قومیں جذبے اور اُمید سے آگے بڑھتی ہیں مایوسی تو زوال کا باعث بنتی ہے۔ گزرے چند عشروں میں باختیار عہدوں پر فائز شخصیات نے اپنے کردار سے جذبے اور اُمید کی بجائے مایوس عناصر کو مضبوط اور فعال کیا ہے جس کی ایک وجہ سیاسی تقسیم کے زیرِ اثر زہریلا پراپیگنڈہ ہے۔ حکومتیں بدلنے سے بھی نظام میں کوئی تبدیلی آئی اسی بنا پر مایوسیوں کے اندھیرے گہرے ہوئے اور آج تو یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ وہ مقتدر طبقہ بیوروکریسی جس کے ہاتھ میں ملک کا اصل اقتدار و اختیار ہے وہ بھی ملکی مستقبل سے مایوس اور فرارکے چکر میں ہے، حالانکہ یہ مقتدر طبقہ مقابلے کا امتحان پاس کرتا اور اچھی تعیناتی لیکر دونوں ہاتھوں سے مال بناتا ہے اور پھر اپنے خاندان کو بیرونِ ملک آباد کرنے کی کاوشوں میں لگ جاتا ہے۔ یہ بہت خوفناک رجحان ہے جس پر اگر جلد قابو نہ پایا گیا تو یہ ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہوگا۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف سے لاکھ اختلافات سہی اور یہ بھی ممکن ہے کہ زاتی رنجش کی بنیاد پر نقاب کُشائی کی ہو کیونکہ اُن کا اپنا منظورِ نظر اے ڈی سی آر اقبال چنڑ اربوں کی جائیداد اور دیگر اثاثے رکھنے کے الزام میں اینٹی کرپشن کی حراست میں زیرِ تفتیش ہے مگر ملک کی آدھی سے زائد بیوروکریسی کا یورپی ملک پُرتگال میں جائیدادیں خرید کر شہریت حاصل کرنے کے انکشاف نے محب الوطن طبقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اِس لیے حکومت کو چاہیے کہ انکشافات کو سنجیدہ لیکر شفاف تحقیقات سے ملوث عناصر کو بے نقاب کرے اور طریقہ کار بناکر ایسا انتظام کرے جس سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے عناصر کو سزا ہو زاتی رنجش کہہ کر نظر انداز کر دینا ہرگز مناسب نہیں۔ خواجہ آصف کے پاس ملکی دفاع جیسا اہم منصب ہے اُن کے پاس اہم شواہد ہو سکتے ہیں جن سے مدد لے کر حکومت سرمائے کی غیر قانونی منتقلی روک سکتی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انکشافات کو سنجیدہ لیا جائے۔ خواجہ آصف خود بھی اہم عہدے پر فائز ہیں لہذا اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف انکشاف تک محدود نہ رہیں بلکہ خود بھی عملی طور پر کچھ کریں۔
ملک کے مختلف ہوائی اڈوں پر اجازت سے زائد غیر ملکی کرنسی پکڑنے جیسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں مگر کیا کسی ذمہ دار کو کبھی سزا بھی ملی ہے؟ اِس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ بریت کی وجہ ملزمان کو بڑے ہاتھوں کی پشت پناہی حاصل ہونا ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے اکاؤنٹس، جائیدادوں اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اب تو عالمی زرائع ابلاغ میں آنے لگا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سات ہزار کے قریب پاکستانیوں نے دبئی میں قیمتی جائیدادیں خرید رکھی ہیں جن کی مالیت اربوں میں ہے۔ ایک ایسا غریب ملک جو کمزور معیشت کی وجہ سے قرض لینے پر مجبور ہے کے شہریوں بارے ایسی خبریں ہوش رُبا ہیں جو پاکستانیوں کا اپنی اشرافیہ پر اعتماد کم کر رہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کے پاس اقتدار و اختیار ہے سبھی بدعنوان ہیں لوٹ کھسوٹ کا مال بیرونِ ملک منتقل کرنے سے ہی ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ اب یہ سوچنا اربابِ اختیار کا کام ہے کہ بدنامی کو نیک نامی میں بدلنا ہے یا مزید بدنامیاں سمیٹنی ہیں۔ یاد رہے بدنامیوں کے داغ سنجیدگی سے دھوئے نہ گئے تو آئندہ انتخابات میں کامیابی کی توقع پوری ہونا ممکن نہیں۔
وزیرِ دفاع جیسے منصب پر فائز ایک ذمہ دار عہدیدار اگر بیوروکریسی کے متعلق دعویٰ کررہا ہے تو یونہی نظر انداز کرنا کاہلی و سُستی اور فرائض سے غفلت ہی نہیں ملک دشمنی کے مترادف ہوگا ہاں کسی کو اگر شک و شبہ ہے تو تحقیقات کرسکتا ہے کہ کیا واقعی سرکاری آفیسر یورپی ملک میں جائیدادیں خرید کر رہائشی اجازت نامے حاصل کررہے ہیں؟ ایسی معلومات حاصل کرنا کچھ دشوار نہیں بلکہ اِس حوالے سے پاکستانی سفارتخانہ بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس طرح سزا دینے کا مرحلہ سہل ہوجائے گا کیونکہ پھر دریافت کرنا رہ جائے گا کہ ملوث افراد کے مالی وسائل کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیونکہ چند لاکھ کی تنخواہ سے بیرونِ ملک لاکھوں یورومالیت کی جائیدادیں خریدی نہیں جا سکتیں لہذا وسائل کے متعلق دریافت کرنے سے بدعنوانی بارے ابہام نہیں رہے گا۔
آجکل مادیت پرستی کا ایسا دور دورہ ہے کہ جلد سے جلد امیر ہونے کا مقابلہ جاری ہے۔ اسلام میں تو رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے اِس کے باوجود بدعنوانی دراصل دین سے دوری ہے۔ حکومت اگر بیرونِ ملک اثاثے رکھنے والے بیوروکریٹس کے نام اُن کی جائیدادوں کی تفصیلات حاصل کرلے اور پھر زرائع آمدن اور شہریت جیسے معاملات کو عوامی آگاہی کے لیے منظرِ عام پر لانے سے بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے کیونکہ خواہ جو بھی صورتحال ہو ہمارے معاشرے میں بدعنوان عناصر سے کسی حد تک آج بھی نفرت ہے۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ نہ صرف چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان کی کمزور گرفت کی طرف اِشارہ ہے بلکہ اُن کے دفتر کی تعیناتیوں میں بڑھتی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ زرائع کا کہنا ہے گجرات کے اے سی بلال زبیر کے والد بھی چیف سیکرٹری کے دفتر تعینات ہیں جنھوں نے اپنے فرزند کی گجرات تعیناتی کرائی ہے جن کی رشوت خوری اور لاہور میں محل کی تعمیر بارے کہانیاں زبانِ زدِ عام ہیں۔ پھر بھی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ کوئی اُنھیں تبدیل نہیں کر اسکتا جب ایسے حالات ہوں گے تو بیوروکریسی میں عزت کمانے نہیں مال بنانے کا مقابلہ ہی ہوگا۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ منی لانڈرنگ ملکی معیشت کے لیے چیلنج نہیں تو وہ غلط ہے یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس میں ملوث مجرموں پر اگر جلد قابونہ پایا گیا تو ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی کوششوں کو بہتر بنانے سے ہی مالی جرائم جیسے ناسور ختم ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا حساس نوعیت کا معاملہ ہے جس کے متعلق حکمتِ عملی بنانے کے لیے سب کا مل کر غور کرنا اور پھر متفقہ حل ترتیب دینا ضروری ہے۔ اِدارے ایک دوسرے کی مہارت اور تجربے سے مدد لیکر اپنی استعداد و صلاحیت بڑھاسکتے ہیں۔
غلطیوں کی نشاندہی سے ہی ایسے راستے بند ہوتے ہیں جن پر چل کر دولت غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک منتقل کی جاتی ہے۔ بدعنوانوں پر ہاتھ ڈال کر لوگوں کے دلوں میں اِداروں کے متعلق وسوسے ختم اور اعتماد و احترام بحال کیاجاسکتا ہے۔ کوئی ابہام نہیں کہ بیوروکریسی کی بڑی تعداد کے پاس امیر ممالک کی شہریت ہے جن میں وزارتِ خارجہ سرِ فہرست ہے جس سے سبکدوش ہونے والا کوئی آفیسر پاکستان نہیں رہتا جس سے ملک کے حساس راز افشا ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اگر پنشن کی ادائیگی کوہی مشروط کردیا جائے تو برین ڈرین میں کمی ممکن ہے کیونکہ باقی ماندہ بھی ایسی کوششوں میں مصروف ہیں۔
بیرونِ ملک جائیدادیں خریدنے کے لیے پاکستان سے رقوم پہلے دبئی بھیجی جاتی ہیں اور پھر آگے مطلوبہ ملک منتقل کردی جاتی ہیں کیونکہ پُرتگال کا گولڈن ویزہ حاصل کرنے کا عمل بہت آسان ہے جو چند ہفتوں میں مکمل ہو جاتا ہے اسی لیے بیوروکریسی کی توجہ کا مرکزہے مگر ملک سے سرمایہ لے جانا ایسے ہی ہے جیسے ملک کی رگوں سے خون نچوڑنا۔ اب ایسے عناصر کو لگام کیسے دینی ہے یہ سوچنا اور لائحہ عمل بنانا ذمہ داران کا کام ہے۔