Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Hafta e Rafta Ke Dil Kharash Waqiat

Hafta e Rafta Ke Dil Kharash Waqiat

ہفتہ رفتہ میں بڑے دل خراش واقعات پیش آئے، انسانوں، گاڑیوں، جانوروں کو سیلاب کے پانی میں بے بسی سے بہتا دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا، یہ پہلا سیلاب نہیں تھا، نہ ہی ماحولیات کی تبدیلی اچانک آئی تھی، کچے گروندوں کے مکین اپنی چھت کو پانی میں جاتا دیکھ کر خون کے آنسو پی رہے تھے۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں، ایک طرف سیاحوں کو حرف تنقید بنایا گیا، کہ انھوں نے اداروں کی ہدایات کو نظر انداز کیا، سیر و تفریح کے شوق میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیا، سوات میں ناروال اور بابو سر ٹاپ پر لودھراں کی فیملی کا لہروں کی نذر ہو جانا انتہائی سنگین سانحہ ہے، خیبر پختون خواہ کی انتظامیہ کا سوات واقعہ کے بعدحرکت میں آنا، سانپ کی لکیر پیٹنے کے مترادف تھا، اسکی رپورٹ میں متعلقہ اداروں کو ہی قصور وار ٹھہرایا گیا، ایسی رپورٹیں ہمیشہ داخل دفتر ہو جاتی ہیں اگر کسی کو قرار واقعی سزا ملتی تو شائد ایسا واقعہ پیش ہی نہ آتا۔

شہر اقتدار اور راولپنڈی میں بارشوں کی غیر معمولی آمد سے انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، حسب روایت نالہ لئی کی طغیانی نے قریبی آبادیوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا، بارش اور سیلاب کی بدولت نقصانات پر ماہرین کا جو رد عمل آیا ہے، بد انتظامی اور غفلت اس کا بڑا سبب ہیں، پانی کی گزر گاہوں کو قبل از وقت صاف نہ کرنا اور اس میں ناجائز تجاوات کے قیام پر آنکھیں بند کئے رکھنا قابل ذکر ہے۔ صرف صوبہ پنجاب میں سینکڑوں افراد کا سیلاب میں لقمہ اجل بن جانا اور زخمی ہونا، اچھی گورننس کے دعووں پر بڑا سوال بھی ہے۔

شمالی علاقہ جات میں پہاڑی تودوں کا گرنا، سیلاب میں انسانوں اور ان کے مال و متاع کا بہہ جانا محض اتفاق نہیں بلکہ مکافات اور پہاڑوں کا شدید رد عمل ہے، معمولی منافع اور فائدہ حاصل کرنے کے لئے ٹمبر مافیاز نے درختوں کی بے دریغ کٹائی کی ہے، پہاڑوں کی طاقت کم ہونے کی وجہ سے مٹی اور برفانی تودے انسانوں پر گر پڑے ہیں، فطرت نے ایسا انتقام لینا شروع کیا کہ خدا کی پناہ، ان علاقہ جات کے روزگار کا بڑا انحصار سیاحت پرہے، اس کے باسی اب خوف زدہ ہیں، ایسی صورت حال میں میدانی علاقہ جات سے کوئی سیاہ بھی سیروتفریح کا رسک نہیں لے گا، درختوں کی مجرمانہ کٹائی کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ گرمی کی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے گلیشیر پگھل رہے ہیں، جن کا کنٹرول کسی کے بس میں نہیں ہے، موسم کی یہ تبدیلی اگرچہ عالمی سطح پر ہے، مگر اس ناگہانی صورت حال نمٹنے کا کوئی موثر اہتمام ہمارے ہاں نہیں ہے۔

بلوچستان میں پنجابی بھائیوں کی شناخت کے بعد قتل و غارت جیسی کھلی دہشت گردی نے امن و امان کے تمام دعوں کی قلعی کھول دی، اس کے پیچھے کس ملک کا ہاتھ ہے یہ اب راز نہیں ہے مگر اس کے نیٹ ورک کی موجودگی پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ارباب اختیار اس ماں کے دکھ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے دو جواں بیٹے اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لئے آرہے تھے کہ گولیوں سے اس لئے چھلنی کر دئے کہ ان کا تعلق پنجاب سے تھا، اس کو بربریت کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے بڑی شکست اور کیا ہوگی کہ ملک کے شہری اپنے ہی ریاست میں اجنبی بن جائیں یہ گھناونا کھیل عرصہ سے جاری ہے، مذمتی بیانات سے بات آگے نہیں بڑھ سکی ہے، پیپلز پارٹی کے ذمہ دار کا کہنا ہے افسوس ہے کہ بلوچستان میں پنجاب کے لوگوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے، یہاں نہ کوئی ڈاکٹر محفوظ ہے نہ ہی استاد، کاروباری طبقہ بھی خوف زدہ ہے۔

اس قدر تنگ نظری کی توقع بلوچ برادری سے نہیں تھی، انکی آڑ میں اگر کوئی اپنے ہم وطن بھائیوں پر گولیاں برسا رہا ہے تو کم از کم سول سو سائٹی اور سیاسی قیادت، بلوچ راہنماؤں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آناچایئے تھا، صوبہ پنجاب کے باسیوں کا دل صوبہ کی طرح بہت بڑا ہے، انھوں نے ہر قومیت کے لوگوں کو نہ صرف سر آنکھوں پر بٹھایا بلکہ کاروبار میں سہولیات فراہم کی ہیں، ایسے سانحات میں سرکار بری الذمہ نہیں ہوسکتی، جس کے فرائض منصبی میں اتحاد اور یگانگت کو فروغ دینا مگر وہ ناکام رہی، خواہ اس کا تعلق اسکی پالیسیوں سے ہو یا بیرون مداخلت، تاہم سرکار اہل پنجاب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا انتظار نہ کرے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں نشان عبرت بنائے۔

عالمی ادارہ جات کے عدادو شمار کیمطابق اس وقت 44 فیصد سے زائدآبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جو اس وقت 22 فیصد ہے، جس میں زیادہ شیئر آبادی کے اعتبار سے تو پنجاب ہی کا ہے، ان حالات میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے وزیر اعلی پنجاب نے چھوٹے بڑے قریباً 189 شہروں کی تزئین و آسائیش کرکے لاہور کی طرز پر انھیں خوبصورت بنانے کا اظہار کیا ہے، ان کے اس جذبہ کے پیچھے شاہی نظام کی بو آتی ہے، مہنگی ترین بجلی سے غریب عوام کو خود کشیاں کرنے پر مجبورہے مگر ارباب اختیار اپنی روش کو تبدیل کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔

اطلاعات کے مطابق سرکاری غیر سرکاری جامعات میں سال نو کے داخلہ جات کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے، میرٹ کی چار چار لسٹیں لگنے کے باوجود امیدوار بھاری بھر فیسوں کی بدولت اور بے روزگاری کے سمندر میں اترنے سے خوف سے داخلہ لینے سے گریزاں ہیں کیونکہ آئینی ذمہ داری کی ادائیگی کے خلاف تعلیم اور صحت کے اداروں کو ٹھیکہ داروں کے حوالہ کرنے کے بعد روزگار کے مواقع پنجاب میں محدود ہو جائیں گے۔

تاحال ایسا کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں لگایا جارہا کہ نئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی کچھ امید ہو، نامساعد حالات نے نسل نو کواپنی دھرتی چھوڑنے پر مجبور کیا ہے، سرکاری ملازمین، تاجر، کسان، ڈاکٹرز، اساتذہ، مزدورسبھی اپنے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا رونا رو رہے اور سراپا احتجاج ہیں، معیشت بہتری کے دعوی پر سرکار کا چین ہی چین لکھنا حقائق کے بالکل برعکس ہے۔

سیلاب میں بہتے انسان، گولیوں سے چھلنی مسافر، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے شہری اور ملک چھوڑتے نوجوان اس بات کی شہادت ہے کہ سب اچھا نہیں ہے، ہفتہ رفتہ کے دلخراش واقعات ارباب اختیار کو غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں، نجانے انھوں نے یہ کیوں اخذ کر لیا ہے عوام کو جواب دہ ہونے کی بجائے آئی ایم ایف کی شرائط ہی سامنے سرنگوں ہونے ہی میں انکی نجات ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran