نہیں معلوم ہمارے پردھان منتری اور وزیر خزانہ نے میڈیا کی آنکھ سے نیپالی ہم منصبوں کی بے بسی کا منظر دیکھا بھی ہے یا نہیں جب وہ بلوائیوں سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہے اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے، نیپالی وزراء کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا، کہ انھیں بے آبرو کرکے کوچہ سیاست سے بے دردی سے اس طرح نکالا جائے گا اور عوام کا ہاتھ ان کے گریبان تک آ جائے گا، اپنے طرز حکمرانی سے وہ تو مطمئن تھے کہ نہ صرف ان کا اپنابلکہ انکی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں اس لئے ہے کہ وہ ریاستی امور چلانے اور قومی وسائل پر ملکہ رکھتے ہیں، کسی کی کیا جرات انکی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔
اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ تمام سیاسی جماعتیں انکے ہاتھ میں تھیں، اپوزیشن سے انھیں کوئی خطرہ نہ تھا، لیکن چشم زدن میں وہ اقتدار سے نہ صرف محروم کر دئیے گئے بلکہ ان پر لزامات کی بوچھاڑ کردی گئی کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں، انکی اولادیں جو عیش پرست زندگی سے لطف انداوز ہورہی تھیں، انکی حالت زار دیکھ کر شرمندگی محسوس کرنے لگیں جبکہ عوام اور نوجوانان قوم نے بغاوت کی اس "ایپی سوڈ"میں بڑی دلچسپی لی، ا س سے قبل بھی نیپال بھی ایسی انقلابی تحریکیں جنم لیتی رہی ہیں، قومی وسائل لوٹنے والوں کے عبرت ناک انجام سے تاریخ بھری پڑی ہے، مگر کم ہی ہیں جو اس سے نصیحت پکڑتے ہیں۔
سال رواں میں جنوبی ایشیاء کے دو ممالک میں نوجوانان نے بغیر کسی سیاسی حمایت کے حکومتوں کے تخت الٹادیئے، نیپال اور بنگلہ دیش میں خود سر اور بدعنوان ارباب اختیار سے نجات نسل نو کی کاوش سے ہوئی، تاہم روس اور فرانس جیسے انقلاب کی اس میں شدت نہیں تھی کہ اس بغاوت میں مرنے والوں کی تعداد کم تھی، اس کو ایک طرح کا "سوفٹ انقلاب" بھی کہا جا سکتا ہے، ہرچند مرنے والوں نے اپنی زندگی کا کفارہ ان لوگوں کے لئے ادا کیا ہے جو ظلم توسہہ رہے تھے مگر بغاوت پر آمادہ نہیں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ نیپال کے نوجوانان نے ارباب اختیار کی ناقص پالیسیوں، بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال، دولت کے ارتکاز کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا، یہ نوعمر غیر سیاسی طبقہ تھا، جب یہ وہاں پہنچا تو طاقت کے نشہ میں مخمورحکمرانوں نے سامراجی طریقہ اختیار کرتے ہوئے ان پر سیدھی گولی چلا دی، یہ خبر نیپال میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، بعد ازاں عوام نے بلا امتیاز دیوانہ وار پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا اس کا خاتمہ نگران حکومت کے انعقاد پر ہوا۔ اس موومنٹ کو" جنریشن زی"کا نام دیا گیا۔
نیپال کے شاہی نظام کو ختم کرکے 2008 میں جمہوریت نافذ کی گئی، تیسری دنیا کا المیہ یہی ہے کہ انھیں جمہوریت راس آتی ہے نہ ہی سامراجی نظام، جمہوری عہد میں بھی عوام کے ساتھ سامراجی رویہ ہی رکھا جاتا ہے، قومی وسائل کو امانت سمجھنے کی بجائے ذاتی مال سمجھ لیا جاتا ہے، اپنی اور اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی فکر اُمور ریاست پر غالب آتی ہے، پھر نت نئے مالیاتی سیکنڈل منظر عام پر آتے ہیں، اس نوع کے حکمرانوں کے پاس برا وقت آنے پر سوائے راہ فرار کے کوئی راستہ نہیں بچتا، اقتدار سے باعزت رخصتی نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔
نیپال کی معیشت کا انحصار سیاحت اور ترسیل زر پر ہے جو بیرون ملک سے بھیجے جاتے ہیں، جنریشن زی کو بڑادکھ یہی ہے کہ ارباب اختیار کی اولادیں قومی دولت سے اپنی زندگی کو خوب انجوائے کر رہی ہیں جب کہ عام نوجوان کو روزگار کے لئے بیرون ملک جانے کی اذیت اٹھانا پڑتی ہے، دوسرا ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس قدر کرپشن ہے کہ سماج میں نو دولتیا طبقہ پروان چڑھ رہا ہے، سب سے بڑھ کر اشرافیہ کا سرے سے کوئی احتساب نہیں ہورہا ہے جس سے سماج میں بے چینی پھیل رہی تھی۔
نیپال میں جواں موت کی وہ داستانیں بھی ہیں جنہوں نے بے روزگاری سے تنگ آکر ایجنٹ کی وساطت سے روس کی فوج میں بھرتی ہونے کا رسک لیا، ان میں سے بعض یوکرین کی جنگ کا ایندھن بن گئے اور محاذ پر مارے گئے ہیں، عالمی میڈیا کے مطابق ان کے ورثاء انکی ڈیڈ باڈیز کو نیپال لانے کا مطالبہ کررہے ہیں، اس بغاوت کے پیچھے مرحومین کے والدین کا غم وغصہ بھی تھا، جن کے بچوں کی جانیں گئیں، مرنے والے انھیں ایجنٹوں کا مقروض چھوڑ گئے۔
اس انقلاب کی شروعات ان وڈیوز سے ہوئی، جن میں ارباب اختیار کے بچوں کو دولت کے بل بوتے پر اپنی من پسند زندگی گزارتے دیکھا گیا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر طاقتور طبقات نے ان سائٹ کو بند کردیا جن پر یہ دکھائی جارہی تھی، ارباب اختیار کے اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، نسل نو کے ساتھ عوام نے پارلیمنٹ پر ہلہ بول دیا۔
نیپال میں سابق چیف جسٹس نے عبوری وزیر اعظم کے طور پر اقتدار سنبھال کر سیاسی ایجنڈا دیا ہے کہ وہ ہرسطح کی کرپشن کا خاتمہ کریں گی نیز روزگار کی فراہمی کو بھی یقینی بنائیں گیں، نیپالی نوجوانان نے پرانی سیاسی قیادت اور عمر رسیدہ لیڈروں سے جان چھڑانے کا بھی عندیہ دیا ہے، کھٹمنڈو کے مئیر ان کے پسندیدہ اس لئے ہیں کہ وہ جوان مگر کرپٹ نہیں ہیں۔
سیاسی جماعتیں، اشرافیہ، کارپوریٹ گھرانے، سرکار کا حامی میڈیا اس بغاوت کی زد میں آئے ہیں، نیپال ہماری طرح آئی ایم ایف کا مقروض ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ اسکی داخلی اور خارجی پالیسیاں کافی حدتک آزاد ہیں 85فیصد سے زائد ہندو آبادی ہے مگر پاکستان کو اپنا دوست سمجھتی ہے۔
جنوبی ایشیاء کے ممالک میں انقلاب کے لئے جن پیرا میڑز کا ہونا لازم ہے قریباًوہ ہر ریاست میں پائے ہی جاتے ہیں، ارباب اختیار کی اولادوں کا غیرمعمولی طرز زندگی، جاگیر داروں، گدی نشینوں، سرداروں، اشرافیہ کا ملکی سیاست اور سماج پر غلبہ، دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، ہر شعبہ ہائے زندگی میں بدعنوانی کا دور دورہ، ناقص طرز حکمرانی، سماجی، معاشی ناانصافی، بنیادی حقوق کی فراہمی سے انحراف، احتساب سے عاری نظام معیشت اور حکومت، صوابدیدی اختیارات کا ناجائز استعمال، مراعات یافتہ افسر شاہی، موروثی طرز سیاست، اورعمر رسیدہ سیاست دان، ہمارے سماج کی وہ بدصورتیاں ہیں جنکی اصلاح وقت کی ضرورت ہے، اپوزیشن کو ہاتھ میں کر حکومت کرنے جیسے نظریہ ضرورت کوبھی نیپالی بغاوت نے مات دی۔ انقلاب کیوں آتے ہیں، اس کوتین حرفوں میں یوں کہا جائے ایکطرف عام شہری کا بنیادی حقوق سے ہمیشہ محروم رہنا، دوسرا اشرافیہ اوران کی اولادوں کا غیر معمولی شاہانہ طر ز زندگی اپناناہے۔