Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Trump Ki Bharat Se Khafgi Mein Kitni Haqiqat?

Trump Ki Bharat Se Khafgi Mein Kitni Haqiqat?

خفا نظر آتے ہیں حضور کے مصداق بھارت بارے ٹرمپ کے ظاہری رویے کو کچھ حلقے خفگی قرار دیتے ہیں لیکن اِس رویے کو مودی سے ناراضگی نہیں کہہ سکتے۔ تھوڑا ماضی میں جائیں تو اسی مودی کو بھارتی گجرات میں منظم قتل و غارت کرانے کی پاداش میں امریکہ نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا پھر مشترکہ مفاد نے دونوں ممالک کو یکجا کردیا اور مودی بھی ٹرمپ پر فدا ہوگئے یہاں تک کہ ٹرمپ کی انتخابی مُہم میں حصہ لینے امریکہ گئے اور اڑھائی لاکھ بھارتیوں کے اجتماع سے خطاب میں ٹرمپ کو ووٹ دینے کی التجا کردی۔

مودی کے اقتدار میں کئی روز تک دارالحکومت دہلی مذہبی فسادات کی آگ میں جلتا رہا اور مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے۔ تری پوری میں کئی ماہ سے مذہبی آگ کے شعلے بلند ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھارتی فوج آئے روزبے گناہ اور معصوم مسلمان نوجوانوں کو رزقِ خاک بنارہی ہے ہزاروں کشمیری مسلمان ہونے کی پاداش میں پابندِ سلاسل ہیں مگر ٹرمپ یا اُن کے کسی ساتھی نے ووٹ دلوانے کے عوض مودی مظالم پر کبھی لب کُشائی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

علاوہ ازیں کواڑ میں جاپان اور آسڑیلیا سے زیادہ بھارت کا کردار ہے کیونکہ وہی چین کا ہمسایہ ہے اِس لیے حالات خواہ کچھ بھی ہو جائیں ٹرمپ کسی صورت مودی سے ناراض اور دور ہو ہی نہیں سکتے لہذا خفگی کو ہرگز حقیقت نہ سمجھیں بلکہ یہ سب مطالبات منوانے کے حربے ہیں جونہی مودی نے محصولات ختم کر دیے تو دیکھ لینا امریکہ اور بھارت ایک بار پھر ایک دوسرے پر فریفتہ نظر آئیں گے۔

ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے پر مودی کا خیال تھا کہ بھارت کی علاقائی اہمیت و حثیت میں اضافہ ہوگا اور یہ خیال کچھ غلط بھی نہ تھا کیونکہ دونوں ممالک کا مفاد ایک دوسرے کا خیال رکھنے میں ہے مگر ایسا خیال کرتے ہوئے شاید بھول گئے کہ ریاستوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں اِس میں شخصیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا نیز تاجرانہ ذہنیت میں منافع کو اہمیت حاصل ہے بھلے مودی امریکہ کے لیے اہم نہ بھی ہوں تو بھی بھارت اہم ضرور ہے۔

یہ جو پچیس فیصد محصولات لگانے نیز روس سے بڑے پیمانے پر تجارتی شراکت داری پر جرمانہ عائد کرنے کا عندیہ دینے پر بھارتی حلقے تلملا رہے ہیں یہ صورتحال زیادہ دیر نہیں رہے گی ٹرمپ کی طرف سے اعلان پر جلد نظرثانی کی توقع ہے۔ پچیس فیصد ٹیکس لگا کر بھی بھارت سے مزاکرات جاری رکھنا اسی طرف اشارہ ہے۔ چند ایک بھارتی کمپنیوں پر پابندیاں لگانا اور امریکی کمپنیوں کو بھارتیوں کو ملازمتیں دینے سے باز رکھنے کی تلقین بھی محض دباؤ ہے۔

گرپتونت سنگھ بھارت کے لیے ایک غدار اور دہشت گرد ہے مگر اسی گرپتونت سنگھ کو ٹرمپ خط لکھ کر شہری آزادیوں اور سلامتی کے تحفظ کی ضمانت دینے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی میں ملوث ہونے کے ساتھ عالمی سطح پر بھی دہشت گردوں کا سہولت کار ہے جس کی تائید کینیڈا، ترکی اور برطانیہ تک کر چکے مگر موجودہ امریکی انتظامیہ کو ایسے کالے کرتوتوں کے باوجود بھارت سے پیار ہے لہذایہ بات لکھ لیں جونہی بھارت امریکہ کو تجارتی مراعات دے گا اور اسلحہ خریدنے کی بات کرے گا امریکی رویہ یکسر بدل جائے گا حالانکہ یہی مودی جو ٹرمپ سے زاتی تعلقات کا دعویدار ہے۔

مقبوضہ کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی تسلیم کرنے سے انکاری ہے علاوہ ازیں مودی تو یہ بھی نہیں مانتا کہ پاک بھارت جنگ بندی میں ٹرمپ کا کوئی کردار ہے لیکن ریاستی تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں اسی لیے ٹرمپ کو یاد بھی نہیں رہتا کہ بھارتی وزیرِ اعظم مودی مسلسل حکم عدولی کررہا ہے۔ زمانہ شاہد ہے کہ ٹرمپ کی ذہنیت تاجرانہ ہے اور وہ ہرکام میں نفع و نقصان کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اس لیے ٹرمپ کی خفگی کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔

پاکستان پر ٹرمپ کی مہربانیوں کی کئی ایک وجوہات ہیں کرپٹوکرنسی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان نے کئی غیر معمولی فیصلے کیے ہیں۔ نہ صرف کرپٹوکونسل بنائی ہے بلکہ دوہزار میگاواٹ بجلی بھی مختص کردی ہے۔ کرپٹو کرنسی سے ٹرمپ خاندان کا کیا تعلق ہے؟ بتانا غیر ضروری ہے کیونکہ یہ کوئی راز نہیں۔ پاک بھارت جنگ بندی میں ٹرمپ کا خواہ جتنا بھی کردار ہے ایک بات واضح ہے کہ جنگ شروع ہونے سے قبل چاہے ٹرمپ انتظامیہ نے بے نیازی اور بے رغبتی ظاہر کی بعد میں البتہ رکوانے کی بھی کوشش کی اور اِس میں دوست ممالک کا تعاون بھی حاصل کیا مگر پاک امریکہ تعلقات جو چند برسوں سے غیر ہموار ہیں کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان نے جنگ بندی کا تمام تر کریڈٹ ٹرمپ کو دے کر اُنھیں نوبل انعام کے لیے نامزد کرنا ایسا چھکا ہے جو کسی خالی پیٹ شخص کو طعام میں میٹھی کھیر پیش کرنے کے مترادف ہے۔

جنگ کے فاتح ملک کی طرف سے نوبل انعام کے لیے نامزدگی نے امریکی صدر کو نہال کر دیا ہے اسی لیے جنگ بندی کی بات کرتے ہوئے بھارتی طیارے گرنے کی تصدیق کرنے لگے ہیں۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ طور پر معدنیات تلاش کرنے کی پیشکش کردی ہے۔ معدنیات کے حوالے سے شاید قارئین کو یاد ہو کہ یوکرینی صدر کی طرف سے تحفظات ظاہر کرنے پر صدارتی دفتر میں تذلیل بھی کی گئی مگر پاکستان نے دیدہ دل فرشِ راہ کی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے جس پر ٹرمپ کا جی بہت شاد ہے۔

فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات کو اعزاز قرار دینے اور تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر میزبانی کرنے اِس بات کا بھی عمل دخل ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان سے عرب ممالک کو دفاعی حوالے سے مضبوط کرنے سے روکنا اور ایران سے فاصلہ رکھنے جیسا اہم مقاصد بھی حاصل کرنا ہے یہ سب کچھ دوستی رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ چین سے مڈبھیڑ نہ ہو اِس حوالے سے بھی پاکستان ہی کام آسکتا ہے۔

بیرونِ ملک ڈیجیٹل طریقے سے درآمدی اشیا اور خدمات پر پاکستان نے پانچ فیصد عائد محصول ختم کر دیا ہے جس سے گوگل جیسی امریکی کمپنیوں کے منافع میں خوب اضافہ ہوگا ایک ایسا غریب ملک جو پیسے پیسے کا محتاج ہے اُس کے ایسے فیصلے تاجرانہ ذہنیت خوش کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ایک اور نوازش سنیے بلوم برگ نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سٹاک مارکیٹ میں کی گئی سرمایہ کاری پر منافع کی شرح سب سے زیادہ اٹھارہ فیصد دیتا ہے حالانکہ جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ جیسے امیر ممالک صرف سات جبکہ چین آٹھ فیصد منافع دیتے ہیں۔

اسی لیے تو پاک امریکہ تجارتی ڈیل کی نوید سناتے ہوئے شوشہ چھوڑا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے پاکستان اب بھارت کو تیل فروخت کرنے لگے حالانکہ ایسا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ ٹرمپ کی بھارت سے خفگی محض ظاہری ہے۔ چین کی وجہ سے آئندہ بھی امریکہ کے لیے بھارت ترجیحی ملک رہے گا لہذا پاکستان فیصلے کرتے وقت کسی شخص کو خوش کرنے کی بجائے اپنا مفاد مدِ نظر رکھے تو بہتر ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran