Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Naye Subajaat Ka Qayam

Naye Subajaat Ka Qayam

ایسے وقت میں جب ایک صوبہ میں گورنر راج کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، ریاست کو ہمسایہ ملک سے دہشت گردی کا سامنا ہے، شرپسند بلو چستان میں حملہ آور ہیں، اپوزیشن نئی آئینی ترامیم کے خلاف تحریک کا عندیہ دے رہی ہے، بارز کونسل میں بھی ترامیم پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، اس ماحول میں نئے صوبہ جات کے قیام کے حوالہ سے مشاورت کا عمل بھی جاری ہے، سماج کے کسی طبقہ کی طرف سے نئے صوبہ جات کے حوالہ سے حالانکہ کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا، جو شخصیات اس بابت متحرک ہیں، ان کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے، ایک سابق ناظم ضلع لاہوربھی رہ چکے ہیں، تجربہ اور اعداد وشمار کے تناظر میں ان کا ماننا ہے کہ بڑے صوبہ کی موجودگی میں عوامی مسائل کو حل کرنا انتہائی مشکل ہے، وسائل کے اعتبار سے بھی چھوٹے صوبہ جات کے عوام احساس محرومی کا شکار رہتے ہیں، حل یہ ہے چھوٹے انتظامی یونٹ بنا کر وسائل کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے۔

راوی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ایسی شخصیات جن کا سیاست سے تعلق واجبی سا ہے، بنیادی طور وہ بڑے بزنس مین ہیں، صوبہ میں کالجز کی ایک بڑی چین کے مالک ہیں، عوام کی ہمدردی کا خیال ان کے دل میں اچانک کیوں کر آیا، حالانکہ ماضی میں نئے صوبہ جات کے قیام کی ایک توانا آواز انتخابی مہم کا حصہ رہی، بہت سی سیاسی جماعتوں نے تو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے اور بہاولپور کی صوبائی حیثیت بحال کرنے کو اپنے منشور کا حصہ بھی بنا رکھا تھا، نجانے اُس وقت یہ محترم ہستیاں کہاں تھیں، چھوٹے صوبہ جات کی فیوض و برکات سے پبلک اور اہل دانش کو پہلے آگاہ کیوں نہ کرسکیں، نئے صوبہ جات کے نعرے ماضی میں سیاسی سٹنٹ کے طور پر لگے، وعدہ کو وفا کرنے میں بڑی رکاوٹ قومی اور صوبائی آئینی ترامیم ہیں، شنید ہے بعض حلقے اس پر بڑی تیزی سے کام کر رہے ہیں، ریاست12یا32 صوبہ جات میں منقسم ہونے کی تجویز ہے، یہ بھی کہاجارہا ہے، جس طرح کا قومی سطح پر ہائی بریڈ نظام رواں ہے، نئے صوبہ جات بھی اسی کا تسلسل ہوں گے۔

جونابغہ روزگار شخصیات اس"خصوصی مشن" پر گامزن ہیں، انھیں بہت سے تندو تیز سوالات کا سامنا بھی ہے، یہ کہ ماضی کا تعلیمی نظام اور ٹاٹ سکول سسٹم جس پر بیٹھ کر ساری بیورو کریسی نے پڑھا ہے اور وہ صحت کا نظام جو اُس وقت کی آبادی کے لئے کافی تھا، اس کو تباہ کرنے میں کس کا ہاتھ ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کو پروان چڑھانے میں کس کا مفاد ہے، ان سوالات کے جوابات تاحال قرض ہے۔

نئے صوبہ جات کی ضرورت ریاست کا رقبہ ہے، محرکین کی دلیل میں کتنا وزن ہے، اس کا تقابلی جائزہ اس طرز حکومت سے لیں گے، جیسے دنیا میں بہترین حکمرانی کا اعزاز ملا، فلاحی ریاستوں میں عمرؓ لاز کے نام سے قوانین آج بھی رائج ہیں، اُس ریاست کا رقبہ22لاکھ مربع میل تھا، ہماری سرزمین سے قریباً چار گنا زیادہ تھا، اِس میں عدل وانصاف، قانون کی حکمرانی تھی، خوشحالی اس قدر کوئی زکوۃ لینے والا نہیں تھا، خلیفہ دوئمؓ نے خلیفہ بننے کے بعد صرف میرٹ کو نافذ کیا، گورنرز کی مجال نہیں تھی عوام پر دروازے بند رکھتے، آپؓ بہترین منتظم تھے، تاریکی میں آبادی کا گشت کرتے، دس سال کی قلیل مدت میں بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر نگیں کیا، نئے ادارے قائم کئے، اپنی خلافت کے ابتدائی عہد میں جب اسلامی فوج شام میں بسر پیکار تھی، اس کے سپہ سالا حضرت خالد بن ولیدؓ کو عین جنگ کے درمیان سپہ سالاری سے معزول کرکے حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو نیا سپہ سالار مقرر کیا، حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس فیصلہ کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور نئے سپہ سالار کی کمانڈ میں سپاہی کی حیثیت سے اسلام کی خدمت پر مامور ہوئے۔

خلیفہ دوئمؓ نے اپنی اولاد تو کجا بحیثیت امیر المومنین اپنے لئے بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہ کیا، روایت ہے کہ سرکاری چراگاہ میں بیٹے کے فربہ گھوڑے کو دیکھ کر پوچھا کس کا گھوڑا ہے، معلوم ہوا ان کے فرزندارجمند کا، استفسار کیاکس طرح فربہ ہوا، جواب ملا سرکاری چراگاہ میں چرانے سے، امیر المومنینؓ نے بیٹے کو حکم صادر کیا، کہ اسے فروخت کرو اور فربہ ہونے سے پہلے کی مالیت اپنے پاس رکھ کر بقیہ رقم بیت المال میں جمع کرا دو، اس تقوی اور زہد کا ہی فیض تھا کہ غیر مسلم بھی اسلامی ریاست میں رہنے کوترجیع دیتے۔

متحرک شخصیات کے گوش گذار یہ کرنا ہے کہ علاقہ کی وسعت یا رقبہ سے زیادہ لازم ریاست میں نظام عدل و انصاف قائم کرنا، عوام کی خبر گیری کرنا، میرٹ اور قانون کی حکمرانی کا ہونا، مقتدر طبقہ کا اپنے لئے کسی بھی قسم کا استثنیٰ نہ لینا، وسائل کی منصفانہ تقسیم کرنا، اسلامی نظام تعلیم، معاشرت اور معیشت کا نفاذ ہونا نئے صوبہ جات کے قیام سے زیاہ اہم ہے۔

ڈیجیٹل دنیا اچھی گوورننس کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں، پورا عالم پیپر لیس ورکنگ کی طرف جارہا ہے، عوامی ریلیف کیلئے استعفادہ کیوں ممکن نہیں؟ ، فی زمانہ دنیا میں مقامی حکومتوں کا عروج ہے، امریکہ میں مئیر شپ کا انتخاب صدر سے زیادہ اہمیت پاگیا، جبکہ کراچی میٹرو پولیٹن میں مئیر کا الیکشن ہی چرا لیا گیا، جس کی باز گشت تاحال سنائی دے رہی ہے۔

بد قسمتی یہ کہ صوبائی حکومتوں کو مقامی حکومتوں کے قیام سے خوف آتا ہے، مالی وسائل اور اختیارات دینے سے وہ گریزاں ہیں، نئے صوبہ کے قیام کے حامی کیاِ ضمانت دیتے ہیں کہ نئے صوبہ جات میں آزمائے روایتی سیاسی خاندانوں کی بجائے عام آدمی برسر اقدار ہوگا؟ وڈیروں، سرداروں، گدی نشینوں، جاگیر داروں نے ہی اگرکسی کے دست شفقت سے نئے صوبہ جات میں حکمرانی کرنی ہے تو بھاری بھر اخراجات بڑھانے اور بے سودمشق کرنے کا فائدہ کیا ہے؟

اِس مشن کے حامی ریاست میں گڈ گوررننس، میرٹ کے فروغ، آزادانہ انتخابات، آئین اور قانون کی حکمرانی، اسلامی نظام معیشت کے لئے رائے عامہ ہموار کریں، ہر چند نظام کی تبدیلی آئینی ضرورت ہے مگر مذکورہ بالا حالات میں نیا پنڈورہ بکس کھولنا اور عجلت میں فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں، قومی نوعیت کے فیصلہ جات کا بہترین فور م توپارلیمنٹ ہے، جو آزادانہ انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آئے، ایک راستہ تو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقا ہے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کلمہ کے نام پر قائم اِس ریاست کا بوسیدہ نظام کنوئیں میں گرے اُس کتے کی مانند ہے، 78 سالوں سے مقتدر طبقہ کی جانب سے ریاستی کنوئیں کو پاک کرنے کے لئے صرف پانی نکالا جارہا ہے، صوبہ کے محرکین کتا نکالنے پر زور کیوں نہیں دیتے؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran