غریب ممالک کے معدنی وسائل لوٹنے کے لیے عالمی طاقتیں اب براہ راست حملے نہیں کرتیں بلکہ معاہدوں کا سہارہ لیتی ہیں یا پھر کسی ایک گروہ کی حمایت سے مزموم مقاصد حاصل کرلیتی ہیں۔ بینک اور بندرگاہیں بھی سامراج کا وہ ہتھیار ہیں جن کی کاٹ ہتھیاروں سے زیادہ ہے۔ کرنسی کی صورت میں کاغذ کے ٹکڑوں کی تکریم انسانی جان سے زیادہ ہے۔ سوڈان پر کسی ملک نہیں حملہ نہیں کیا لیکن اِس کی معدنیات نے خطرات کو جنم دیا ہے۔
ایک گروہ کی بیرونی حمایت نے اِس بدنصیب ملک کو خانہ جنگی سے دوچار کر رکھا ہے۔ ملک میں دو برس سے شدید جنگ جاری ہے۔ سرکاری فوج اور نیم فوجی تنظیم آر ایس ایف (ریپڈ سپورٹ فورس) ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔ ویسے تو دونوں ہی قتلِ عام میں مصروف ہیں مگر عرب امارات کی حمایت یافتہ آر ایس ایف کی درندگی نمایاں ہے۔ ایسا شاید ہی کوئی جرم ہو جس میں یہ ملوث نہ ہو۔ بچوں کے سامنے والدین مارے جارہے ہیںِ اس طرح تو کوئی جانوروں سے بھی برتاؤ نہیں کرتا جس طرح کا سوڈان کے شہریوں سے ہو رہا ہے مگر اِتنے مظالم دیکھ کر بھی عالمی طاقتیں اور اِدارے خاموش تماشائی ہیں۔
ایک جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو قیامت خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جارہا ہے۔ افسوس کہ خونی واقعات سے آگاہی کے باوجود اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے اِدارے امن کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کرپا رہے۔ مسلم ممالک کی او آئی سی نامی تنظیم بھی لاتعلق ہے کیونکہ آر ایس ایف کی پشت پر عرب امارات ہے اور اسرائیل بھی خانہ جنگی جاری رکھنے کا متمنی ہے۔
موجودہ خانہ جنگی سے سوڈان ایک بار پھر تقسیم کے دہانے پر ہے۔ یہ ملک عملی طور پر مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ماضی میں عیسائی اکثریتی علاقے دارفرکو آزاد و خود مختار بناکر خانہ جنگی ختم کرائی گئی اب ایک بار پھر اجتماعی قتلِ عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا جیسے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ تاوان کے لیے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو حراستی مراکز میں بند کیا جا رہا ہے۔ اِس بدنصیب ملک کے سوا کروڑ شہری بے گھر ہوچکے جن میں سے پچیس لاکھ ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ املاک کی تباہی کے ساتھ دسیوں ہزار اموات ہو چکیں خواراک اور ادویات کی قلت سے انسانی المیہ شدید ہوتا جا رہا ہے مگر دنیا ایسے چُپ ہے جیسے یہ سب معمول کا واقعہ ہو۔ عیسائیوں کے قتلِ عام کا الزام لگا کر نائیجریا میں فوجی کاروائی کی تیاری کا حکم دینے والے امریکی صدر ٹرمپ کی آنکھیں سوڈان میں جاری درندگی دیکھنے سے قاصر ہیں اِسی لیے جنگ بندی کرانے کا خیال نہیں آیا۔ یہ خاموشی، لاتعلقی، تماشائی جیساکرداراور انصاف کا دوہرا معیار سمجھ سے بالاتر ہے۔
اپریل 2023 سے فوج اور آرایس ایف میں جھڑپیں جاری ہیں جو اِس وقت دارالحکومت خرطوم سے لیکر دارفر تک وسیع ہو چکی ہیں۔ کئی علاقوں میں قحط جیسی صورتحال ہے۔ اقوامِ متحدہ نے دنیا کے المناک ترین بحرانوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈان میں تین کروڑ سے زائد لوگوں کو فوری طورپر غذائی امداد کی ضرورت ہے وگرنہ اموات کی تعداد بڑھنے کاخدشہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ اِدارہ امن کی بحالی میں کیوں ناکام ہے؟
یہ درست ہے کہ سوڈان کے المیے میں اقتدار کی داخلی کشمکش کا اہم کردار ہے مگر کچھ ایسی طاقتیں بھی ہیں جو اپنے مفاد کے لیے جنگ کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش ہیں۔ سوڈان میں جاری خانہ جنگی میں اندرونی کشمکش کے ساتھ بیرونی مداخلت بھی کارفرما ہے جس کی ایک وجہ تو سونے کی کانیں ہیں اور اِس ملک کا بحیرہ احمر کے نزدیک ہونا ہے۔ اگر بیرونی دنیا کے یہاں معاشی اور سیاسی عزام نہ ہوتے تو یہ ملک ہرگز خانہ جنگ اور بدامنی کا مرکز نہ بنتا۔ خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ سوڈان میں خانہ جنگی کو ہوا دینے میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی سوچ ایک ہے۔ عرب امارات کی کوشش ہے کہ چاہے ملک مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے مگر سونے کی کانوں پر اُس کا قبضہ مستحکم رہے۔ آر ایس ایف کو ہتھیار و مالی مدد کا زریعہ عرب امارات ہی ہے۔
اسرائیل کی دلچسپی صرف سونے کی کانوں تک محدود نہیں بلکہ دیگر عوامل بھی ہیں جن میں سے ایک حماس کی حمایت کرنا ہے۔ اِس پر اُسے غصہ ہے جس کی وہ سوڈان کوسزا دے رہا ہے اور اُس کی وحدت کو نقصان سے دوچار کرنا چاہتا ہے تاکہ اِس حد تک سوڈان کو کمزور و ناتواں کردیا جائے کہ مستقبل میں کبھی اسرائیل مخالف موقف کی جرات نہ کرسکے۔ 2019 میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد سوڈان کی عوام کو توقع تھی کہ جمہوری تبدیلی سے ملک میں امن آئے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا کیونکہ طاقت کی اندرونی کشمکش اور بیرونی مداخلت نے مزید انتشار و افراتفری میں دھکیل دیا ہے جس سے یہ ملک سنبھل نہیں رہا اور مسلسل عدمِ استحکام سے دوچارہے۔
اندورنی اور بیرونی عوامل نے صورتحال کو ازحد پچیدہ اور سنگین کر دیا ہے آر ایس ایف کی نظر میں غیر عرب سوڈانی دراصل اقلیت ہیں جس کی وجہ سے انھیں معاشی یا سیاسی حقوق دینے سے انکاری ہے مگر فوج ایسی کسی سوچ سے اتفاق نہیں کرتی اور عرب اور غیر عرب پالیسی کے خلاف مزاحمت کررہی ہے۔ آر ایس ایف ہرگز ایک طویل لڑائی کی متحمل نہیں تھی مگر بیرونی کمک نے استعداد میں اِتنا اضافہ کردیا ہے کہ ایک طویل لڑائی کے قابل چکی ہے مگر اُس کے وحشیانہ حملوں سے ملک تباہی کے دہانے پر آگیا ہے۔
سوڈان کے المیے کی شدت کم کرنا ہے تو آر ایس ایف کو غیر مسلح کرنا ہوگا عربوں کے حقوق کا حامی بن کر یہ تنظیم دراصل ملک میں نسلی خلیج کا موجب ہے اب تو اِس درندہ صفت تنظیم کے پاس بڑی تعداد میں ڈرونز ہیں جس کی وجہ سے اُسے فوج پر برتری حاصل ہے مگر یہ برتری سوڈان کے لیے بہت تباہ کُن ثابت ہو رہی ہے۔ الفاشر شہر میں آر ایس ایف نے جو کیا ہے وہ حقیقی نسل کشی ہے۔
یہ نیم فوجی گروہ سترہ ماہ کے محاصرے کے بعد اِس شہر پر قابض ہوکر پانچ دنوں میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار چکا ہے۔ الفاشر کے سقوط کے بعد آر ایس ایف کا بظاہر پورے دارفر پر قبضہ تو ہوگیا ہے لیکن ملکی وحدت شدید خطرے میں ہے کیونکہ ایک طرف تو سوڈان کی ایک اور تقسیم کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ نسلی حوالے سے بھی مزید فسادات ہوسکتے ہیں۔ اگر مہذب دنیا فوری طور پر اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے کردار ادا کرے تو یہ ملک مزید قتل و غارت سے محفوظ رہنے کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ سے بچ سکتا ہے۔