Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Husool e Ilm Ki Ayyashi

Husool e Ilm Ki Ayyashi

وفاق کے زیر اہتمام جنوبی پنجاب کی جامعہ کے ایڈمیشن دفتر میں ایک سادہ لوح طالب علم اپنے والد کے ساتھ داخل ہوا، دونوں نے واجبی سا لباس پہن رکھا تھا جو انکی مالی حیثیت کو عیاں کر رہا تھا، ایڈمیشن آفیسر سے اجازت لے کرکرسی پر براجمان ہوئے، باپ نے گھبراتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا گریجویٹ پروگرام میں داخلہ لینے کا خواہاں ہے، بیٹے کو کہا کہ وہ اپنے کاغذات دکھائے، ایڈمیشن آفیسر نے ان پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے کہا کہ داخلہ لینے سے قبل آپ کو اس کی فیس بتا دیتا ہوں، اگر آپ افورڈ کر سکے تو آپ کا فارم قبول کیا جائے گا، بصورت دیگر آپ کو کسی دوسرے ادارہ کا رخ کرنا پڑے گا۔

طالب علم کے سامنے سال بھر فیس کا شیڈول رکھا گیا، یہ فیس لاکھوں روپئے میں تھی، نیم تعلیم یافتہ والد نے ہمت کرکے پوچھا کہ سرکاری ادارہ میں اتنی زیادہ فیس وصول کیوں کی جاتی ہے، متعلقہ فرد نے کہا کہ جامعات کے اخراجات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بمشکل ہی پورے ہوتے ہیں، یوٹیلٹی بلز، ملازمین کی تنخواہیں، طلباء و طالبات کے تعلیمی اخراجات اس کے علاوہ ہیں، طنزاً کہایہ پیسہ کسی عیاشی کے لئے نہیں لیا جاتا، آپ بچے کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو اسے کوئی سکل سکھا دیں۔

والد نے آہ بھرتے ہوئے کہا کہ میری بھی خواہش ہے کہ میرا بچہ یہاں پڑھے، میرا سہارا بنے، یہ سن کر ایڈمیشن آفیسر نے کہا پھر آپ کو تمام واجبات ادا کرنا ہوں گے، آپ کا شوق پورا ہوجائے، میرے تو اتنے وسائل نہیں ہیں کہ میں ساری رقم یکمشت ادا کر سکوں، ایڈمیشن آفیسر نے کہا کہ آپ کی سہولت کے لئے ہم یہ کر سکتے ہیں کہ آپ کا بیٹا دو اقساط میں سمسٹر فیس ادا کر دے، بڑے انہماک سے ہم انکی گفتگو سن رہے تھے، داخلہ کے سلسلہ میں دفتر میں ہم موجود تھے، یہ سنتے ہی والد کے چہرے پر رونق آگئی، اس نے فوراً کہا اس کا حساب کتاب بنا کر دیں، جب وہ سامنے آیا تو والد نے کہا کہ اس میں رہائش اور کھانا بھی شامل ہوگا، متعلقہ آفیسر نے کہا کہ صرف داخلہ، رجسٹریشن اور سمسٹر کی آدھی فیس ہے، اگر طالب علم ہاسٹل رہے گا تو اس کے لئے الگ سے ادائیگی کرنا ہوگی، یہ رقم بھی سالانہ کی بنیاد پر ہوگی، کھانے کی رقم کا انحصار طالب علم کی حاضری پرہے۔

ناشتہ کی سہولت میس میں میسر نہیں ہوتی طلبا خود اہتمام کرتے ہیں، اس ادارہ میں ہفتہ میں تین چھٹیاں ہوتی ہیں، طالب علم گھر جا سکتا ہے، کھانے کا بل کم آئے گا، والد نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا کہ ہم جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقہ سے آئے ہیں، اس کو کھانے سے زیادہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا، جیسے جیسے ایڈمیشن آفیسر معلومات دے رہا تھا، بچے اور والد کی مایوسی میں اضافہ ہورہا تھا، اس بحث یہ نتیجہ نکلا کہ طالب علم کے نمبر تو اچھے تھے مگر مالی وسائل اس کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، سوچ و بچار کے بعد بچے کے والد نے کہا اٹھو ہم اتنے پیسے ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، داخلہ کے خواہاں طالب علم نے اپنی اسناد کو لفافہ میں ڈالا اور بوجھل قدموں کے ساتھ باہر آگیا، جامعہ میں اگر دیگر طلبہ و طالبات کا لحاظ نہ ہوتا تووہ اس بے بسی اور غربت پر جی بھر کر روتے۔

ہم نے فراغت پاکر گھر کی راہ لی، جونہی سڑک پر پہنچے تو عجب منظر ہمارا منتظر تھا، ہٹو بچو کی صدائیں آرہی تھیں، ہر طرح کی ٹریفک کو روک دیا گیا تھا، برلب سڑک یہ نظارہ ہم کرنے لگے، کم وبیش تیس سے زائد سرکاری گاڑیوں پر مشتمل قافلہ کسی وی وی آئی پی کی آمد کا پتہ دے رہا تھا۔

قریباً آدھا گھنٹہ کے بعد رعایا کو جانے کی اجازت ملی، تو ٹریفک انسپکٹر کی سانس بحال ہوئی۔

پروٹوکول کی گرد بیٹھنے کے بعد ہم نے ٹریفک کی روانی کا جائزہ لیا اب تلک سینکڑوں گاڑیاں راستہ تلاش کر رہی تھیں، اسی شور و غوغہ میں ہم نے بھی راستہ نکا ل لیا اور اس سوچ میں گم ہو گئے کہ کیسا ہے ہمارا سماج محض چند افراد کے تحفظ کے لئے روزانہ ہزاروں روپئے خرچ کرتا ہے، جبکہ ایک مستحق طالب علم اس لئے تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ تعلیمی اخراجات پورے کر سکے، پروٹوکول کے جس عذاب سے عوام گزرتی ہے، انتظار کی اذیت کے ساتھ بھاری بھر پٹرول خرچ ہوتاہے، یہ بھی ایک قسم کا قومی نقصان ہی ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس خطہ میں سب سے کم شرح خواندگی ہمارا مقدر ٹھہری ہے، اس کے باوجود تعلیمی بجٹ بھی کم ہی مختص کیا جاتا ہے، بدقسمتی یہ بھی کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں تعداد کم ہونے کے باوجود انھیں سرکاری سطح پر جو وظائف میسر ہیں، انکی تعداد بھی ناکافی ہے، بعض شرائط بھی اس کے حصول میں رکاوٹ ہیں، کسی بھی ملک ترقی کے لئے لازم ہے کہ قومی وسائل اسکی افرادی قوت پر خرچ کئے جائیں انکی صلاحیتوں کو دوآتشہ کیا جائے، دنیا بھر کی جامعات تیسری ممالک کے طلباء و طالبات کو وظائف دے کر اپنے ہاں پڑھنے کی ترغیب اس لئے دیتے ہیں تاکہ حصول علم کے بعد یہ "ہیومین ریسوریس" ان کی ریاست کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرے، یورپی، عرب ممالک کی ترقی میں اہم کردار تیسری دنیا کی تعلیم یافتہ کلاس کا ہے۔

قومی وسائل کا بڑا حصہ غیر ترقیاتی کاموں، پروٹول، سیکورٹی کی نذر ہوجاتا ہے، جس ملک میں کڑوروں بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہوں ارباب اختیار فکر مند بھی نہ ہوں تو انکی ترجیحات ان کے ایجنڈا کا پتہ دیتی ہیں، اشرافیہ اس والد کا دکھ کیسے سمجھ سکتی ہے جو غربت کی بدولت اپنے بچے کو تعلیم دلوانے سے قاصر رہا، جنکے بچے سرکاری اخراجات پر بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

ایک طالب علم کی کہانی نہیں ہے، جس کے خواب غربت نے چکنا چور کئے، تعلیمی وظائف کو چند اور سرکاری جامعات تک محدود رکھنا قرین انصاف نہیں، بیرون ملک زیر تعلیم ایشیائی طلباء و طالبات کو گھنٹہ کے حساب سے کام کرنے کے مواقع تو میسر ہیں، مہنگی تعلیم کے ساتھ بیروزگاروں کی فوج ظفر موج نکال کر ہم نسل نو کے خوابوں اور مستقبل کا قتل کررہے ہیں، صنعت کی بندش، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی ادارو ں کو آوٹ سورس کرنے کے بعد کیا ریاست روزگار فراہم کر سکے گی؟ سیکورٹی، پروٹوکول، غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کی طاقت کسی سرکار میں نہیں تو کم از کم تعلیم ہی کو سستا کر دے تاکہ ہر امیر اور غریب کے بچے کو حصول علم کی "عیاشی" میسر آسکے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran