ادب کی دنیا کے معروف شاعر، لاہور کے کالج سے وابستہ پروفیسرناصر بشیر ان سے قلبی تعلق ہے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں سوال نامہ کی وساطت سے پنشن، گریجویٹی اصلاحات جو گورنمنٹ آف پنجاب نے کی ہیں، اس کے تناظر میں انھوں نے عوام سے راہنمائی طلب کی ہے، کہ میری سروس تیس سال ہے، بشرط زندگی مزید تین سال تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد جو گریجویٹی انھیں ملے گی، وہ 35لاکھ اور پنشن 90 ہزار ماہانہ ہوگی، ان کا کہنا ہے تعلیم و تدریس میں ساری حیاتی گزارنے کے بعد یک مشت جو رقم ملنی ہے، کچھ محکمہ جات کے سربراہ ماہانہ تنخواہ کی مد میں اتنی رقم وصول کرتے ہیں، انھوں نے مشورہ مانگا ہے کہ وہ متوقع رقم سے قرض ادا کریں، پلاٹ خریدیں، مکان بنائیں، یا بچوں کی شادیاں کریں، فی الوقت وہ کرائے کے گھر کے مکین ہیں۔
سوشل میڈیا پر پوچھا جانے والا یہ سوال اپنے اندر بہت سے پہلو رکھتا ہے ایک ہی ریاست میں دو دستور کیسے ہیں؟ کسی ملازم کو تو اتنی ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے جتنی ریٹائرڈ ملازم کو پنشن وہ بھی جو ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے، قابل غورہے درجہ چہارم کے ملازم کو تو بہت ہی قلیل گریجویٹی، پنشن ملے گی ان ذمہ داریوں سے وہ کیسے نبرد آزماء ہوگا؟ جس کا پروفیسر جی نے تذکرہ کیا، یہ امتیازی سلوک کیا خلاف ضابطہ اور آئین نہیں بین الاقوامی ماہرقانون پنجاب سرکار کی راہنمائی کر سکتا ہے کہ ایک ملازم جو یکم دسمبر2024 کو ملازمت سے ریٹائرڈ ہو تو اسے تمام مالی مراعات ملیں، چوبیس گھنٹے کے بعد دوسرا سرکاری ملازم 2دسمبر2024کو ریٹائرڈ ہوتو اس کی گریجویٹی اور پنشن میں سے چالیس فیصد کٹوتی کی جائے، دنیا بھر میں قوانین بدلتے ہیں مگر پلک جھپکتے تبدیلی صرف پنجاب سرکار کا سنہری کارنامہ ہے۔
کہا جاتا ہے، روس میں سوشلزم کی فیوض و برکات سمجھانے کے لئے امریکی وفد کا دورہ کروایا گیا، تو ہوٹل میں انکی ملاقات منیجر اور کک سے کروائی، یہ جان کر امریکی وفد کو حیرانی ہوئی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس دونوں ملازمین کی مراعات یکساں ہیں، وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے حکام نے بتایا، دونوں کے خاندان کی ضروریات تو یکساں ہیں، کیا یہ سزا کک کی کم ہے کہ اسے گرمی کی حدت اور شدت کو برداشت کرتا ہے، مالی آسودگی اس حدت کو کم کرتی ہے، خلیفہ اولؓ نے اسی لئے فرمایا تھا کہ مزدرو کی اتنی اجرت مقرر کی جائے جتنی خلیفہ وقت کا وظیفہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سامراجی نظام کے تحت انسانیت کی بجائے ملازمین کے ساتھ گریڈز کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی زیر گردش ہے ایسا نظام ہمارے ہاں رائج ہے 30سال ملازمت کرنے والے قوم کے استاد کو گریجویٹی 35 لاکھ ملتی ہے جبکہ ایک ریٹائرڈ کرکٹر کو38 لاکھ ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر بھاری بھر کرپشن کا دعویٰ ایمنسٹی انٹرنیشنل کرتی ہے اس کے باوجود کسی استاد کا نام نیب کی لسٹ میں نہیں ملے گا، عمرہ اور حج کی سعادت کے علاوہ کسی استاد کانام فارن ٹریپ میں بھی نہیں ملے گا، استاد کے غیر ملکی اثاثے نہیں نکلیں گے، استاد کا گھر بحریہ ٹاؤن میں نہیں ہوگا، اس ریاست کے 90فیصد استاد یا تو کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، یا زندگی بھر کی کمائی کے بعد پانچ یا دس مرلہ کا گھر وہ بنا پائے ہیں جس میں بڑا حصہ وراثتی جائیداد کا بھی ہے۔
تمام محکمہ جات نے اپنے اپنے ملازمین کے لئے ہاوسنگ سکیم بنا ئی ہیں، بحریہ، فضائیہ، ڈی ایچ اے، پی آئی اے، کواپریٹوسوسائٹی، ایم ڈی، اے، ایل ڈی اے، ایف ڈی اے، واپڈا ٹاؤن کی رہائشی سکیمز ہیں، مگر پاکستان بھر میں ایجوکیشن فاونڈیشن کی کوئی رہائشی سکیم نہیں اسی لئے پروفیسر صاحب نے سوال اٹھایا کہ وہ ان پیسوں سے پلاٹ خرید کریں یا مکان لیں یا بچوں کی شادیاں کریں یا قرض اتاریں؟
پروفیسر صاحب کا تعلق اگر کسٹم، ایکسائز، محکمہ مال، ریونیو، پولیس، ہاوسنگ، پی آئی اے، ریلوے، محکمہ ہائی وے، محکمہ انہار، عدلیہ، افسر شاہی، دفتر خزانہ، واپڈا سے ہوتا تو ان کا بڑے شہر میں کم از کم ایک گھر ضرور ہوتا، گریجویٹی اور پنشن کی کٹوتی کی بھی کوئی فکر نہ ہوتی۔
پرویزالہی کے دور میں پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاوسنگ فاونڈیشن ملازمین کے لئے رہائشی سکیم متعارف کروائی گئی، اس کو بھی سیاست کی نذر کردیا گیا، تنخواہوں سے رقم کی کٹوتی کے باوجود2012 سے ملازمین کو گھر یا پلاٹ کی الاٹمنٹ کا سلسلہ تعطل کا شکار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب سماج میں اخلاقی اقدار عروج پر تھی تب افسرگورنمنٹ کالج لاہورکے پرنسپل اور اپنے استادکی سائیکل کے پیچھے اپنی گاڑی آہستہ چلاتے تھے جب ان سے سامنا ہوتا یہ افسر شاہی ارباب اختیار کے غیر قانونی کاموں میں رکاوٹ بن جاتی، یہ وہ وقت تھا افسر شاہی کو بیرون ملک جائدادیں بنانے کا خیال نہ تھا نہ ہی کسی افسر نے 24 کروڑ روپیہ اپنی بیٹی کی شادی پر لگایا، اس وقت کی افسر شاہی اپنے ساتھ دیگر ملازمین کی مراعات بھی خیال رکھتی۔
پروفیسر ناصر بشیر جس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اس نے تاجروں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں، دوکانداروں، اراکین پارلیمنٹ میں سے سب سے زیادہ ٹیکس دیا اس کا صلہ انھیں پنشن اور گریجوٹی کی کٹوتی کی شکل میں ملا ہے، صوبائی اسمبلی پنجاب کے جہانیاں سے ممبر خالد جاویدنے ملازمین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اسمبلی کے فلور پر ایک سوال نامہ2 دسمبر 2024 کے نوٹیفکیشن اور مراعات کی کٹوتی کے حوالہ سے جمع کروایا ہے، اپنی مراعات میں از خود اضافہ کرنے والے اراکین اسمبلی کے دل پر سوالنامہ ایک بوجھ ہے، جس کا جواب سرکار پر فرض ہی نہیں قرض بھی ہے۔
المیہ ہے کہ یہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات کو تجارت کے ترازو میں تول کر اداروں کو آوٹ سورس کیا جارہا ہے، تعلیم، صحت دو بنیادی حقوق کی فراہمی آئینی طور پر سرکار کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے، ظالمانہ پالیسیوں کے باعث پروفیسر صاحب نے بقیہ تین سال کو ملازمت کی بجائے اپنے سوالنامہ میں"ملامت سے تعبیر کیا ہے۔
حد تو یہ کہ نیم خواندہ تارکین وطن کو انکی خدمات کے عوض بیرون ملک بمعہ فیملی پنشن ملتی ہے بڑھاپے میں وہ اپنے وطن میں اسے انجوائے کرتے ہیں، ایک تعلیم یافتہ پروفیسرکو جس نے اپنا شباب ریاست کے حوالہ کیا، قلیل پنشن، گریجویٹی میں بنیادی ضروریات کے لئے پبلک سے مشورہ مانگ رہا ہے، عدلیہ میں جسٹس کارنیلس، بھگوان داس جیسے غیر مسلم جج بھی نہیں، جن سے ملازمین کو انصاف مل سکے۔ ورنہ دیگر کی طرح اساتذہ کرام کوازخود اپنی مراعات بھڑھانے کا اختیار ہی دے دو۔