Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Kash, Wazir e Ittelaat Punjab Bhi Pensioner Hoti

Kash, Wazir e Ittelaat Punjab Bhi Pensioner Hoti

سرکاری ملازمین کا شمار اُس بدقسمت طبقہ میں ہوتا ہے، جس کو اپنی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کے لئے ہر سال مالی بجٹ سے پہلے شنوائی کے لئے احتجاج کرنا پڑتا ہے، جہاں ذمہ دارحکومتیں اپنا کام کرتی ہوں وہاں یہ مشق دیکھنے کو نہیں ملتی، ارباب اختیار نے تاج برطانیہ جیسا سامراجی رویہ اپنایا ہوا ہے، یہ ملازم ہی سمجھے جاتے ہیں، افسران اور ماتحتوں کے مابین مراعات کی بڑی خلیج پائی جاتی ہے، بعض شعبہ جات میں نوازشات کی بارش مسلسل رہتی ہے غیر اشرافیہ ملازم کو مرحرمہ بے نظیر دور کا منجمدہاوس رینٹ مل رہا ہے، جس میں گھر تو کیا ایک غسل خانہ بھی کرایہ پر نہیں مل سکتا جبکہ دوسری طرف مخصوص کلاس کے ملازمین کا یہ الاونس لاکھوں میں ہے، بانی پاکستان نے حالانکہ فرمایا تھا کہ نئی ریاست اشرافیہ کے لئے نہیں غریب شہری کے لئے قائم کی گئی ہے۔

سب سے زیادہ زیر عتاب پنجاب کا ملازم ہے۔ یہی معاملہ پنشن کی ادائیگی کا ہے، ملازمین سراپا احتجاج ہیں ٹیکس کلیکشن میں زیادہ شیئر پنجاب کے ملازمین ہی کا ہے، پنشنرز کی بڑی تعداد اس نوٹیفکیشن کی زد میں آئی ہے جس کا نفاذ 2 دسمبر2024 کو ہوا ہے، یہ تو شاہی فرمان لگتا ہے کہ یکم دسمبر کو ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو پوری مراعات ملیں گی، جبکہ ایک دن بعدریٹائرڈ ہونے والا بد قسمت قرار پائے، دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، جب اصلا حات لائی جاتی ہیں تو ان کا نفاذ بتدریج کیا جاتا ہے، نئی پالیسی کے نفاذ سے قبل سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جاتی ہے، ظلم یہ ہے کہ ایسا صرف پنجاب میں کیا جارہا ہے یہ امتیازی سلوک اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 199کی کھلی خلاف ورزی ہے، تاریخ گواہ ہے، شریفین کے عہد میں محض سیاسی مخاصمت میں ملازمین کو ان مراعات سے محروم رکھا گیا جو وفاق یا دیگر صوبہ جات میں نافذالعمل رہی ہیں۔

پنجاب کی وزیر اطلاعات پنشنرز کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے دلیل یہ دے رہی ہیں، چونکہ ملازمین اور پنشنرز کی تعداد پنجاب میں زیادہ ہے اس لئے بجٹ بک کے مطابق ہی ہم تنخواہ اور پنشن ادا کر سکتے ہیں جس سرکار کی ترجمان ہیں ان کی حکومت کئی دہائیوں سے پنجاب میں ہے، پنجاب میں کوئلہ، نمک، جپسم، قدرتی گیس، معدنی تیل، کچا لوہا دیگر معدنیات پائی جاتی ہیں، لہلاتے کھیت، صحرا، باغات، بہترین نظام آبپاشی، سارے، موسم، بہترین افرادی قوت بھی پائی جاتی ہے، پنجاب کے وسائل میں اضافہ کرنا تو حکومت کا کام ہے کامیابی کس حد تک ملی ہے اس کا اندازہ کسانوں، مزدوروں، تاجروں، ملازمین کے احتجاج سے کیا جا سکتا ہے، تین دہائیوں سے بر سر اقتدار رہ بھی یہ سرکار پنجاب میں نہ تو جاگیر داری نظام ختم کر سکی نہ ہی زرعی ٹیکس وصول کر سکی، اس غفلت کی سزا پنشنرز کو دینا کون سی دانش مندی ہے۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے اور سرکاری اداروں کی اصلاح کرنے کی بجائے انھیں آوٹ سور س کرکے بنیادی ضرویات سے محروم کررہی ہے، آئینی طور اسکی فراہمی سرکار کی ذمہ داری ہے۔

وزیر اطلاعات بخوبی جانتی ہیں کہ اس جماعت کی سرکار میں نت نئے مالیاتی سکینڈل بھی سامنے آتے رہے، ترقیاتی کاموں میں کمیشن کا کلچر ان کے عہد میں رہا ہے، کیا وزیر اطلاعات اس صوبہ کے کرپشن فری ہونے کا دعوی کر سکتی ہیں؟

ان خرافات کو سرکار روکنے میں اگر ناکام نظر آتی ہے، تو وسائل کی کمی اور ناکامی کا بوجھ اس صوبہ کا پنشنرز کیوں اٹھائے، ایک طرف سرپلس بجٹ پیش کرنے کا دعوی تو دوسری طرف ملازمین کی مراعات میں کمی کیا کھلا تضاد نہیں، جنہوں نے عہد شباب اداروں کو دے کر صوبہ کی خدمت کی ہے۔

وزیر اطلاعات کومعلوم نہیں کہ اسی دورقتدار میں پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں ہوشر با اضافہ ہوا ہے، ان اراکین کی خدمات تو محض چند سال ہیں، پنشنرز نے مگرایک مدت تک فرائض منصبی انجام دیئے ہیں جن کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر پنشن رکھی گئی ہے، جو سفاکیت کے مترادف ہے۔ موجودہ بجٹ میں پنشنرز کی پنشن میں اضافہ اگر کیا بھی گیا وہاں بھی ڈنڈی ماری گئی وفاق سے کم شرح سے ادا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

صوبہ بلوچستان جس کو بد امنی کا طویل عرصہ سے سامنا ہے، اس نے بھی تنخواہ اور پنشن میں وفاق کے مطابق اضافہ کیا ہے، خیبر پختون خواہ میں بھی وفاق کی طرز پر اضافہ کیا گیا ہے، پنجاب میں ایسی بے انصافی کیوں کی جارہی ہے؟ عمومی تاثر یہی ہے کہ مسلم لیگ نون ملازمین کے کئے نرم گوشہ نہیں رکھتی ہے۔

چوہدری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی بنے تو انھوں عوامی، سماجی نوعیت کے وہ فلاحی کام کئے جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، اس میں پنجاب کے ملازمین کے لئے ایک رہائشی منصوبہ بھی تھا، اس مقصد کے لئے پنجاب گورنمنٹ ہاوسنگ فاونڈیشن تشکیل دی گئی، مگر اس عظیم منصوبہ کو بھی سیاست کی نذر کیا گیا ہے، طویل عرصہ سے ملازمین پلاٹ یا مکان کی الاٹمنٹ سے محروم چلے آرہے ہیں، وزیر اطلاعات اس غفلت پر سرکار کا موقف پیش کرنے کی جسارت کریں گی؟ کیونکہ 2013 سے2018تک اسی سرکار کی حکومت تھی جس کی وہ ترجمان ہیں۔

وزیر اطلاعات سے دست بستہ عرض ہے کہ اساتذہ کرام، پروفیسرز، ڈاکٹرز، کلرک صاحبان درجہ چہارم یا دیگر غیر اشرافیہ ملازمین کو جو گریجویٹی اس وقت مل رہی ہے، اس بجٹ میں وہ تین مرلے کا گھر ہی خرید کر دیں پنجاب کی بجٹ بک سمجھ انھیں آجائے گی، کیا ملازمین کی دیگر ذمہ داریاں نہیں ہوتیں؟ بچوں کی شادیاں، انکی تعلیم، خوشی اور غمی، اس معمولی پنشن میں ان فرائض سے کیسے نبرد آزماء ہوا جاسکتا ہے، انکے بچوں کی خواہشات نہیں؟ قومی وسائل پر یہ بھی اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا اشرافیہ کا ہے۔

وزیر اطلاعات بخوبی جانتی ہیں کہ فلاحی ریاستوں میں تارکین وطن کو خدمات کے عوض پنشن باقاعدہ دی جاتی ہے، سپیشل بچوں کو خصوصی او ر بے روزگاروں کوبیروزگاری الاونس بھی دیا جاتا، ملازمین کی مراعات میں خاص تفاوت نہیں رکھا جاتا، گھر خرید کے لئے مالی سہولت دی جاتی ہے، پنجاب گورنمنٹ آدھی پنشن اور گریجویٹی دے کر احسان جتا رہی ہے، ایمانداری سے فرائض انجام دینے والوں کو کیایہی صلہ ملنا چایئے تھا؟

ہماری خواہش ہے کہ کاش! وزیر اطلاعات پنجاب بھی پنشنر ہوتیں اور محدود وسائل میں جب انکے بچے اپنی خواہشات کا اظہار کرتے تو انکے دل کے ارمان آنسووں بہہ جاتے انھیں اندازہ ہوتا کہ پنشنرز اور سرکاری ملازمین کی مشکلات کیا ہوتی ہیں، ریاست تو ماں ہوتی ہے مگر جہاں ایسی سرکار اور آپ جیسے ترجمان ہوں وہاں کسی فلاح کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran