Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Teekhe Sawalon Ke Jawab

Teekhe Sawalon Ke Jawab

سویڈن سے جب ناروے عازمِ سفر ہوا تو ایسے لگ رہاتھا جیسے سردی کی لہر اپنے جوبن پر ہے کیونکہ سرد ہوائیں جسم کے آر پار ہوتی محسوس ہو رہی تھیں اور فضا میں کُہرے کا تاثر تھا مگر سفر کی ضرورت سردی، تیز ہواؤں اور کُہرے جیسی رکاوٹوں پر غالب رہی اور ہمرکاب دوستوں ارشاد ناظر، منصورشمیم اورمعروف کاروباری شخصیت نویدآصف پر مشتمل چھوٹے سے قافلے کی صورت میں بعد دوپہر سویڈن کے شہر مالمو سے چھ سو کلومیٹر دور اوسلو کی طرف چل نکلے۔

اِس سفر کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ میرے فرزندِ اصغر عمران حمید بھی ہمراہ تھے اِس لیے سفری تھکاوٹ یا بے زاری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ میں راستے میں سوچ رہا تھا کہ سویڈن میں موسمِ گرما کے باوجود جس قدر سردی محسوس ہو رہی ہے ممکن ہے ناروے میں شدت قدرے کم ہو نیز راستے میں سرحدوں پر سختی ہو سکتی ہے لیکن سرحد پر تو کسی قسم کی رکاوٹ یا جانچ پڑتال نہ ہوئی البتہ جب اوسلو پہنچے تو میرا خیال اور اندازہ غلط ثابت ہوا کیونکہ مالمو سے بھی زیادہ شدید سرد تھپیڑوں نے استقبال کیا۔

میزبانوں شیراز احمد، میاں مدثر، عاطف سمیت دیگرنے ترکش ریسٹورنٹ علی بابا پر جس گرم جوشی اور خلوص سے استقبال کیا سچ تو یہ ہے کہ ناصرف سردی کا احساس کافور ہوگیا بلکہ سفری کوفت کا بھی اگر کہیں کوئی احساس تھا تو وہ بھی معدوم ہوگیا۔ ایک دوسرے کی خیروعافیت معلوم کرنے کے دوران ہی مختلف قسم کے ترک کھانے میز پر وس دیے گئے کم مرچ ونمک کی بنا پر خوب سیر ہوکر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ دیارِ غیر میں کچھ کیے بغیر ہی اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ اسی دوران خوش مزاج میزبانوں نے ارشاد ناظر کی سالگرہ تقریب رکھ لی ترک ریسٹورنٹ پر سالگرہ کی مناسبت سے اُردو موسیقی نے ماحول کو مزید خوشگوار بنا دیا۔

عشایئے کے بعد چائے کا اہمتام اوسلو میں ہمارے میزبان میاں مدثر نے اپنی رہائش گاہ پر کیا کیونکہ اوسلو میں کاروبار کرنے کے مخصوص اوقات ہے جس کی پاسداری کی جاتی ہے۔ گھر میں رکھی تبادلہ خیال کی محفل میں چند ایک مزید احباب کمالیہ سے یاسین سمیت دیگر سے بھی معانقہ ہوا رسمی تعارف کے بعد خوشگوار انداز میں شروع ہونے والی گپ شپ کب سنجیدہ ہوئی کچھ پتہ ہی نہ چلا اور پھر راقم سے ایسے سنجیدہ سوالات شروع ہوئے جن سے خوشگوار ماحول تناؤ کا شکار ہوتا چلا گیا۔

دیارِ غیر میں آباد پاکستانی اپنے وطن بارے بہت حساس ہوتے ہیں یہ بدامنی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کا بھی گہرا اثر لیتے ہیں حالانکہ دنیا میں ہر جگہ اچھے اور بُرے لوگ ہوتے ہیں جو ماحول پر اثر انداز اور بدامنی کا باعث بنتے ہیں جن پر قابو پانا قانون نافذ کرنے والے اِداروں کا فرض ہے لیکن مشرق اور شمال کے ہمسائے مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ بیرونی دشمن رقوم کے ساتھ شرپسندوں کو ہتھیار اور تربیت فراہم کرتے ہیں جو بدامنی کے فروغ کی ایک اہم وجہ ہے ہم وطنوں کی طرح دیارِ غیر میں آباد پاکستانی چاہتے ہیں۔

ہمارا پیارا پاکستان جلد امن و ترقی کا گہوارہ ہو مگر بدامنی اور سیاسی واقعات سے مخصوص اہداف کو جوڑ کر تارکینِ وطن کو کیسے ملک اور اِداروں سے بدظن کیا جارہا ہے؟ اِس کا احساس اوسلو میں شدت سے ہوا سوشل میڈیا کا اِس زہرناکی میں کلیدی کردار ہے۔ اِس زہرناکی سے متاثرہ ازہان ملک اور اِداروں سے خفا نظر آتے ہیں۔ راقم سے جب ہلکے پھلکے انداز میں ملک اور اِداروں کی پالیسیوں کے متعلق دریافت کرتے ہوئے تیکھے سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو وطن اور اِداروں کے دفاع کے فریضے کی ادائیگی کو واجب تصور کرتے ہوئے حقائق کی نقاب کشائی کرتا چلا گیا۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ مقبول سیاسی رہنما کو ناجائز حراست میں رکھا گیا ہے۔ میرا جواب یہ تھا کہ عدالتیں فیصلے کرتے ہوئے مقبولیت نہیں شواہد مدِ نظر رکھتی ہیں۔ ملک میں آج جو صاحبانِ اقتدار ہیں اکثریت بانی پی ٹی آئی کے دور میں نہ صرف مقدمات کا سامنا کرتی رہی بلکہ پابندِ سلاسل بھی رہی اور بہتر سیاسی حکمتِ عملی کی بدولت عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کیا اور پھر عام انتخابات کے بعد بھی مختلف خیالات کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

یہ متضاد خیالات والے کبھی یکجا نہ ہوتے اگر عمران خان سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے اور سیاسی قوتوں سے بات چیت کا سلسلہ بحال رکھتے قومی اسمبلی سے استعفوں کے بعد کے پی کے اور پنجاب اسمبلیاں توڑنے کا غیر سیاسی فیصلہ ہی تحریکِ انصاف کے لیے مصائب و مشکلات کا موجب ہے یہی فیصلہ چوہدری پرویز الٰہی جیسے بزرگ سیاستدان کو ایک برس سے زائد جیل میں رکھنے کاجواز بنا اگر پی ٹی آئی سیاسی قوتوں کے لیے دروازے بند نہ کرتی، چور اور ڈاکو جیسے القابات نہ دیتی نیز اِداروں سے ٹکرانے کا غیرضروری فیصلہ نہ کرتی تو شاید ملک کا سیاسی منظرنامہ آج سے قدرے مختلف ہوتا۔

پی ٹی آئی دورِ اقتدارکے اہم ترین عثمان بزدار، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان آج خود عمران خان کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں حالانکہ یہی لوگ اصل فیصلہ ساز تھے اب امین علی گنڈاپور، شیر افضل مروت اور وکلا ٹیم کی صورت میں ماضی کی غلطیاں دہرانے کا سلسلہ جاری ہے جب تک سیاسی قوتوں سے سلسلہ جنبانی بحال اور اِداروں سے ٹکرانے کی حکمتِ عملی پر نظرثانی نہیں کی جاتی تب تک مصائب و مشکلات کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اب پی ٹی آئی کی صفوں میں تھاوٹ کے آثار ہیں میں نے میزبانوں کو بتایا کہ یہ کوئی خبر نہیں البتہ تحریکِ انصاف لچک دکھانے پر آمادہ لگتی ہے اسی لیے سیاسی سوجھ بوجھ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ شاید اگلے برس کے درمیان تک ابتلا و آزمائش میں کچھ کمی آنے کا امکان ہے۔

بلوچستان کے حالات کا اِداروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے شیراز احمد نے کہا کہ یہ سب محرومی کا نتیجہ ہے۔ بلوچستان کو وسائل سے مناسب حصہ دیکر حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں جس پر میرا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے وقت بھی بلوچستان کے الحاق کے حوالے سے نوزائیدہ مملکت کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستان بے سروسامانی کی حالت میں تھا تو کچھ سرداروں نے الحاق میں تاخیر کی لیکن عوامی دباؤ کے آگے جب کسی کی پیش نہ چلی تمام حیلے ناکام ہوگئے اور بلوچستان کا پاکستان سے الحاق ہوگیا تو ناکامی سے دوچار ہونے والے وہی چند سردار اور اُن کی اولادیں اپنے مفاد کی خاطر بلوچستان کو پس ماندہ رکھنے کی ذمہ دار ہیں بلکہ اغیار کی سازشوں کو پرواہ چڑھانے میں بھی آلہ کار ہیں۔

یہ لوگ عام بلوچوں کوملک سے بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ محرومی کے جواز میں مزدوروں، کان کنوں اور مسافروں کا قتلِ عام کرتے ہیں حالانکہ احساسِ محرومی ختم کرنے کا کسی کے پاس کوئی بہتر طریقہ ہے تو حکومت اور اِداروں کو دلیل سے قائل کرنا چاہیے لیکن ایسا کرنے کی بجائے بلوچستان میں بے گناہوں کا خون بہایا جارہا ہے اگر بلوچستان نے ترقی کرنی ہے تو عام آدمی کو تعلیم و صحت کی سہولتیں دینا ہوں گی۔ روزگارکے مواقع بڑھانا ہوں گے قبائیلی نظام ختم کرنا ہوگا مگر جب بھی حکومت اِس طرف قدم اُٹھاتی ہے تو اغیارکے کارندے حرکت میں آجاتے ہیں۔

دراصل وسائل پر اصل قابض مٹھی بھر مقامی سردار ہیں جو تعلیم و صحت کا فروغ نہیں چاہتے اور عام آدمی کو بے روزگار رکھنے پر مُصر ہیں تاکہ لوگ قبائلی سرداری نظام سے آزادی نہ حاصل کر سکیں بلوچستان کے جو شرپسند گوادر کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اُن کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کیونکہ پاکستان نے یہ علاقہ عمان کو پیسے دیکر خریدا ہے لیکن ماہرنگ بلوچ جیسے چہرے اِس حوالے سے بدگمانیاں بڑھانے کی کوشش میں ہیں مگر عام بلوچ آج بھی پاکستان کے وفادار ہیں یہ محب الوطن لوگ اپنے اِداروں سے پیار کرتے ہیں اسی لیے باوجود کوشش کے، عوام میں شرپسندوں کو قبولیت حاصل نہیں ہو سکی یہ ملک دشمن عناصر اب قتلِ عام پر اُتر آئے ہیں لیکن عوام کے تعاون سے ہمارے باصلاحیت اِدارے امن دشمنوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

1971کی جنگ میں شکست اور بنگلہ دیش کے قیام کا اِداروں کوذمہ دار ٹھہرانے کی بات سن کر مجھے شدید صدمہ ہوا مزید یہ کہ جب شیخ مجیب الرحمٰن کو محب الوطن قرار دیا گیا تو میرے صبر کا بھی پیمانہ لبریز ہوگیا میں جو عام طور پر صبرو تحمل اور دلیل سے بات کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ تلخ ہو کر میزبانوں سے دریافت کیا کہ جب بنگلہ دیش کے لوگ شیخ مجیب کو پاکستان توڑنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جس کی تائید نہ صرف اگرتلہ سازش کیس سے ہوتی ہے بلکہ نریندرا مودی نے ڈھاکہ جا کر شیخ حسینہ واجد کی موجودگی میں اعتراف کیا کہ پاکستان توڑنے میں بھارت اور شیخ مجیب الرحمٰن کا مشترکہ کردار ہے تو آپ کِن شواہد کی بناپر ایک مستند غدار کو محب الوطن کہہ سکتے ہیں؟

بنگلہ دیش کے لوگ شیخ مجیب باقیادت کو بھی تلف کرنے کے آرزو مند ہیں اور شیخ حسینہ جو اقتدار سے بے دخل ہو کر اپنے سرپرست بھارت کی گود میں جابیٹھی ہیں کیا اِس قدر مضبوط شواہد کے باوجود اِس خاندان کی غداری میں کوئی ابہام رہ جاتا ہے؟ یہ جو آجکل حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھنے پر زور دیا جارہا ہے یہ دراصل عام آدمی کو بدگمان کرنے کی سازش ہے میں یہ نہیں کہتا کہ 1971 کی سیاسی قیادت اور اِداروں سے غلطیاں نہیں ہوئیں ضرور ہوئی ہوں گی مگر نریندرامودی کے فخریہ اعتراف سے تمام شہبات دور ہوجاتے ہیں۔ ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار بیرونی دشمن اور اندرونی آلہ کار ہیں جن سے بنگالی بھائی چھٹکارے پانے کے تگ و دو میں ہیں محفل مزید تلخی کا شکار نہ ہو اس لیے قہوے کا کپ اُٹھاتے ہوئے میں نے حاضرین کی توجہ خشک میوہ جات کی طرف کردی۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran