Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Jamaat e Islami Ka Ijtima e Aam, Badal Do Nizam

Jamaat e Islami Ka Ijtima e Aam, Badal Do Nizam

جماعت اسلامی کا قیام لاہور میں 26 اگست 1941میں عمل میں لایا گیا، اس کے بانی سید ابواعلیٰ مودودی نے بنیادی رکھی 75 افراد تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے، بمشکل 74روپے سے بیت المال قائم ہوا، بانی جماعت نے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے اقامت دین کا قیام، ریاست میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ پرامن جدوجہد ہے اس کے منشور کی بنیاد سورہ بقرہ کی آیت ادخلو فی السلم کافة "اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ" ہے کیونکہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے، جماعت اسکی وکالت کرتی ہے، کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست، ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معالات میں اطلاق ہونا چاہئے۔

جماعت کے ذمہ داران کی طرف سے ریاست کے ہر شہری کو بلا امتیاز رنگ، نسل، مسلک، علاقہ، قبیلہ، زبان اس جماعت میں شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے، پھر انکی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے، انھیں مطالعہ کی جانب راغب کیا جاتا ہے، لٹریچر پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے، دیگر کتب کے مطالعہ کا رحجان پیدا کیا جاتا ہے، تحریر اور تقریر کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے منظم طریقہ کار اپنایا جاتا ہے، انسانی خدمت کا کام ہمہ وقت ہوتا ہے، جماعت کا نظم انتہائی نچلی سطح پر قائم کرنے کی جسارت کی جاتی ہے، اس کا تنظیمی ڈھانچہ اس دستور کے تحت ہے جس کو جماعت کے قیام کے وقت مرتب کیا گیا، دستور میں وقت کے ساتھ ضرورت کے تحت مروجہ قاعدے کے تحت تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

جماعت کے دستور میں یہ بھی رقم ہے کہ وہ تمام افراد جو اس نظم اور جماعت میں شامل ہوں، وہ کارکن ہو، حامی یا رکن ہوں انھیں ایک مقام پر جمع کیا جائے، اس کو عرف عام میں " اجتماع عام" کہا جاتا ہے، اس کا اضافی وصف یہ بھی ہے، اس اجتماع عام میں اراکین جماعت کو یہ حق حاصل ہے، یہ وہ اپنی قیادت کا احتساب کرسکتے ہیں، یہ بھی منظم انداز میں کیا جاتا ہے، روایت کے مطابق مرکزی، صوبائی قیادت ایک الگ پنڈال میں اراکین کے سامنے براجمان ہوتی ہے، ہر رکن تحریری طور جماعت کی پالیسی، کارکردگی، مالی شفافیت، سیاسی پالیسی سے متعلق امیر جماعت اسلامی و دیگر قائدین سے سوال کرسکتاہے، اس احتساب کی طرح سید مودودی نے ڈالی۔

سب سے پہلا اجتماع عام کل ہند 9اپریل 1945 میں دارالسلام میں منعقد ہوا، سید مودودی نے فرمایا کہ آپ کے اجتماعات میں خواہ کتنا ہی بڑا مجمع کیوں نہ ہو مگر خیال رکھیے کہ بھیڑ، ہڑبونگ اور شور ہنگامہ کی کیفیت کبھی رونما نہیں ہونی چایئے، جو کام ہم نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ اخلاقی اصولوں پر دنیا کی اصلاح کرنا، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کودنیا کا صالح ترین گروہ ثابت کر دکھائیں۔ دنیا نے اگر دیکھا ہمارے اجتماعات میں بد نظمی اور انتشار ہے، جہاں ہم جمع ہیں وہاں، مذاق قہقہے اور جھگڑے بپا ہیں تو دنیا خدا کی پناہ مانگے گی۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اجتماع کے دوران، نظم، وقار، حسن اخلاق کا ایسا مظاہرہ کریں، منظم گروہ کی اٹھیے، بیٹھیے کھایئے اور منتشر ہو جائیں۔

شہر میں تین روزہ خیمہ بستی بساتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا کہ شرکاءاجتماع جس میں خواتین، بچے، بوڑھے غیر ملکی مہمان بھی شامل ہوں انھیں کسی قسم کی شکایت اور پریشانی نہ ہو یہ بڑے جان جوکھوں کاکام ہے، اس لئے بھی کہ جماعت اسلامی وڈیروں، جاگیرداروں، گدی نشینوں، سرداروں اور سرمایہ داروں کی پارٹی نہیں ہے، کہ بھاری بھر سرمایہ دے کر حکم صادر کیا جائے اور انتظامات ہو جائیں، یہ سماج کے عام طبقہ کی نما ئندہ جماعت ہے، قیادت کو یہ بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ خیر خواہوں اور اراکین جماعت کی طرف سے دی گئی اعانت کا پیسہ کہیں فضول استعمال نہ ہو، اس لئے پنڈال کے سجانے میں مرکزی قیادت سے لے کر عام ور تک کر اللہ کی خوشنودی کے لئے رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔

1957 میں ماچھی گوٹھ کے مقام پر منعقد ہ اجتماع عام کافی متنازعہ رہا، بانی جماعت کو امارت سے مستعفی ہونا پڑا، ایک گروہ مولانا مودودی کی قیادت میں انتخابی سیاست کو اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے لازم سمجھتا، دوسری جانب مولانا امین احسن اصلا حی اور ان کے ہم خیالوں کا موقف تھا، کہ انتخابی سیاست جماعت کے نظریاتی تشخص کو نقصان پہنچائے گی، جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والی شخصیات نے علمی، فکری، مذہبی، صحافتی اعتبار سے سماج میں کلیدی کردار ادا کیا۔

فی زمانہ عالمی سطح پر واحد سپر پاور کی موجودگی میں جس طرح غزہ اور کشمیر پر ریاستی دہشت گردی جاری ہے، اس نے سید مودودی کے نقطہ نظر کو درست قرار دیا ہے، عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد، سید مودودی کے فلسفہ " پولیٹیکل اسلام " نے مغربی مفکرین کو تحقیق پر مجبور کیا ہے، بہت سی مغربی جامعات میں سید مودودی اور اس نظا م پر ڈاکٹریٹ ہورہی ہے جس سے سید مودودی کے نقطہ نظرکو مزید تقویت ملی ہے۔

سوشلزم روس میں ناکام ہوا، سرمایہ دارانہ نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے، کڑ وروں انسان خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے، دنیا میں دولت چند امیر زادوں کے ہاتھوں مرتکز ہے، آج کے انسان کو ایسے نظام عدل کی تلاش ہے جو سماجی سطح پرمعاشی، اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی تحفظ اور عدل فراہم کر سکے، اسکی عملی شکل ریاست مدینہ میں پائی جاتی ہے۔

ہر اجتماع عام کا ایک سلوگن ہوتا ہے، 21تا23نومبر 2025 کو مینار پاکستان لاہور پر منعقد ہونے والے اجتماع کا نعرہ ہے "بدل دو نظا م "شیند ہے اس پرگرام میں حسب سابق اسلامی تحاریک کی غیر ملکی شخصیات بھی شریک ہوں گی۔ اس اجتماع میں نوجوانان قوم کی بڑی تعداد میں شرکت بھی متوقع ہے، امیر جماعت اسلامی محترم حافظ نعیم الرحمان کے انقلابی پروگرام " بنو قابل" میں جنہوں نے داخلہ لیا، حسب سابق اس اجتماع میں طالبات، بچیوں، خواتین کی بہت بڑی تعداد بھی شریک ہوگی، انھیں گھر جیسا ماحول ملتا ہے، بچوں کے کھیلنے کے لئے جھولے ہوتے ہیں، مگر آج تلک کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، جماعت اسلامی کی ایمانداری، تنظیمی صلاحیتوں کا اعتراف تو ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔

معاشرتی سطح پر ایک مایوسی پائی جاتی ہے، نت نئی آئینی ترامیم نے حکمرانی کا توازن بیگاڑ دیا ہے، اداروں کی بجائے شخصیات طاقتور بنتی جارہی ہیں، سرکاری ملازمین کی پنشن اور مراعات میں بھاری بھر تفاوت پایا جاتا ہے، کسان کو اپنی فصل کا ریٹ نہیں ملتا، عوام کا بڑا حصہ خط غربت کے نیچے زندگی بسر کررہا ہے، اختیارات اور دولت بااثرہاتھوں میں مرکوز ہے، ایسے میں "بدل دو نظام" کی قوم کو دعوت وقت کی پکار ہے، دیکھنا ہے کہ جماعت اسلامی کے اس اجتماع عام کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran