Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Sheikh Hasina Ki Saza e Maut

Sheikh Hasina Ki Saza e Maut

تین رُکنی ٹربیونل نے بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد اور سابق وزیرِ داخلہ اسد الزمان کمال کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنادی ہے۔ سنائی گئی سزا میں سابق آئی جی عبداللہ المامون کا کلیدی کردار ہے جو صحتِ جرم قبول کرنے کے بعد سلطانی گواہ بن گئے۔

یہ ہر لحاظ سے ایک اہم فیصلہ ہے جس کے نہ صرف بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست پر گہرے اثرات ہوں گے بلکہ یہ فیصلہ خطے میں بھارتی مفادات کے لیے بھی کسی دھچکے سے کم نہیں کیونکہ بنگلہ دیش کی سیاست میں شیخ حسینہ خاندان کا کردار بھارت کے لیے اہم اور ناگزیر ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے پاس بنگلہ دیش میں ابھی ایسا اور کوئی متبادل نہیں ہے جبکہ حالیہ فیصلے سے شیخ حسینہ کی ممکنہ واپسی کے ساتھ سیاسی کردار کا امکان مزید کم ہوگیا ہے۔

فیصلے پر اقوامِ متحدہ کی ترجمان روینا شامدانی نے تبصرے میں کہا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم پر سزا متاثرین کے لیے اہم لمحہ ہے لیکن موت کی سزا نہیں دی جانی چاہیے تھی انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ملزم کی غیر حاضری میں یہ مقدمہ منصفانہ ٹرائل کے معیارات کے مطابق نہیں انھوں نے موت کی سزا کے نفاز پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ یہاں ایک اور پہلو کا زکر کرنا ضروری ہے کہ گزشتہ برس طلبا کے احتجاجی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران چودہ سو افراد کے مارے جانے کی اقوامِ متحدہ نے ہی تصدیق کی تھی اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں کسی رہنما کے خلاف بظاہر سب سے سخت فیصلہ ہے مگر مقتولین کے ایسے ورثا کو انصاف دلانے کے لیے ناگزیر تھا جن کے عزیزو اقارب حکومت کے سفاکانہ کریک ڈاؤن کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

شیخ حسینہ واجد اور اُن کی حکومت میں وزیرِ داخلہ کے فرائض ادا کرنے والے اسد الزمان کمال اِس وقت بھارتی شہر اگرتلہ میں مقیم ہیں جنھیں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی سیاسی مہمان تصور کرتی ہے جو حالیہ فیصلے کے بعد اب سیاسی نہیں رہے بلکہ مجرم ثابت ہوچکے ہیں اور عالمی چارٹر کی رو سے مجرمان کا تحفظ، اعانت اور میزبانی ممنوع ہے۔ اسی چارٹر کی رو سے دنیا کے درجنوں ممالک میں مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ ہے۔ اِس حوالے سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بھی معاہدے موجود ہیں جن پر ماضی میں عمل درآمد بھی ہوتا رہا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک مزید حوالگی کے حوالے سے موجود معاہدے کی پاسداری کریں گے؟

بظاہر ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ سیاسی، دفاعی اور تجارتی مفاد کے لیے بھارت شیخ حسینہ خاندان کو نہایت اہم تصور کرتا ہے مگر عدالتی فیصلے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حوالگی اور ملک بدری جیسے بنگلہ دیشی مطالبات کا بھارت کیسے سامنا کرتا ہے۔ بظاہر عدالتی فیصلے سے بھارت کے لیے صورتحال کچھ مشکل اور پچیدہ ہوئی ہے۔ فیصلے کے تناظر میں ایک بار پھر بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ شیخ حسینہ اور اسدالزمان کمال کو ملک بدر کرے جس کے جواب میں بھارت کا محض تعمیری رابطہ رکھنے کا وعدہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کا مطالبہ پورا کرنے کا کوئی اِرادہ نہیں رکھتا جس کی وجہ سے مستقبل میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مزید غیر ہموار ہوسکتے ہیں۔

اقتدارکے دوران تیسری دنیا کے سیاستدان اکثر حماقتیں کر جاتے ہیں جس کا احساس انھیں اقتدار سے محرومی کے بعد اُس وقت ہوتا ہے جب اپنے ہی فیصلوں سے سزا ملتی ہے۔ شیخ حسینہ نے ڈھاکہ عدالت کے فیصلے کی مذمت کی ہے اور اُسے متعصبانہ اور سیاسی بنیادوں پر سنایا جانے والا فیصلہ قرار دیا ہے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یہ سزا عبوری حکومت کے اندر موجود انتہا پسندانہ عناصر کی قاتلانہ نیت کوظاہر کرتی ہے۔ بظاہر ایسی سزا جو کسی کی عدم موجودگی میں سنائی جائے پر اخلاقی اور قانونی نکتہ نظر سے سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں مگر یہاں ٹربیونل کے اغراض و مقاصد کا جاننا قارئین کے لیے خاصا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ شیخ حسینہ نے پاکستان سے نفرت میں یہ ٹربیونل بنایا تاکہ البدر کے وہ لوگ جو زندگی کے ایام گزار رہے ہیں انھیں بڑھاپے میں بھی بغیر ثبوت اور شہادتوں کے پھانسی دی جا سکے جوکہ ہر حوالے سے انصاف سے متصادم طریقہ کارہے۔

اِس طریقہ کار میں مکتی باہنی کے انسانیت کے خلاف جرائم کو تو نظرانداز کیا جاتا رہا مگر البدر اور الشمس کے رضاکاروں پر بے بنیاد مقدمات بناکر عدالتی قتل کیے گئے۔ سزائیں سنانے کے لیے گواہی اور ثبوت کا یہ معیار تھا کہ کسی نے عوامی لیگ کی مخالفت کی یا کسی کے خلاف عوامی لیگ کے حمایتی اخبار میں کوئی خبر شائع ہوئی تو ٹربیونل نے اُسے ہی معتبر گواہی اور ثبوت تسلیم کرلیا۔ 1971کے واقعات کو بنیاد بناکر 2022 سے لیکر 2024 کے دو برسوں میں ایسے درجنوں مقدمات بنائے گئے جن کو بنیاد بنا کر علما اور سیاسی رہنماؤں کو پھانسی دیدی گئی۔

اِس طرح دراصل ملک کو پاکستان نواز عناصر سے پاک کرنے کے ساتھ شیخ حسینہ اپنے سیاسی مخالفین کو خوفزدہ کرنا چاہتی تھیں۔ یہ پاکستان اور بنگلہ دیش معاہدے کی صریحاََ خلاف ورزی تھی لیکن بھارت سے محبت میں مدہوش شیخ حسینہ نے ظلم کی ہرحد پار کردی مگر ایسا کرتے ہوئے مکافاتِ عمل بھول گئیں اور آج اپنے ہی بنائے ٹربیونل کے زریعے جرائم کی مرتکب قرار پاچکی ہیں۔ کچھ اسی طرح ہی بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمنٰ بھی اپنی ہی بنائی مکتی باہنی کے میجر فاروق کے ہاتھوں اگست 1975 میں انجام کو پہنچے جس میں وہ اپنی اہلیہ، بچوں اور بہو سمیت قتل ہوئے اور صرف دو بیٹیاں ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے بچ سکیں۔ اگر بیٹی اپنے باپ کا انجام یاد رکھتی تو اقتدار کے دوران انصاف کی دھجیاں نہ بکھیرتی۔ کیسا عجب اتفاق ہے کہ سیاسی مخالفین کا خاتمہ کرنے کے لیے جو ٹربیونل بنایا اسی نے آج درست شواہد کی بنا پر جب خلاف فیصلہ دیا ہے تو وہ متعصبانہ اور سیاسی کہنے لگی ہیں۔

بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری انتظامیہ کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ ملک کا نظم و نسق چلانے کا عارضی بندوبست ہے جبکہ اب بھی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہرے ہوتے ہیں اِس کے باوجود اطمنان کا پہلو یہ ہے کہ ملک کے اندر موجود خرابیاں دور کرنے کا عمل جاری ہے جس سے انصاف اور جمہوریت کی حقیقی منزل حاصل ہونے کی امید ہے۔

آج کا بنگلہ دیش بھارت کا مطیع و فرمانبردار بننے سے زیادہ اپنی بہتر عالمی شناخت اور سب سے بناکر رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وہ ملکی سیاسی نقشے کو درست رکھنے کے ساتھ خطے میں فعال اور جاندار کردار کا آرزومند ہے۔ وہ بھارت کو مشرقی ریاستوں تک آسان رسائی کے لیے راہدرای دینے کے عوض اپنے مفاد کا بھی تحفظ چاہتا ہے۔ اُسے بھارت کی آبی جارحیت کا بھی ادراک ہے اسی لیے موجودہ عبوری انتظامیہ کا چین اور پاکستان کی طرف جھکاؤ ہے۔ اِن مقاصد کے لیے شیخ حسینہ کا سیاسی انجام بہت اہم ہے کیونکہ بنگلہ دیش کے اندر سیاسی اور خطے میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran