پندرہ برس قبل، سوشل میڈیا کے بے ہنگم اور بے سمت ہیجان سے جنم لینے والی بہارِ عرب، تیونس، مصر، لیبیا، یمن اور شام کو تازہ دم خزائوں کی نذرکرتی، ریگزارِ عرب کا لقمہ ہوگئی۔ کوئی بارہ چودہ برس بعد، سیاسی تحرّک کی ایک موجِ تُند خو نے جنوبی ایشیا کے تین ممالک، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کو ہلا ڈالا۔
سات دہائیوں سے مختلف النّوع مسائل کا شکار سری لنکا، مسلسل معاشی بحران کی گہری دلدل میں دھنستا ہی چلاگیا۔ 1983ء سے 2009ء تک جاری رہنے والی چھبیس سالہ سول وار نے اِس کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ سنبھلنے نہ پایا تھا کہ کرونا نے آلیا۔ معیشت مزید ناتواں ہوگئی یہاں تک کہ جب اُسے اپریل 2022ء میں کم وبیش چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا تھیں، اُس کی زرّمبادلہ کی تجوری میں دو ارب ڈالر بھی نہ تھے۔ اُس نے رسمی طورپر دیوالیہ (Default) ہونے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی عوام کے لئے روزمرہ زندگی کے ایک ایسے عذاب ناک جہنم کے دروازے کھل گئے جس کی تفصیل لرزا کے رکھ دیتی ہے۔ نہ بجلی، نہ پانی، نہ ادویات، نہ اشیائے خوردونوش، نہ نقل وحمل، نہ پٹرول، نہ روزگار، احتجاج کی شدید لہر کا رُخ صدر گوٹابایا کی طرف مڑا۔ وہ سنگا پور فرار ہوگیا۔
سری لنکا کا کمال یہ ہے کہ سول وار ہو یا کچھ اور، اُس نے کبھی انتخابی عمل میں خلل نہ پڑنے دیا۔ پارلیمنٹ قائم رہی اور سول حکومت (جیسی بھی تھی) ہر بحران کا سامنا کرتی رہی۔ دوسرا قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ سری لنکن فوج نے، سول وار اور چھوٹے بڑے سیاسی بحرانوں کے باوجود کبھی اقتدار پر قبضہ نہ کیا۔ نومبر2024ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نیشنل پیپلز پاور، (NPP) کی راہنما، ہرینی امرسوریہ، وزارت عظمی پر فائز ہیں۔ سری لنکا مارچ 2023ء میں، آئی۔ ایم۔ ایف سے تین ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج حاصل کرچکا ہے۔ سنبھلنے کا عمل جاری ہے۔
بنگلہ دیش کی کہانی کا خلاصہ حسینہ واجد کی پندرہ برس پر محیط ظالمانہ، منتقمانہ اور فرعونانہ حکمرانی ہے جس نے سیاسی مخالفین کو پھانسیوں سے لے کر طویل قیدوبند کی اذیتوں سے گذارا۔ برسراقتدار آتے ہی اُس نے "1971ء کی جنگِ آزادی" میں کردار ادا کرنے والے خاندانوں اور اُن کے بچوں کے لئے سرکاری ملازمتوں میں 30 فی صد کا بھاری کوٹہ مقرر کردیا۔ اُس کے خلاف احتجاج ہوتے رہے۔ 2018ء میں اس کوٹے کو جزوی طورپر محدود کیاگیا لیکن جولائی 2024ء میں ہائی کورٹ نے 30 فی صد کوٹہ مکمل طورپر بحال کردیا۔
اس پر بے روزگاری سے اُکتائے نوجوانوں بالخصوص طلبا نے شُعلہ بار احتجاجی تحریک اٹھائی جس کے اہداف کا دائرہ وسیع ہوتا چلاگیا۔ مجیب الرحمن کی بیٹی نے تمام تر حربے آزمائے۔ صرف ایک ماہ میں ڈیڑھ ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔ حسینہ واجد نے 5 اگست 2024ء کو استعفی دیا اور بھارت جا بیٹھی۔ فوج نے معاملات کو سنبھالا دیتے ہوئے طلبہ تحریک سے مشاورت کے بعد ایک طریقِ کار وضع کیا۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے 8 اگست کو چیف ایڈوائزر، کے ٹائٹل سے عبوری حکومت کی سربراہی سنبھال لی۔ ڈاکٹر یونس نے الیکشن کمشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ 2026ء میں، رمضان سے قبل، انتخابات کی منصوبہ بندی کرے۔
نیپال کا سرکاری نام تو وفاقی جمہوریہ نیپال، ہے لیکن اُس کی پوری تاریخ سیاسی کشمکش، آتی جاتی حکومتوں، شاہوں اور سیاستدانوں کی کشمکش اور اقتصادی ابتری سے عبارت رہی ہے۔ حالات سے تنگ عوام کے ایک طبقے نے اوائل ستمبر 2024ء میں کٹھمنڈو کی سڑکوں پر جلوس نکالے، نعرے لگائے کہ "ہمیں بادشاہ واپس چاہیے۔ " سوشل میڈیا کے بے مہار پن اور نت نئے بحرانوں سے تنگ حکومت نے یکایک سوشل میڈیا کی چھبیس اہم اور مقبول ایپس (یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بُک، وٹس ایپ، ایکس وغیرہ) پر پابندی لگا دی۔ یکایک مے نوشوں کا نشہ ٹوٹا تو آپے سے باہر ہوگئے۔
اُنہیں انقلاب چنبیلی، یا بہارعرب، جیسا کوئی خوبصورت نام تو نہ ملا، اپنی تحریک کو جین زی، کا پُرشباب نام دیا اور حکومت پرچڑھ دوڑے۔ تنصیبات پر حملہ آور ہوئے۔ وزرا کو گھسیٹا۔ ایک کومار بھی ڈالا۔ دیکھتے دیکھتے دو درجن افراد کی جانیں گئیں۔ فوج طلب ہوئی، کرفیو لگے۔ شکستِ نشہ سے بے قابو ہوجانے والی جین زی، کا دبائو بڑھتا گیا۔ وزیراعظم کے پی شرما نے استعفیٰ دے دیا۔ فوج نے بندوبست کو سمیٹنے میں کردار ادا کیا۔ سابق چیف جسٹس سوشیلا کماری کو عبوری وزیراعظم بنا دیاگیا۔ پارلیمنٹ توڑ دی گئی ہے۔ مارچ2026ء میں نئے انتخابات ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے تینوں ممالک میں اس وقت سکُون ہے۔ سری لنکا مضبوط انتخابی اور پارلیمانی نظم کی بدولت سنبھل چکا ہے۔ نیپال اور بنگلہ دیش، نئے انتخابات کے منتظر ہیں۔ بحرہند اور خلیج بنگال کی بے چین لہروں کو قرار سا آتا جا رہا ہے۔
اسے محض اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ اپریل 2022ء میں عمران خان کے خلاف کامیاب تحریکِ عدم اعتماد اور سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے واقعات لگ بھگ ایک ساتھ رونما ہوئے۔ سو محرومی و مایوسی کے زخم خوردہ عمران کے لئے، سری لنکا کا دیوالیہ ہوکر شدید سیاسی واقتصادی بحران سے دوچار ہونا اور عوام کا سیاستدانوں پر چڑھ دوڑنا، ایک بڑا ہی دل خوش کن منظر بن گیا۔ انہیں اس سے چنبیلی کی خوشبو آنے لگی۔ اب ہدف یہ ٹھہرا کہ اگر مجھے پاکستان کو سری لنکا بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں تو اسے کسی نہ کسی طورپر دیوالیہ پن (Default) کی کھائی میں پھینکنا ہوگا۔
اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کی تجوری خالی ہوجائے اور وہ ضروری بیرونی ادائیگیاں نہ کرسکے۔ اس کے لئے دو نکاتی فارمولا وضع ہوا۔ پہلا یہ کہ آئی۔ ایم، ایف پر شدید دبائو ڈالا جائے کہ وہ پاکستان کو قرض نہ دے۔ اس مقصد کے لئے خطوط نویسی، بیرونی سرپرستوں کے ذریعے ہمہ پہلو دبائو، پاکستان کی صورت حال کے بارے میں شدید پراپگنڈے، بیان فروش ارکان پارلیمنٹ کے بیانات حتی کہ آئی۔ ایم۔ ایف ہیڈکوارٹر کے سامنے فتنہ پرور مظاہروں کے حربے استعمال کئے گئے۔ تجوری خالی کرنے کی حکمتِ عملی کا دوسرا اہم نکتہ سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کرنا تھا کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔
پاکستان کے ماتھے پر "دیوالیہ پن" کی کالک تھوپ کر اپنے ذاتی وسیاسی اہداف حاصل کرنے اور عوام کو ناقابلِ تصوّر مسائل سے دوچار کر دینے کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ ستمبر2024ء میں آئی۔ ایم۔ ایف نے پاکستان کے ساتھ سات ارب ڈالر کا تین سالہ پروگرام طے کرلیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر بڑھتی ہی چلی گئیں۔ عمران خان کا حیا باختہ سوشل میڈیا، اُن کے کسی کام نہ آیا۔ اس کے باوجود، عمران خان کے دِل میں سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش، خو ابِ خوش رنگ کی طرح مہکتے رہتے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ایک پائیدار، مستحکم اور باثمر انقلاب، سوشل میڈیا کے طفلانِ کوچہ وبازار کے بس کی بات نہیں۔ یہ عمل پِتّہ ماری، ریاضت اور وقت مانگتا ہے۔ ایک پودے کو تناور درخت بننے کے لئے برسوں درکار ہیں جبکہ ایک برقی آرا اُسے چند لمحوں میں پارہ پارہ کرسکتا ہے۔ انقلابات اور معتبر تبدیلیاں، سیاسی ہوں یا تہذیبی، ثقافتی ہوں یا نظریاتی، عُمرانی ہوں یا سماجی، فکری ہوں یا اخلاقی۔ صبرآزما تدریجی عمل کا تقاضا کرتی ہیں۔ زندگی ایک ایک سانس کے ساتھ نمُو پاتی اور پروان چڑھتی ہے۔ موت کو صرف ایک ہچکی چاہیے۔
صدیوں پرانا قولِ دانش اب ایک اصول اور کلیہ بن گیا ہے کہ "روم ایک دِن میں نہیں بنا تھا" (Rome was not built in a day)۔ فانی بدایونی نے کہا تھا
دِل کا اُجڑنا سہل سہی، بَسنا سہل نہیں ظالم
بستی بَسنا کھیل نہیں، بَستے بَستے بَستی ہے