انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (2002ئ) ایک خودمختار عدالت ہے جو نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور جارحیت جیسے سنگین مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (1945)ایک دوسری عالمی عدالت ہے جو اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے، یہ 1945 میں اقوام متحدہ کے ساتھ ہی قائم کی گئی تھی اور اس کا مقصد ریاستوں کے مابین تنازعات کا پرامن حل نکالنا تھا۔ یہ دونوں عدالتیں بظاہر انسانی حقوق، عالمی انصاف اور قانون کی بالادستی کا دعویٰ کرتی ہیں مگر عملا یہ مغربی طاقتوں کی آلہ کار بن کر رہ گئی ہیں۔
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے قیام کا بنیادی مقصد عالمی امن کا قیام اور افراد اور ریاستوں کے مابین اختلافات کا فیصلہ کرنا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان عدالتوں کا رویہ متعصبانہ اور جانبدارانہ ہے۔ ان عدالتوں کے گزشتہ فیصلوں، رویوں اور ترجیحات کا جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان کا ہدف وہ ممالک یا افراد ہیں جو مغربی طاقتوں کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
گزشتہ سال بین الاقوامی فوجداری عدالت((ICC)نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس کے وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف غزہ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے مگر مغربی طاقتوں خصوصا امریکہ نے اس وارنٹ کو ہوا میں اڑادیا تھا۔ نیتن یاہو کچھ عرصہ قبل امریکی دورے پر روانہ ہوئے تو انہوں نے ان ممالک کی فضائی حدود سے گزرنے سے گریز کیا تھا جو ان کی گرفتاری کے حوالے سے سنجیدہ تھے۔ کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ ان ممالک کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے ہنگامی لینڈنگ کی صورت میں انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس مسلم رہنماؤں کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت((ICC) کی سرگرمیاں مؤثر، منظم اور تیز ہوتی ہیں۔ سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر کے خلاف جاری وارنٹ اس کی واضح مثال ہے۔ اگرچہ انہیں گرفتار نہیں کیاگیا تھا مگر مغربی میڈیا نے ان کے خلاف بھرپور مہم چلائی تھی۔ اسی طرح لیبیا کے صدرمعمر قذافی اورعراق کے صدر صدام حسین کے خلاف جو رویہ اپنایا گیا وہ واضح طور پر متعصبانہ تھا۔ ان مقدمات میں جس شدت، تسلسل اور پروپیگنڈہ کا سہارا لیا گیا وہ مغربی مفادات کے عین مطابق تھا۔
عالمی عدالت انصاف (ICJ) کا رویہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ICJ کا قیام بظاہر ریاستوں کے مابین باہمی تنازعات کے پرامن حل کے لیے کیا گیاتھا مگر جب فلسطین کے خلاف اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کی بات آتی ہے تو ICJ کا کردار مکمل خاموش دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور معصوم شہریوں کی نسل کشی جیسے معاملات پرعالمی عدالت کی خاموشی بے حسی کی حد وں کو چھو رہی ہے۔ اگر معاملہ مغربی ممالک کے مفادات کا ہو تو یہ فوری حرکت میں آجاتی ہے جیسے یوکرین کے معاملے میں روس کے خلاف فیصلہ اور ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف فیصلہ۔ اس سارے تناظر میں یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں طاقتور کا قانون چلتا ہے۔ اکثر عالمی اداروں پر امریکہ اور یورپی طاقتیں قابض ہیں۔
اقوام متحدہ ہو یا آئی ایم ایف، عالمی عدالت ہو یا ہیومن رائٹس واچ ان سب کا جھکاؤ اسی طرف ہوتا ہے جہاں طاقت، دولت اور مفاد کی بات ہوتی ہے۔ آج دنیا جس گلوبل پاور اسٹرکچر کے تحت چل رہی ہے وہ مکمل طور پرمغربی تہذیب کی برتری پر مبنی ہے۔ مغرب نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ فکری، تعلیمی، سائنسی اور اقتصادی سطح پر بھی اپنی برتری قائم کیے ہوئے ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ دنیا کے ذہنوں کو اس قدر مسخ کر چکے ہیں کہ وہ جسے چاہیں دہشت گرد ڈکلیئر کردیں اور جسے چاہیں امن کا پیامبربنا دیں۔
اس سارے منظرنامے میں مسلم دنیا کمزور، منتشر اور مغلوب دکھائی دیتی ہے۔ آج مسلم ممالک میں علمی مرکزیت باقی ہے نہ عسکری خودمختاری، اقتصادی آزادی ہے نہ سیاسی وحدت۔ اخلاقی پستی نے مسلم معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ فرقہ واریت، قومی تقسیم اور مفادات کی جنگ نے امت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے اور عدالتیں جب کسی مسلم ملک یا رہنما کے خلاف فیصلہ کرتی ہیں تو امت مسلمہ اس پر مشترکہ ردعمل دینے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔
مسلم دنیا کے لیے لازم ہے کہ وہ ردعمل کی نفسیات سے نکل کر تعمیری، فکری، سائنسی اور عسکری ترقی کی لیے پالیسیز اپنائے۔ نوجوان نسل کو کریٹیکل تھینکنگ، سائنس و ٹیکنالوجی اور گلوبل انگیجمنٹ جیسے میدانوں کے لیے تیار کرے۔ یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور تعلیمی نظام کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر خودمختاری اور خودی کی راہ پر استوار کرے۔ اب مسلم دنیا کو یہ باور کرلینا چاہیے کہ اسلامی تہذیب کا احیاء محض ماضی پر فخر کرنے سے نہیں بلکہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق عمل، تحقیق، اتحاد اور قیادت کے اوصاف پیدا کرنے سے ممکن ہوگا۔