جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہوگی سپین مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرے گا۔ فلسطین کے لیے یورپی یونین سے یہ پہلی زوردار آواز بلند ہوئی جو ہر حوالے سے قابلِ قدر ہے۔ اب تاخیر سے ہی سہی یا فرانس نے امریکہ کو زچ کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے یا بڑھتے اندرونی دباؤ سے مجبور ہو کر اِس طرف آیا ہے جو بھی ہے اِس کے ممکنہ گہرے اثرات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ توقع ہے کہ شاید جلد ہی برطانیہ بھی ایسا کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائے جو فی الحال ایسے کسی فیصلے سے انکاری ہے۔
فرانس کے فیصلے سے برطانوی وزیرِ اعظم کئیرسٹارمر پر عوامی دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا جو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے اعلان کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ دورانِ انتخاب ووٹ بہرحال عوام نے دینے ہوتے ہیں۔ امریکہ نے نہیں اگر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکغوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے تو برطانوی وزیرِ اعظم بھی جلد سمجھ جائیں گے وگرنہ اپنی مقبولیت اپنے ہاتھوں کم کریں گے۔
دنیا کے 146کے لگ بھگ ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں جن میں وہ تمام ممالک بھی شامل ہیں جو عرب لیگ کا حصہ ہیں۔ اب فرانس جیسے اہم یورپی ملک کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے سے عرب ممالک کے نہ صرف موقف کو تقویت ملے گی بلکہ دیگر ممالک کے لیے ایسا فیصلہ کرنابھی آسان ہو جائے گا۔ حالانکہ ایسے فیصلے اخلاقی حوالے سے ہی اہم ہیں کیونکہ ایسے فیصلوں کو توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی اقوام خاطر میں نہیں لاتیں جب تک عملی اقدامات نہ اُٹھائے جائیں۔
اسرائیل جو عالمی قوانین کی پاسداری نہیں کرتا اور نہ ہی اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی اِداروں کی پاس کردہ قرار دادوں کو اہمیت دیتا ہے مستقبل میں بھی ایسی کوئی خوش فہمی نہیں کہ ظلم و زیادتی کا سلسلہ روک کر فلسطینیوں کو انسانی حقوق دینے پر رضا مند ہو جائے گا۔ جب حال ہی میں اُس کی پارلیمنٹ مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرنے کی قرار داد منظور کر چکی ہے اِس کے باوجود اخلاقی فیصلوں کی اہمیت ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اقوامِ متحدہ اور طاقتور یورپی اقوام دنیا میں امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ محکوم اقوام کو غصب شدہ حقوق دلائے جائیں اور جارحانہ و توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ فلسطین کے بارے میں فرانسیسی فیصلہ قابلِ ستائش ہے مگر جب تک اسرائیل کو ظلم و جبر اور نسل کشی سے روکنے کے لیے عملی طور پر سخت فیصلے نہیں کیے جاتے فلسطین کی مظلوم اور معصوم عوام کو انصاف نہیں مل سکتا۔