Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Qatar Par Israeli Hamla

Qatar Par Israeli Hamla

اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جوعالمی قوانین روندنے پر فخر کرتا ہے اور کسی ملک کی آزادی و خودمختاری کو خاطرمیں نہیں لاتا پھر بھی منگل کے روز قطر حملے پر دنیا ششدر ہے کیونکہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ امن پسند ایسی خلیجی ریاست ہے جو 2012 سے امریکی ایما پر حماس دفتر کی نہ صرف میزبان ہے بلکہ طالبان و امریکہ میں مصالحت کرانے کے بعد اب غزہ کے حوالے سے بھی ثالث کا کردار ادا کررہی ہے تاکہ اسرائیلی یر غمالی قیدیوں کو رہا کرایا جاسکے۔

اسرائیل کو قطر قدرتی گیس بھی فراہم کرتا ہے مزید اہم بات یہ کہ اِس کے دفاع کا ضامن امریکہ ہے۔ اسی لیے قطر پر اسرائیلی حملہ دنیا کے لیے غیر متوقع ہے۔ قطر کے پاس دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہیں۔ اِس کا دفاعی بجٹ سولہ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ چاہے قطر کی فوجی نفری محض بائیس ہزار ہے لیکن جدید ترین ائر ڈیفنس سسٹم اور اپنا زاتی بحری بیڑہ ہے جبکہ اس ملک میں امریکی فوجی اڈے پر بھی، مختلف نوعیت کے تباہ کُن ہتھیاروں کے ذخائر ہیں لیکن منگل کے روز دس اسرائیلی طیارے آتے ہیں اور دارالحکومت دوحہ کے وسطی علاقے میں ایک رہائشی عمارت پر حملے میں چھ افرا د کو مار کر بڑے آرام سے چلے جاتے ہیں۔ نہ صرف قطری ائر ڈیفنس سسٹم حملے سے لا علم رہتا ہے بلکہ امریکہ بھی خاموش رہتا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ سب کچھ امریکی رضامندی سے ہوا ہے۔

اسرائیل عشروں سے ایران اور اُس کے ہمدردوں سے برسرِ پیکار ہے۔ اِس دوران وہ لبنان میں حزب اللہ، شام میں بشارالاسد، غزہ کی تنظیم حماس اور یمنی حوثیوں کو شدید نقصان پہنچا چکا۔ ایران کے خلاف کاورائیوں میں نہ صرف افواج کو نقصان پہنچایا بلکہ فضائی حملوں سے اہم ترین رہنماؤں اور سائنسدانوں کو بھی قتل کردیا جس سے خطہ مسلسل عدمِ استحکام کا شکار تو رہا لیکن امریکی تائید و حمایت اور سعودی قیادت کی طرف سے اعتراض نہ ہونے کی بنا پر خطے کے اکثر ممالک خاموش رہے۔ یوں لڑائی مخصوص گروہوں اور علاقوں تک محدود رہی مگر قطر تو ایران کی پراکسی بھی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی کرنے والے اِس ملک کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ حاصل ہے۔ اسی لیے قطر پر حملے کی وجوہات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اِس حملے نے نہ صرف امریکی اعتماد و ساکھ کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے بلکہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حملے کے علاقائی سلامتی کے حوالے سے گہرے مُضمرات ہوں گے۔

قطر نے بظاہر جوابی کاروائی کا عندیہ دیتے ہوئے اہم مسلم ممالک سے ساتھ دینے کا مطالبہ کیا ہے مگر جوابی کاروائی کا بہت امکان کم ہے۔ اسلامی ممالک میں پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، مصر اور ایران سمیت چند ہی ایسے ہیں جن کے پاس طاقتور فوج ہے۔ پاکستان، ترکیہ اور ایران تو ہتھیار بھی بناتے ہیں لیکن او آئی سی جیسی تنظیم اتحاد کا موجب نہیں بن سکی اسی لیے عرب ممالک کو جارحیت کا سامنا ہے۔ قطر کے طلب کردہ سربراہی اجلاس میں شامل ممالک اگر یورپی یونین کی طرح اتحاد اور حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع کا معاہدہ کرلیں تو بہترہے وگرنہ مزید ممالک جارحیت کانشانہ بن سکتے ہیں جیسا کہ اب ترکیہ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری طاقت ہے۔ باعثِ اطمنان امر یہ ہے کہ پاکستان اپنی روایتی دفاعی طاقت کا بھی لوہا منوا چکا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے پر جس ملک نے سب سے سخت اور جاندار ردَ عمل دیا ہے وہ بھی پاکستان ہے حالانکہ رواں برس مئی میں بھارت سے کشیدگی کے دوران اکثر عرب ممالک کا مشورہ تھا کہ بھارتی کاروائیوں کا پاکستان جواب نہ دے جن میں قطر بھی پیش پیش رہا۔ اب قطر کی درخواست پرہی پاکستان نے الجزائر اور صومالیہ کے ساتھ ملکر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے مگر پاکستان کمزور معیشت کی وجہ سے طویل مدتی لڑائی کا متحمل ہو سکے۔

اگر امریکہ اور مغربی ممالک پرعرب ممالک انحصار کم اور ڈالر میں تجارت بند کردیں اور پاکستان سے دفاعی و معاشی تعاون بڑھائیں تو نہ صرف اسرائیلی جارحانہ کاروائیوں کا دندان شکن جواب دینے سے خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ عرب ممالک کو اِس صیہونی ریاست کے خوف سے بھی نکالا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر آج دوحہ حملے پر تشویش کا شکار یاد رکھیں مستقبل میں قاہرہ، ریاض یا نقرہ جیسے شہر بھی نشانہ بن سکتے ہیں۔ اسرائیل کا اقتصادی و سفارتی بائیکاٹ نیز تعلقات معمول پر لانے کی عالمی مُہم کو روکنا ہوگا افسوس قطری قیادت ابھی تک اسرائیل کو قدرتی گیس کی فراہمی روکنے پر غور کررہی ہے۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع یواف گیلنٹ کا کہنا ہے کہ اپنے دشمنوں کے خلاف کہیں بھی کاروائی کریں گے۔ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو دوحہ حملے پر کوئی پشیمانی نہیں بلکہ وہ قطر پر زور دے رہا ہے کہ قطر حماس کے عہدیداروں کو بے دخل کرتے ہوئے جوابدہ بنائے وگرنہ ہم کریں گے اور حملے کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان میں دو مئی 2011 جیسی کاروائی کہا ہے جس میں امریکن نیوی نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کے دوران اسامہ بن لادن کو مار دیا تھا۔

یہاں کئی پہلو بہت اہم ہیں اول سات اکتوبر2023 حماس حملے کے بعد سے لیکر اب تک غزہ کو کھنڈر بنانے کے علاوہ اسرائیل سات مسلم ممالک کو نشانہ بنا چکا ہے اِن سات ممالک میں قطر واحد ملک ہے جس کا اسرائیل سے براہ راست کوئی تنازع نہیں۔ دوم یوکرین سے آگے بڑھتے ہوئے روس اب پولینڈ کو چھیڑنے لگا ہے۔ سوم امریکہ نے وزارتِ دفاع کا نام جنگ کا محکمہ اور وزیر دفاع کا نام وزیرِ جنگ رکھ لیا ہے۔ چہارم چین نے پہلی بار بڑے پیمانے پر جنگی مشقوں کے ساتھ ملکی ساختہ جدید اور مہلک ہتھیاروں کی نمائش کر دی ہے۔ کیا پھر بھی کسی کو شک ہے کہ دنیا ایک نئی عالمگیر جنگ کے دہانے پر نہیں؟ اگر ایسا ہوتا ہے جس کے امکانات ہیں تو یہ انسانیت کی خدمت نہیں دشمنی ہوگی۔

تنازعات کا حل مزاکرات سے ممکن ہے ایسے حالات میں جب حماس کا مزاکراتی وفد امریکی صدر ٹرمپ کی پیش کردہ تجاویز کا جائزہ لے رہا تھا پر حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کو امن اور بات چیت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی اپنے یرغمالیوں کی رہائی چاہتا ہے۔ قطری قیادت کو مطمئن کرنے کے لیے ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی حملے سے متفق نہیں سوال یہ ہے کہ جب مطمئن نہیں تو امریکی فوج نے جواب کیوں نہیں دیا؟ اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اعتماد میں لیکر حملہ کیا گیا۔

امریکہ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے حملے بارے میں قطر کو آگاہ کر دیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ اگر صرف آگاہ کرنا ہی اُس کی ذمہ داری ہے تو امریکی دفاعی ضمانت کے عوض اربوں ڈالر اِس مسلم ریاست سے کیوں لیے جارہے ہیں؟ نیز امریکہ اگر قطر کا دوست ہے تو اُس کے ہتھیار اسرائیل کے خلاف کیوں استعمال نہیں ہو سکتے؟

قطر پر حملے کے مضمرات یہ ہیں کہ اب امریکی اعتماد میں کمی آئے گی دوم قطر کی طرف سے ثالثی کا عمل روکنے سے اسرائیلی قیدایوں کی رہائی کا عمل تاخیر کا شکار ہوگا۔ یہ توطے ہے کہ قطر پر حملہ امریکہ و اسرائیل گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے لیکن یہ واقعہ اب دنیا کی تقسیم میں تیزی کا موجب بنے گا اور مسلم دنیا سرعت سے چین، روس اور پاکستان کی طرف مائل ہوگی۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran