مسلسل سات برس تک جو مودی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت سے گریزاں رہے وہی حالیہ دو روزہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے چینی شہر تیانجن جا پہنچے۔ یہ شرکت عالمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والوں کے لیے غیر متوقع نہیں تھی البتہ روسی صدر پوٹن اور چینی صدرشی جن پنگ سے ظاہری قُربت نے بہت سوں کو چونکایا ہے۔ پوٹن سے خوشگوار ماحول میں چہل قدمی کرتے ہوئے مودی کا چینی صدر کے پاس جانا اور تینوں کی گفتگو کو ایسا رنگ دینا جیسے کوئی اہم مشاورت ہو رہی ہو سے دراصل مودی کا ٹرمپ کو پیغام تھا کہ دیکھ لیں ہمارے پاس آپ کا متبادل ہے۔ یہ پیغام امریکہ نے سمجھ لیا جس کی تصدیق ٹرمپ کے اُس بیان سے ہوئی کہ ہم نے چین کے ہاتھوں روس اور بھارت کو کھو دیا ہے مگر فوجی پریڈ میں عدم شرکت سے واضح ہوگیا کہ حالات ویسے نہیں جیسا رنگ دیا گیا۔
انھی سطور میں لکھا جا چکا کہ بھارت اور امریکہ فطری اتحادی ہیں یہ زیادہ دیر ایک دوسرے سے الگ رہ ہی نہیں سکتے۔ مودی جیسے چہیتے کا نخرے دکھانا ایسے قیاس کی تصدیق ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عدم شرکت کا فیصلہ بظاہر غیر معمولی ہے جن کے جلد اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ ٹرمپ نے رواں برس کے آخر پر کواڈ اجلاس میں شرکت کی غرض سے بھارت آنا تھا مگر اب وہ نہیں آرہے۔ اِس سفارتی دھچکے کے جواب میں ہی مودی نے جنرل اسمبلی کے جلاس میں عدم شرکت کا فیصلہ کیا جس کے نتائج زیادہ دیر پوشیدہ نہیں رہیں گے اور کواڈ اجلاس سمیت ٹیرف مسائل حل کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شنگھائی تعاون تنظیم سے زیادہ اہم ہے کیونکہ عالمی سربراہانِ مملکت سے ملاقاتوں کے مواقع ملتے ہیں۔ ہر سربراہ مملکت کی خواہش ہوتی ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لازمی شرکت کرے مگر مودی نے یہ نادر موقع دانستہ طور پر کھو دیا جس کی ایک وجہ تو پاکستانی وزیرِ اعظم سے پہلے خطاب کرنا ہوسکتی ہے۔ اس لیے وزیرِ خارجہ جے شنکر کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جو 27 ستمبر کو بطور 19ویں مقرر خطاب کریں گے جبکہ شہباز شریف 26 ستمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے بعد دوسرے مقرر ہوں گے۔
اگر مودی خود جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے جاتے تو انھیں شہباز شریف سے پہلے خطاب کرنا پڑتا یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا نہ صرف ماحول بنتا مودی کو شاید خدشہ تھا کہ الزامات کا زیادہ بہتر انداز میں جواب دینے سے پاکستان کو بھارت پر کہیں سبقت نہ حاصل ہوجائے اسی بنا پر مودی نے عدم شرکت ہی مناسب سمجھی جبکہ کچھ سفارتی حلقے مودی کے جنرل اسمبلی اجلاس میں عدم شرکت کے دو جوازپیش کرتے ہیں۔ اول، اپنی عادت کے مطابق ٹرمپ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس سے مودی کی تضحیک کا تاثر بنے دوم، رواں برس مئی کی پاک بھارت جھڑپوں کے دوران بھارتی فضائیہ کے ہونے والے نقصانات کے متعلق عالمی زرائع ابلاغ کے سوالات نہ سنناپڑیں۔
ممکن ہے مذکورہ جواز درست ہوں مگر زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ بھارت اپنی اہمیت کے پیشِ نظر نخرے دکھانے کی روش پر گامزن ہے۔ مودی کو بخوبی معلوم ہے کہ چین کی معاشی و فوجی طاقت کے خلاف امریکہ کی ضرورت بھارت ہے۔ دورے سے گریز پر مودی کی ایسی سفارتی چال اور نفسیاتی حربہ ہیں جو ٹرمپ کو کواڈ اجلاس کے طے شدہ دورے کو بحال کے ساتھ ٹیرف مسائل حل کرنے کی طرف اہم قدم ہوسکتا ہے، لہذا ٹرمپ رواں برس کے آخر پر اگر کواڈ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت آجائیں اور پچاس فیصد ٹیرف کو نصف کر دیں تو حیرانگی نہیں ہوگی۔
بھارت میں مودی کا سیاسی جادو دم توڑ چکا اُن کے لیے مشکلات بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے دھاندلی کے کچھ ایسے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کر دیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مودی وہ نہیں جو نظر آتے ہیں۔ کھوئے عوامی اعتماد کو بحال کرنے اور ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر دینے کی مودی کی تمام چالیں ناکامی سے دوچار ہوتی جارہی ہیں۔ کسی بیرونی طاقت کے آگے کمزوری کی صورت میں اپوزیشن کو مزید باتیں بنانے کا موقعہ مل سکتا ہے، اسی لیے تو پاک بھارت جنگ کے خاتمے میں ٹرمپ کردار کو بھی تسلیم نہیں کر رہے جو خفگی کی ایک اہم وجہ ہے۔ رواں برس سترہ جون کے بعد سے ٹیلی فون پر بھی گفتگو نہ کرنے میں یہ احتیاط ہے کہ ٹرمپ کو کوئی ایسا موقعہ نہ دیا جائے جسے بنیاد بنا کر وہ زرائع ابلاغ کو کسی قسم کی کہانی سنا سکیں لیکن گریز کا مطلب امریکہ اور بھارت کے درمیان اختلاف لینا درست نہیں۔
ٹرمپ نے مودی کو رواں ہفتے اپنا دوست قرار دیا جس کا مودی نے خیر مقدم بھی کیا۔ اِس کے باوجود جے شنکر کو بھجنے کا فیصلہ باعث تعجب ضرور ہے مگر اِس طرح امریکی صدر سے ملاقات کا امکان نہیں رہا نیز امریکی صدر کو پیغام ملے گا کہ آپ کو اگر ہمارا مہمان بننا ناپسند ہے تو ہمیں بھی کہیں جانے کا کوئی شوق نہیں حالانکہ مودی بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت اگر امریکہ کی ضرورت ہے تو بھارتی معیشت کے لیے امریکہ بھی ناگزیر ہے۔ اِس لیے جنرل اسمبلی اجلاس میں عدم شرکت کو ایک قسم کا کچھ لو کچھ دو کی طرف اِشارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ روسی تیل و اسلحہ خریدنا تو ایک بہانہ ہے اصل بات امریکہ سے تجارت میں بھارت کو حاصل غیر معمولی برتری ہے، جونہی یہ معاملات طے ہوئے تو مودی ہو یا کوئی اور، دونوں ممالک میں ازسرے نو گاڑھی چھننے لگے گی۔
اپنے حمایتی طبقات کا اعتماد بحال نہ رکھنے کے علاوہ مسئلہ یہ ہے کہ رواں ماہ سترہ ستمبر کو مودی 75 سال کے ہوجائیں گے۔ بی جے پی کی سرپرست راشٹریہ سیوک سنگھ کا وضع کردہ کلیے کے مطابق 75 برس کی عمر کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کشی لازم ہے۔ اِس کلیے کا اطلاق بی جے پی کے تین درجن سے زائد رہنماؤں پر ہو چکا جن میں سابق وزیرِ داخلہ ایل کے ایڈوانی، سابق وزیرِ خزانہ یشونت سنگھ سمیت مرکزی وزیر اور فکری رہنما مرلی منوہر جوشی جیسے اہم لوگ شامل ہیں۔
مودی کو یقین ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اگر اقتدار چھوڑنے کا کہہ دیا تو بی جے پی کچھ نہیں کر پائے گی اس لیے جنونی کا تاثر قائم رکھتے ہوئے وہ بھارت کو ایک خالص ہندو ریاست بنانے کے ساتھ خطے کی طاقت بنانے کے ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جو اُن کی سیاسی ناکامیوں کوڈھانپ لے۔ اقتدار و اختیار کی ہوس تو انسانی جبلت میں ہے اِس لیے مودی جیسا جنونی سیاسی فائدے کے لیے ہر حدتک جا سکتا ہے۔ بھارت نے اگر خطے کی طاقت بننا ہے امریکی تعاون و حمایت حاصل کرنا ضروری ہے اسی لیے جنرل ا سمبلی جیسے اہم اجلاس میں نہیں گئے مگر ٹرمپ اور مودی کے درمیان دوری بھارت اور امریکہ کے درمیان دوری تصورنہیں کی جا سکتی لہذا دونوں ممالک میں اگر جلد ہی باہمی تعاون کی راہ ہموار ہوجائے تو یہ کوئی عجوبہ نہیں ہوگا۔