Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Khalid Mahmood Faisal/
  3. Selab Se Bachao Ka Tariqa

Selab Se Bachao Ka Tariqa

سوشل میڈیا کی وساطت سے سیلاب زدگان کی دل خراش وڈیوز سامنے آرہی ہیں کہ دل سا بیٹھ جاتا ہے معصوم بچے، نوجوان لڑکیاں، مرد و خواتین اور بزرگ کیمپوں میں بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، ایک طرف انھیں اپنے گھر اور سازوساماں کی فکر لاحق ہے تو دوسری طرف فصل کی تباہی کا دکھ ہے، مال مویشی کی پریشانی اس کے علاوہ ہے۔

حالیہ سیلاب ایک آفت بن گیا ہے، ہرچند یہ پہلا سیلاب نہیں ہے، کہا جارہا ہے کہ اس دفعہ بارشیں پہلے سے زیادہ ہوئی ہیں، مون سون سپل کا دورانیہ بھی بڑھا ہے، شہروں کو اربن فلڈنگ کا بھی سامنا ہے، گجرات جیسے شہر میں عینی شاہدین کے مطابق چھ فٹ پانی گلیوں اور بازاروں میں موجود رہا ہے، شہر میں پانی داخل ہونے کی وجہ وہ برساتی نالے ہیں جنہوں نے شہروں کا رخ کیا ہے، انکی گزر گاہوں تجاویزات سے مبرا نہ تھیں، سیلاب کا سلسلہ جو سوات سے شروع ہوا تھا وہ پنجاب سے ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہورہا ہے، لاکھوں افراد متاثر ہوئے کچھ زندگی سے محروم ہوئے، جانی اور مالی نقصان کے علاوہ پلوں، شاہراہوں، بیراجوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ارباب اختیار اور افسر شاہی حسب روایت سیلاب کے بعد متحرک ہوتے ہی انڈیا پر اچانک پانی چھوڑنے کا الزام دھر ا ہے، بقول ان کے اس سے ہنگامی صورت حال پیدا ہوئی ہے، وزیر اعلی ٰ سے وزراء کرام اور افسر شاہی سے سیاسی قائدین تک سب متاثرین کی دل جوئی کے لئے کیمپوں میں پائے گئے ہیں بوڑھی خواتین کو گلے لگایا جارہا ہے، بچوں سے باتیں کی جارہی ہیں ساتھ ساتھ، فوٹو سیشن بھی ہو رہے ہیں، باوجود اس کے متاثرین شکوہ کناں ہیں کہ انکی داد رسی انکی توقع کے مطابق نہیں ہے، اس ساری مصیبت میں بعض مائیں، بیٹیوں کا جہیز پانی میں بہہ جانے پر شدید افسردہ ہیں، کچھ کو جمع پونجی سے بنائے گئے مکانات کے گر جانے کا ملال ہے، کسی کو اپنے جانور گم ہونے جانے کا قلق ہے، اس سب کے باوجود سرکار شاد ہے کہ عوام کو ایک بڑی آفت سے بچا کر ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔

روایت ہے کہ برطانوی عہد میں مون سون سپل سے کم از کم تین ماہ قبل سیلابی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اعلی حکام کا اجلاس ہوا کرتا تھا، ممکنہ صورتحال اور اس کے مابعد اثرات کا جائزہ لیا جاتا تھا، متاثرین کی متوقع تعداد کے پیش نظر ان کے قیام و طعام کی باضابطہ منصوبہ بندی کی جاتی تھی، یہ وہ عہد تھا کہ جب ذرائع نقل و حمل جدید بھی نہ تھے، بڑی آبادی نہیں تھی، دریاؤں نہروں، راجباؤں، شاہراہوں، نالوں کے کناروں اور پہاڑوں پر درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ نظر آتے، کسی کی یہ جرا، ت نہ تھی کہ ان مقامات سے درخت کاٹ لے، اسی طرح دریاؤں کے راستوں، آبی گزر گاہوں پر کسی بھی قسم کی ناجائز تجاوازت کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہاوسنگ سوسائٹیز کا تو نام تک نہ تھا، پھر پیشگی انتظامات خاطر خواہ ہوتے۔

پاکستان کا نہری نظام قریباً سو سال پرانا ہے مگر اس میں جدت برطانوی عہد میں آئی، جب ہیڈ، بیراج بنائے اور نہریں نکالی گئیں، قیام پاکستان کے بعد سندھ طاس معاہدہ ہمسایہ ملک کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر طے پایا، تین دریاؤں کا پانی اس کے تسلط میں دے دیا گیا، ہندوہستان نے اچھے ہمسایہ کا ثبوت نہ دیا اور چالیس فیصد پانی جو عالمی قوانین کے تحت سکھ بیاس، ستلج، راوی دریاؤں میں چرند، پرند، آبی حیوانات کے چھوڑنا تھا اس میں غفلت کا مرتکب ہوا، ہماری قیادت نے بھی اس لاقانونیت کا نوٹس نہ لیا گیا، ہر دور کی حکومتیں خواب خرگوش کے مزے لیتی رہیں، ورنہ مذکورہ دریاؤں کی گزر گاہ میں ناجائز تجاوزات قائم نہ ہوتیں، متعلقہ محکمہ جات بھی الرٹ رہتے، اگر معمول سے زیادہ پانی آ بھی جاتا تو اس قدر تباہی نہ ہوتی۔

انڈیا جیسے ہمسایہ سے خیر کی توقع رکھنا ہی عبث ہے، لیکن آج کی گلوبل ولیج اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں سیلاب کی روک تھام کے لئے ہمارے ادارے کس قدر فعال اور عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کتنا کر رہے ہیں؟ دریاؤں کو گہرا کرنے، آبی گزر گاہوں کو صاف رکھنے اور انکی مانیٹرنگ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟

پہاڑوں کی چوٹیوں کو سرسے ننگا کرنے والے ٹمبر مافیا کا قلع قمع کرنے انھیں قرار واقعی سزا دینے سے کس نے روکا ہے، نہروں، دریاؤں، شاہراہوں کے کناروں سے درختوں کا صفایا تو ہر حکومت کے عہد میں ہوتا رہا، اس وقت آنکھیں کیوں بند کی گئیں، اب تو اربن فلڈ جیسے عذاب کا سامنا عام شہری کو ہے، آئے روز یوٹیلٹی بلز میں ہوشر با اضافہ توکیا جا رہا ہے، مگر پانی گھروں میں داخل ہونے سے شہریوں کی اربوں کی پراپرٹی ناقص ڈرینج سسٹم کی نذر ہورہی ہے۔ پانی کی دانش کا کیا کہنے یہ بھی غریب کی جھونپڑی کا رخ کرتا ہے، ارباب اختیار کے محلات کی جانب نہیں جاتا۔

ہر سیلاب ڈیم کی تعمیر کی نئی بحث کو جنم دیتا مگر یہ سمندر میں اترتے پانی کے ساتھ ہی دم توڑ دیتی ہے، المیہ یہ ہے کہ آبی ماہرین کی رائے کو اہمیت دینے کی بجائے لسانی، طبقاتی بحث کا نیا پنڈورہ بکس کھولا جاتا ہے، پاکستان کا شمار بارشوں کے اعتبار سے دنیا میں 145 واں نمبر بنگلہ دیش کا تیسرا ہے پورا بنگلہ دیش ڈوب گیا یہ کبھی نہیں سنا ہے، قدرتی آفات سے کسی کو مفر نہیں لیکن دنیا بھر میں اس کے نجات کے طریقہ کار اختیار کئے جارہے ہیں۔

1956سے2025 تک آنے والے سیلاب کی وجوہات میں یکسانیت پائی جاتی ہے، زیادہ شدت2010 کے سیلاب کی تھی ہزاروں لوگ مر گئے تھے، پچیس سالوں میں کسی کو غفلت پر سزا ہوئی، جائزہ لینے کے لئے کوئی کمیشن بنا شرع اس لئے خاموش ہے کہ مرنے والے عام شہری ہیں، ارباب اختیار کا پروٹو کول کے ساتھ متاثرین کے کیمپوں میں جانا، خواتین کے سر پر دست شفقت رکھنا، بوڑھوں کو گلے لگانا، بچوں سے باتیں کرنا اور کسی پیکج کا اعلان کرنے کی مشق دہرائی جاتی ہے۔

مکانات سے محروم متاثرین کو کب تلک گھر کی چھت میسر ہوگی، اس کا اندازہ2010 میں متاثرہ افراد کی بحالی سے کیا جا سکتاہے، بھاری بھر عالمی امداد کے باوجود سیلاب کی آمد کا انسانی المیہ بن جانا کسی بڑی کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے، اگر2010 میں پانی سے بچاؤ کا طریقہ بند توڑنا تھا اور2025 میں سیلاب سے بچاؤ کا یہی نسخہ آزمایا جارہا ہے تو پھر اس مالی امداد کا حساب کون دے گا جو سیلاب کی روک تھام اور متاثرین کی بحالی کے نام پر عالمی برادری سے لی جاتی رہی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran