عشروں سے نشیب و فراز کا شکار پاک افغان تعلقات میں کچھ پیش رفت ہونے لگی ہے مگر اِس کے اثرات کے عارضی یا مستقل ہونے بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ دونوں طرف بدگمانیوں کی طویل تاریخ ہے۔ تعلقات بہتر بنانے کی پاکستان تو پھر بھی اپنی سی کوششیں کرتا رہتا ہے لیکن عوام کی ضروریات کے برعکس افغان حکومت ایسی کوششوں کو ثمربار نہیں ہونے دیتی اور بھارت جیسے ممالک پر انحصار کرتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گھر میں لگی آگ بجھانے کے لیے دور دراز سے پانی لانے کے لیے طویل ترین سفر شروع کر دیا جائے۔
دراصل افغان اشرافیہ کی دلچسپی کا محور عوام نہیں دولت ہے۔ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے جب اگست 2021 کو کابل کا اقتدار حاصل کیا تب افغانستان کے ذرائع آمدن محدود تھے لیکن اِس لیے کسی خاص پریشانی کا سامنا نہ ہوا کہ امریکی حکومت نے افغان کرنسی ڈالرکے عوض خریدنا شروع کردی۔ اِس طرح طالبان کی ضروریات تو باآسانی پوری ہونے لگیں مگر وہ ہمسایہ ممالک کی ضرورت و اہمیت سے بے نیاز ہو گئے۔ مزید یہ کہ بھارت نے بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان سے مالی تعاون بڑھا دیا۔
پاکستان میں دہشت گردی اسی تعاون کا شاخسانہ ہے بھارت افغان گٹھ جوڑ کے متعلق جب پاکستان نے ٹھوس شواہد طالبان کو پیش کر دیئے تو جواب میں حیران کُن طور پر سردمہری اور بے نیازی کا مظاہرہ کیا گیا یوں دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوتے گئے۔ پاکستان نے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر محمد صادق کا تقرر کیا تاکہ اختلافات کا کوئی قابلِ قبول حل تلاش کیا جا سکے مگر سنجیدہ کوششوں کا بھی طالبان نے کبھی مثبت جواب نہ دیا۔ ٹی ٹی پی اور خراسان جیسے گروہوں کی سرحد پار کارروائیوں میں اضافے نے دونوں ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے سے دور کر دیا اسحاق ڈار کادورہ حل طلب امورکے حوالے سے اہم سنگِ میل ثابت سکتا ہے۔
افغان اشرافیہ کی پہلی ترجیح دولت ہے اِس کے لیے وہ ہر حد تک جا سکتی ہے مگر رواں برس جنوری سے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ضروری بیرونی اخراجات ختم کرنے کا جوسلسلہ شروع کیا ہے۔ اِس کی زَد میں افغانستان بھی آ چکا ہے۔ اب مفت ڈالر ملنے کی اُمید ختم ہو چکی۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے طالبان کو ہمسایہ ممالک کی اہمیت محسوس ہوئی اور وہ پاکستان سے بدگمانیاں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک تعاون کی روش پر چل نکلتے ہیں تو تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
پاک افغان دوطرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت نہ صرف خطے میں امن و استحکام کے ناگزیر ہے بلکہ اِس طرح دیرینہ مسائل غیر ریاستی بُرے عناصر کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ نمائندہ خصوصی صادق خان کی کوششوں سے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل ممکن ہوا۔ یہ گزشتہ چار برس کے بعد کسی اعلیٰ پاکستانی شخصیت کا پہلا دورہ ہے۔ طالبان وسائل کی کمی کا شکار ہیں اب جبکہ ایران اور پاکستان دونوں افغان مہاجرین کو واپس وطن بھیجنے میں مصروف ہیں یہ واپس آنے والے شہری وسائل پر الگ بوجھ ہوں گے۔ طالبان کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو بے دخل کرنے میں نرمی کی جائے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب طالبان بھی ہمسائیگی کے فرائض ادا کریں اور مہاجرین جائے پناہ فراہم کرنے والے ممالک کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے سے گریز کریں۔
اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے اور امریکی اسلحہ دہشت گردوں کے استعمال میں ہے۔ سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے طالبان کا تعاون بہت اہم ہے۔ بیرونی وسائل کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد طالبان کے لیے ہمسایہ ممالک کا تعاون حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر پاکستان کے لیے افغانستان اہم ہے تو افغانستان کے لیے پاکستان اہم ترین ہے دونوں ایک دوسرے کی مارکیٹوں کی ضروریات سمجھتے ہیں۔ دونوں کی جغرافیائی قربت تجارت کو آسان اور سستا بناتی ہے لیکن نقل وحمل کے اخراجات میں کمی اور ثقافتی قربت کا تبھی فائدہ ہوگا جب تصفیہ طلب مسائل کا خاتمہ اور باہمی اعتماد میں اضافہ ہو جس کا فی الوقت فقدان ہے۔ طالبان کی عالمی سطح پر قبولیت بھی پاکستان کے سفارتی تعاون کے بغیر بہت مشکل ہے۔
افغانستان میں پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور کے پی کے میں سرگرم شدت پسندوں کو مہمان کا درجہ حاصل ہے جن کی پاکستان حوالگی چاہتا ہے مگر طالبان کا اِس حوالے سے رویہ عدم تعاون پر مبنی ہے۔ یہ درست ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور کے پی کے میں سرگرم شدت پسندوں کے افغان و ایران سرحدی علاقوں میں ٹھکانے ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول کمزور ہے لیکن ایران اور پاکستان سے مل کر وہ خطے میں امن کے لیے خطرہ بننے والوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ اِس طرح نہ صرف امن کی بحال ہوگا بلکہ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول بھی مستحکم ہو سکتا ہے۔ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کہ اسحاق ڈار کی طرف سے علیحدگی پسندوں اور شدت پسندوں کی حوالگی کا مطالبہ پورا کرنا دراصل طالبان کے اپنے بھی مفاد میں ہے۔
عیاں حقیقت یہ ہے کہ اقتدارکے لیے طالبان میں دھڑے بندی ہے جس سے نظریاتی اور علاقائی اختلافات کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ اختلافات سیاسی اور انتظامی ترجیحات تک وسیع ہیں جولائی 2022 میں پاکستان نے علما کا ایسا وفد بھیجا جو طالبان کے لیے اساتذہ کی طرح تھے تاکہ کابل میں اقتدار کی رسہ کشی اور سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہو لیکن وعدوں پر عمل نہ ہوسکا۔ دھڑے بندی کی وجہ سے ایک گروہ کا معاہدہ دوسرے کی ضد بن جاتا ہے اب بھی اسحاق ڈار کے دورے سے بڑی توقعات وابستہ کرنا درست نہیں کیونکہ طالبان کے داخلی اختلافات جامع اور قابل عمل طریقہ کار بنانے میں رکاوٹ ہیں مگر صبر اور حکمت کے ساتھ افغانستان سے تعلقات بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے تاکہ خطے میں پائیدار امن اور مشترکہ خوشحالی کے لیے کوششیں نتیجہ خیز ہوں۔
اسحاق ڈار کی عبوری وزیرِ اعظم ملا محمد حسن اخوند اور عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ افغانستان سے تصفیہ طلب امور کا حل تلاش ممکن ہے طالبان کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی سے صرف معاشی بدحالی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر امریکہ اور نیٹو کے فوجی سازوسامان کو دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگنے دیں اور غیر ریاستی بُرے عناصر کو افغانستان میں حاصل محفوظ ٹھکانے ختم کر دیں تو دہشت گردی پر قابو پانے کے ساتھ طویل اور غیر محفوظ بنائی جاسکتی ہیں۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب آمدورفت کا ٹھوس طریقہ کار وضع کیا جائے باعثِ اطمینان امریہ ہے کہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے مذاکرات جاری رکھنے اتفاق کیا دیگر اہم اور حساس پہلوئوں پر بھی بات چیت ہوئی جس سے خطے کی سلامتی کے لیے مستقبل میں مشترکہ کوششوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔