کسی بھی ملک کا بجٹ ایک جامع مالی منصوبہ ہوتا ہے جو ایک مخصوص مالی سال کے لیے آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ پیش کرتا ہے۔ ہر سال یہ بجٹ وزیرِ خزانہ پیش کرتا ہے اور اسے پارلیمان سے منظور کروایا جاتا ہے۔ بجٹ میں حکومت کی آمدنی جیسے ٹیکسز، ڈیوٹیز اور دیگر ذرائع ہوتے ہیں۔ اسی طرح اخراجات جیسے دفاع، تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے اور قرضوں وغیرہ کی ادائیگیاں ہوتی ہیں۔
بجٹ کے دو اہم حصے ہوتے ہیں۔ آمدنی کا بجٹ: اس میں روز مرہ اخراجات اور معمول کی آمدن ہوتی ہے۔ ترقیاتی بجٹ: اس میں انفراسٹرکچر یا عوامی ترقیاتی پروگرام ہوتے ہیں۔ بجٹ تین قسموں کا ہوسکتا ہے Surplus: Balanced: Deficit: بجٹ وہ طاقتور حکومتی آلہ ہے جو معاشی استحکام کا ضامن ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2025-26 کا وفاقی بجٹ واقعی کسانوں کے مسائل کا حل ہوگا یا علامتی بجٹ ثابت ہوگا۔ اے میرے کسان! وطن کی شان! تجھے کسان کارڈ والی سکیم سے بھلا کتنا اور کیوں کر فائدہ ہوگا؟
مختلف ذرائع سے جہاں بنیادی طور پر پنجاب کسان کارڈ کے منصوبے کی تعریف کی گئی ہے وہیں زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اس کارڈ سے کسان لوگ زیادہ تر اپنے مرکزی مسائل سے نجات نہیں پا رہے۔ ہم نے پنجاب کے کئی کسانوں سے بات کی تو معلوم پڑا بہت سے کاشت کار معاشی دباو کی وجہ سے زراعت ترک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سندھ حکومت نے بھی تحفظ کا اظہار کیا ہے کہ گندم کے ذخیرے بکتے نہیں اور کسان بے سہارا ہے۔ ان کا کہنا ہے کسان کارڈ کو ریاکاری اور صرف سیاسی مکالمے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ پیداوری قیمت زیادہ ہے اور فصل بکتی نہیں۔ کسان آج بھی قرضوں سے آزاد نہیں ہوا۔
سرگودھا کے ایک کسان احمد مختار سے ہماری بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ کسان کارڈ کے فائدے چھوٹے کسانوں تک محدود ہیں اور وہ نا مکمل انداز میں پہنچ رہے ہیں۔ لودھراں سے ایک اور کسان جعفر گیلانی نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے پانی کی لاگت سے دست برداری کا وعدہ تو کیا مگر عملی طور پر لاگو نہ ہو سکا۔ کسان اتحاد کے سیکرٹری خالد حسین نے بتایا کہ حکومتی وعدہ تو پندرہ بلین کا تھا مگر ہر کسان کو ستائیس ہزار ملا مطلب رقم ظاہر میں خوب مگر پیمانے میں کتنی کم۔ 89% کسان قرضے میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس قرضے سے نکلنے کی بجائے مزید نیا قرضہ لے رہے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب شہر کے ایوانوں میں بجٹ کی تقریریں گونجتی ہیں تو وفاقی وزرا میٹھی زبانوں معیشت کے خواب بُنتے ہیں۔ تب دور کہیں پنجاب کے دُور افتادہ کھیت میں ایک کسان اپنے پُرانے سے ٹریکٹر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ نہ تو وہ معیشت دان ہے نہ تجزیہ نگاروہ تو صرف اپنے ہاتھوں میں بنی سخت گھٹیلوں، ماتھے کے پسینے اور زمین کے سینے سے نکلنے والی سانس کا راز دار ہے۔ اس سال بھی کہا تو گیا کہ زرعی قرضے بڑھا دیے جائیں گے۔
بیج اور کھاد پر سبسڈی دی جائے گی۔ زرعی مشینری کے لیے ریلیف ہوگا اور دیہی ترقی کو قومی معیشت کا ستون بنایا جائے گا۔ مگر آج دن تک کسی نے پوچھا اُس کسان سے جس کی کالج جاتی بیٹی نے چند پیسوں کی خاطر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی؟ کیا کسی نے دیکھا وہ بوڑھا کسان جو اپنی زمین کے لیے نہری پانی کے انتظار میں آسمان کو تکتا رہتا ہے؟ بجٹ ہر سال بہار کا ہرکارہ بن کر آتا ہے مگر خزاں بن کر چھا جاتا ہے۔ کیا یہ بجٹ عام آدمی کے دکھوں کا مداوا ہوگا؟ تو جواب ہے نہیں۔ زمین تو دھرتی ماں کہلاتی ہے اور ماں ہی کی طرح سب کو پالتی ہے۔
محنت کش کسان یعنی دھرتی کے بیٹوں کو آج نہ منڈی میں عزت ملتی ہے اور نا ہی فصل بکتی ہے۔ معاشرے کی بُنت میں ہر شخص اور پیشے کا اپنا مقام اور عزت ہے۔ گندم کی سنہری تیار بالیاں دیکھ کر کسانوں کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے مگر جب وہ گندم بکتی نہیں تو اس کا دل بھی جل کر رہ جاتا ہے۔ رواں سال کے بجٹ میں زراعت کے لیے صرف 4 ارب مختص کیے گئے ہیں جو یقناً ناکافی ہے۔ بچوں کے لیے پیزا لیا جائے تو بڑے سائز کا پیزا 6000روپے کا ملتاہے جس پر ایک پیڑا آٹے کا استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جس گندم سے آٹا بنتا ہے وہ پیزے سے بھی ارزاں ہے۔
زراعت کے جدید طریقوں کو اپنانے کے لیے تمام تر سہولیات اور تربیتی پروگرام کروانا ہوں گے۔ اس کے بچوں کو بنیادی تعلیم اور صحت چاہئے۔ خود اس کسان کو اس کے کھیتوں کے مالک ہونے کا احساس دینا ہوگا۔ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں پُر کشش سہولیات کاغذوں پر دکھائی گئی ہیں مگر عملی طور پر کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔ کسان اپنا پسینہ خون کی طرح بہاتا ہے مگر اس کی جیب خالی ہی رہتی ہے۔ دن بھر کی محنت کے بعد بھی بجلی کا بل، پٹرول کا خرچ، راشن، ادویات، بچوں کے تعلیمی اخراجات سب کچھ ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ اس بار بھی سرکاردی اعداد و شمار میں بجٹ کی پھٹی چادر اوڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکمران علامتی اقدامات کرکے عوام کو ریلیف دیں گے تو سُن لیجیے حقیقی ریلیف کے لیے عام شخص کی زندگی میں عملی بہتری لانی ہوگی ورنہ یاد رکھو اے اہل اقتدارو! کسی نہ کسی روزز یہ خاموش کسان چیخ اُٹھے گا اور جب زمین بولتی ہے تو پھر بڑے بڑے محل ہلنے لگتے ہیں۔ کسی بھی ملکی معیشت میں کسان کی حیثیت مٹی کے وفادار بیٹوں اور ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ میرا یہ کالم حکومت کے اُن اونچے ایوانوں جہاں بیٹھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں اور میرے وطن کے اُن تمام کسانوں کے نام ہے جو تڑکے ہی پَو پھٹنے سے پہلے ہی جاگ اُٹھتے ہیں اور چاند کے ساتھ تھک کر سوتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں کی انگلیوں میں ہل کی لکیریں اور آنکھوں میں سوال ہیں۔ مت بھولیں! ان کی یہ خاموشی ریاست پر قرض ہے۔