ملین ڈالر کا سوال ہے کہ آخر وہ کونسی خدمات اور خصوصیات تھیں کہ چھ پاکستانی جرنیلوں نے ایک معزز شخصیت کو شاہی قبرستان میں 19 توپوں کی سلامی کی گونج میں لحد میں اتارا، انکا جسد خاکی ٹرین سے ڈیرہ نواب صاحب لایا گیا، انھوں نے لندن میں وفات پائی تھی، قیام پاکستان سے پہلے انھوں نے علامہ اقبال کی دعوت پر انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں شرکت کی، علی گڑھ یونیورسٹی، انجمن حمایت اسلام کے لئے مستقل بنیادوں پر چندہ جاری رکھا۔
قیام پاکستان کے وقت ہندوستانی قیادت نے انھیں نہری پانی، چینی، کپڑا فراہم کرنے کا لالچ دیا اور ایک ارب روپے کیش دینے کی پیش کش بھارت سے الحاق کے لئے کی تھی، ریاستی نواب نے نہ صرف صاف انکارکیابلکہ نوزائیدہ مملکت پاکستان کی مالی آسودگی کے لئے 20 من سونا اس کے خزانہ میں رکھوایا، اسکی کرنسی پر اپنی مہر ثبت کی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے 9کروڑ دیئے، مہاجرین کے لئے گندم دی، پی اے ایف کے طیاروں کی خریداری کے لئے بلینک چیک دیا۔ مہنگی ترین اپنی گاڑی رولز رائس بانی پاکستان کو دی انکی ہمشیرہ اور ان کے لئے کراچی میں اپنے دو محل الشمس اور القمر تحفے میں دیئے۔ بہاول پور وہ پہلی شاہی ریاست تھی جس کے نواب نے بخوشی پاکستان کے ساتھ الحاق کیا، اتنی خدمات کے بعد گارڈ آف آنرزکا مستحق ٹھہرنا تو لازم تھا، اس ہستی کا نام نواب الحاج محمد خان عباسی تھا، محسن پاکستان بھی کہلائے۔
دوسری شاہی ریاست قلات تھی پاکستان کے ساتھ الحاق سے قبل خاران، لسبیلہ، مکران کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی، انکا الحاق قبول کرلیا اور پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس بابت لندن ٹیلی گرام روانہ کیا، اس کے بعد خان آف قلات کے پاس پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، مذکورہ ریاستو ں کے الحاق سے قلات ریاست کا حجم بہت کم ہوگیا یہ ساحلِ سمندر سے بھی کٹ گئی تھی۔ اس لئے خان آف قلات نے 27مارچ 1948 کو دستاویز پر دستخط ثبت کئے تھے۔
سکندر مرزا کے زمانے میں خان آف قلات پر بغاوت کا الزام لگا، وجہ یہ بتائی کہ انھوں نے اپنے قلعہ اور جامع مسجد پر اپنی ریاست کا پرانا پرچم لہرایا تھا، برطانوی میڈیا کے مطابق وہ مسجد پر پرچم لہرانے کا جواب نہ دے سکے، اکبر بگٹی کی وفات کے بعد سلمان دائود نے، سندھ، بلوچستان، پنجاب سے سرداروں، قبائلی عمائدین کا گرینڈ جرگہ بلاکر منصوبہ بنایا کہ قلات کی بحالی کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے جایا جائے، انڈیا کے حکمرانوں سے پاکستان کے خلاف کھل کر اس نے مدد مانگی تھی۔ یہ قلات کے35ویں خان ہونے کے دعوی دار تھے۔
8مارچ 1924 کو گورنر جنرل اور وائسرے نے تمام اختیارات کی ذمہ داری نواب آف بہاولپور کے سپرد کی، انھوں نے ریاستی عوام کے لئے تمام شعبہ جات میں ترقی کا طویل المیعاد منصوبہ بنایا، دریائے ستلج پر ہیڈ ورکس بنا کر نہریں نکالی، بہاولپور میں یونیورسٹی اور بہت سے تعلیمی ادارے قائم کئے، نواب صادق علم دوست تھے، ملکہ وکٹوریہ کے نام سے1906میں علاقہ میں پہلا بہاول وکٹوریہ ہسپتال بنا، قیام پاکستان کے بعد ریاستی فوج کی فرسٹ انفنٹری نے قائد اعظم کو سلامی دی اور گارڈ آف آنر پیش کیا۔ دونوں ریاستوں کے شاہی حکمرانوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے توکہا جا سکتا ہے کہ حب الوطنی میں نواب آف بہاولپور کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
بہاولپور کے نوابوں کا امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ عام شہری انتخابی عمل میں ان کے مد مقابل آسکتا ہے جبکہ بلوچستان میں عام شہری سرداروں کے مقابلہ میں انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا، بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری اللہ کے بعد سردار" لا شریک" ہوتا ہے۔ سرداری نظام کی بنیاد 1876میں رابرٹ سنڈیمن نے رکھی، اپنے مفاد کے لئے سرداروں اور انکی اولادوں کو بے پناہ مراعات دیں، عمومی رائے ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کی بڑی وجہ سرداری نظام ہے تعلیمی نظام کی تباہی، سرکاری عمارتوں پر قبضہ اور سمگلنگ کے پیچھے ایلیٹ طبقہ کارفرما ہے سرداروں کی اپنی نجی جیلیں ہیں، غیر ملکی صحافی نے سردار سے پوچھا کہ اس نے پہلا قتل کب کیا اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جب وہ چودہ سال کا تھا۔
ذوالفقار بھٹو مرحوم نے سرداری نظام کو تین وجوہات پر ختم کرنے کی سعی کی، ایک ششک، کسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی فصل کا چھٹاحصہ سردار کو پیش کرے، دوسرا وہ زرعی اصلاحات کرنے کے خواہاں جبکہ، سردار اس کے مخالف تھے، تیسرا پٹ فیڈر لینڈ پر سرداروں کا قبضہ روکنا چاہتے تھے، بھٹو کی ناکامی کی ایک وجہ یہ تھی کہ صوبے کے بڑے نواب اور سردار پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے۔
بہاول پور کا باسی اپنے مستقبل کے لئے صوبہ پنجاب کے دیگر نوجوانان کی طرح کوشش کرتا ہے، بلوچستان کے نوجوان کی طرح مقابلہ کے امتحان، جامعات میں داخلہ کے لئے کوئی امتیازی رعایت اسے حاصل نہیں، تمام تر تعلیمی اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے، بلوچستان کے طلباء کا خرچ تو سرکار اٹھاتی ہے، پنجاب کے عوام کو تو بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں، بلوچستان کے سردار اور عوام اس سے مستثنیٰ ہیں، بلوچستان کی اسمبلی کے ہر ممبرکو بھاری فنڈز کی ادائیگی کے باوجود اگر بلوچ نوجوان کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوتی تو کون قصور وار ہے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ہرInsurgencyکا منبع بدعنوانی اور بد انتظامی ہے، نجانے سردار یہ بات ان نوجوانان کو سمجھانے میں کیوں ناکام رہے ہیں جو انکی معیت میں پہاڑوں پر براجمان ہیں؟ بہاولپور کے نوابوں اور بلوچستان کے سرداروں کے اوصاف حمیدہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ون یونٹ سے قبل 1952 تا 1955 تک بہاولپور کی حیثیت صوبہ کی رہی، ون یونٹ کے خاتمہ کے بعد اس کی سابقہ پوزیشن کو بحال نہ کیا گیا مگر نوابوں نے نسل نو کو نہ تو گمراہ کیا نہ ہی انھیں بغاوت پر اکسایا، عوامی نمائندگان نے صوبہ کی اسمبلی میں قرار داد جمع کروا کر آئینی طریقہ استعمال کیا۔
بلوچستان میں قیام امن عام شہری کے مسائل کے حل سے عبارت ہے، تاکہ وہ سرداروں کے خوف اور ڈر سے بھی آزاد ہو سکے اورشرپسند افراد اور تنظیموں کو بھی پروپیگنڈہ کا موقع نہ ملے، قدرتی معدنی وسائل پر اہل بلوچستان ہی کا نہیں پورے ملک کے عوام کا حق ہے کیونکہ بہاول پور کی طرح اس کی شاہی ریاستیں بھی اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئیں، گوادر کی خرید میں پوری قوم کا سرمایہ لگا ہے، تاہم تاریخ کا سبق یہی ہے کہ گارڈ آف آنرز ان کا مقدر ہوتا ہے جو اپنے مفادات اور جان ریاست پر نچھاورکرتے اور کسی شر پسندی میں شریک نہیں ہوتے۔