Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Musheer e Khas Ki Guftgu, Tasveer Ka Aik Rukh

Musheer e Khas Ki Guftgu, Tasveer Ka Aik Rukh

نشان امتیاز پانے والے وزیر اعظم کے مشیر خاص کی پشاور میں آل پارٹیز میں ہونے والی گفتگو کو بڑی پذیرائی ملی، ان کے لب و لہجہ سے محسوس ہورہا تھا کہ وہ پارٹیوں سے مخاطب تھے جو ہمیشہ پرشکوہ رہتی ہیں، جن میں قوم پرست جماعتیں بھی شامل تھیں، وہ آئین پاکستان، چار اکائیوں اور مرکز کی مضبوطی پر محو گفتگو تھے، انھوں نے برملا کہا کہ ریاست میں مارشل لاؤں نے اسکی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے، اس بات کا بھی اظہار کیا کہ انھیں بھی عسکری قیادتوں سے اختلاف رہاہے، ساتھ ساتھ جموریت کے لئے ان قربانیوں کا بھی تذکرہ کیا کہ قائد عوام آمرانہ عہد میں سولی چڑھا دیئے گئے۔

موجودہ صدر بھی پابند سلاسل رہے، پنجاب میں برسر اقتدار پارٹی کے صدر کو جیل کی ہوا کھانا پڑی فیملی کے ساتھ جلا وطن بھی ہوئے، سابق وزیر اعظم اور چیئرمین سینٹ کو نااہلی کا دکھ اٹھانا پڑا، حاضرین کو وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ صرف آپ ہی متاثرین شامل نہیں ہم بھی آپ کے ہم سفر رہے، انھیں کرایہ داری ایکٹ کے تحت جمہوری حکومت میں ہتھکڑی لگی اور زندان کے حوالہ ہوا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب کے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا پھربھی اہل پنجاب صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے پنجاب کو گالی دینے سے کون سی تسکین ہوتی ہے، انھوں نے کہا کہ یہ ریاست ہے تو ہم ہیں، چاروں اکائیاں ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔

انکی باتوں سے محبت کی خوشبو آرہی تھی وہ سب کو قائل کرتے رہے کہ دستیاب حالات میں ہم نے باہم متحد رہنا ہے، گلے شکوے بھی ساتھ رہیں گے، آمرانہ دور کے حوالہ سے انکی گفتگو مبنی بر حقیقت تھی، مقرر کا تعلق جس جماعت سے ہے پہلے آمر کا بیٹا اس جماعت کی کابینہ کا حصہ رہا، اس نے اپنے باپ کے عہد میں جی بھر کے قومی دولت پر ہاتھ صاف کیا، اس جماعت کی صفوں میں سیاسی خاندانوں کے وہ لوگ بھی شامل تھے، جو آمر کی اشیر آباد کے لئے قومی انتخاب میں فاطمہ جناح کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔

نجانے بڑے میاں یہ تقریر انھوں نے سنی بھی ہے یا نہیں فیصل مسجد کے احاطہ میں مدفون ایک آمر کی قبر پریہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ وہ جنرل صاحب کا مشن پورا کریں گے، نہیں معلوم وہ کسے مشن سمجھتے تھے، لسانی اور فروعی گروہوں کے ساتھ کراچی اور پنجاب میں اپنے اقتدار کے لئے سیاسی اتحادکرنا ہی کیا ان کا مشن تھا؟ ان گروہوں کے ہاتھ عام شہریوں کے خون سے رنگین تھے۔

موصوف نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے بانی کاسیاسی قتل ہوا، قائد عوام کی حماقتوں سے عوام اور ملکی صنعت کو کتنا نقصان پہنچا یہ انھوں نے نہیں بتایا، ایک جذباتی فیصلہ سے قومی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جب عالمی برادری ترقی کے لئے پاکستان کا ماڈل اپنا رہی تھی۔ ہماری صنعت اب تلک اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکی، کسی عدالت، ادارہ حتی ٰ کہ پیپلز پارٹی نے بانی کا احتساب کیا ہے؟ مسٹر بھٹو اصغر خاں مرحوم اور چوہدری ظہور الٰہی کو کیوں ٹھکانے لگانا چاہتے تھے، انکا جرم محض سیاسی مخالفت تھا، ملک قاسم اور میاں طفیل محمد مرحوم کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا، پیپلز پارٹی کی قربانیوں کے ساتھ اس کا بھی تذکرہ ہوتا تو بیلنس ہو جاتا۔

مشیر خاص یہ بھی بھول گئے کہ انکے قائد نے سب سے پہلے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ مستانہ بلند کیا جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، ان کے عہد میں وزیر اعظم، صدر، آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان، چیئرمین سینٹ کے تمام عہدہ جات پنجاب کے پاس تھے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ موصوف اس سرد سیاسی جنگ کو بھی زیر بحث لاتے جو میثاق جمہوریت سے قبل بڑی پارٹیوں کے مابین جاری رہی، عوام نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ بڑی جماعتوں کے مابین عدالتی اور قانونی جنگ کی بھاری فیس کا بوجھ اس قوم کو کیوں اٹھانا پڑا؟ راوی یہ بتانے سے قاصر رہا۔

جہاں تک" مرد حر" کا معاملہ ہے عام شہری یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ، اگر وہ بدعنوانی میں ملوث پائے گئے تو سیاسی عہدہ کے لئے نااہل کیوں نہ ہوئے، اگر ان کا دامن صاف تھا، تو الزام علیہ پر مقدمہ درج کرا کر اسے سزاکیوں نہ دی؟ گرل ماڈل کے گرفتار کرنے والے کسٹم انسپکٹر کا قتل اب تلک معمہ ہے ماڈل نے صدر بنتے ہی سندھ کی بڑی شخصیت کے نام خصوصی پیغام جاری کیا۔

موصوف مارشل لاؤں سے نالاں رہے انھیں بخوبی علم ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف تحریک چلا کر طالع آزماؤں کو مارشل لاءنافذ کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کو موقع فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جس دہشت گردی پر پیپلزپارٹی نالاں ہے اسی عہد کے وزیر داخلہ طالبان کو اپنے "بچے" کہتے تھے۔

گفتگو میں آئین کا حوالہ تھا کہاں لکھا ہے رائلٹی کے نام پر بھاری بھر رقوم سردار اپنے تصرف میں لا ئیں، سرداروں کے خاندان کی نشستیں ائر لائن میں مختص ہوں گی، کیا بلوچستان کے عام شہری کو مفت سفری سہولت میسرہے؟ بڑی جماعتوں کے سیاسی عہد میں یہ سب روا رہا، قوم پرستوں کے لئے نرم گوشہ، بڑی سیاسی پارٹیوں نے کالاباغ ڈیم کو التواءمیں رکھا، جن کو یہ خدشہ تھا کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا، آج پورا خیبر ان کے سامنے ڈوب گیا۔

اے پی سی میں زیادہ فوکس اس بات پر رہا کہ تما م سٹیک ہولڈرز کو ریاست کے قوانین اور آئین کا احترام کرنا ہے، حاضرین کی بے چینی بتارہی تھی کہ انھیں بتایا جائے کہ انکی حالت زار کا ذمہ دار کون ہے؟ عالمی مالیاتی اداروں سے کس کس سرکار نے کتنا قرض لیا، معاف کرانے والوں کے نام صیغہ راز میں کیوں ہیں؟ ہر صوبہ پی پی پی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ نے ایک دہائی سے زیادہ مدت تک حکومت کی ہے، مگر سیلاب میں بیچارے عوام کا مال ومتاع بہہ گیا، روشنیوں کا شہر پانی اور تاریکی میں ڈوب گیا، لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، بے روزگاری نے نسل نو کی خوشیاں چھین لی ہیں، بے گھر افراد کی بے بسی دیدنی ہے۔

تین بڑی جماعتوں نے اداروں کی بجائے شخصیات کو مضبوط کیا، مڈل کلاس ترقی کی ضمانت ہے، وہ بتدریج ختم ہورہی ہے، مشیر خاص نے اپنی تقریر میں تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیا ہے، ہماری خواہش ہے کہ وہ اسمبلی کے فورم پر عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے، انکی مشکلات، مسائل اور مصائب کو سرکار کے سامنے پیش کریں، جس کے وہ ترجمان ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran