"ہم نے چالیس سال آپ کی خدمت کی، ہم نے اس خدمت میں پورا ملک برباد کر لیا لیکن آپ آج بھارت کی گود میں جا بیٹھے ہیں کیوں؟" افغان وزیر نے ہنس کر جواب دیا: "ہمارے پاس جب پاکستانی آتے ہیں تو ان کے بریف کیسوں سے مشورے نکلتے ہیں جب کہ بھارتی لوگ بریف کیسوں میں نوٹ بھر کر لاتے ہیں لہٰذا تم خود بتائو ہم تمہاری بات سنیں یا بھارت کی!" یہ ایک پاکستانی کے سوال پر افغان وزیر کا جواب تھا۔ اس جواب کے تناظر میں آپ موجودہ افغان طالبان کا ڈی این اے، پیسے کی حرص، ہوس اور احسان فراموشی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ آپ موجودہ طالبان کے ڈی این اے کا مشاہدہ ایک اور واقعے سے بھی کر سکتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی دور میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہمیں شمالی اتحاد سے تعلقات بہتر کرنے چاہئیں، کابل میں موجود پاکستانی سفیر شمالی اتحاد کے مرکز میں جانے لگے، پاکستان کا سفارتی عملہ احمد شاہ مسعود کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھاتا تھا اور اس کے صاحب زادے احمد مسعودسے ملاقاتیں بھی کرتا تھا، یہ خبر افغان صدر حامد کرزئی تک پہنچ گئی، انہوں نے پاکستانی سفیر کو بلا کر کہا: "آپ کا کیا خیال ہے آپ اب شمالی اتحاد کو بھی خرید لیں گے"۔
سفیر نے احترام سے جواب دیا: "سر! ہم نے اس سے قبل کس کو خریدا ہے؟"۔ حامد کرزئی کا جواب تھا: "آپ لوگوں نے برہان الدین ربانی اور حکمت یار کو خریدا تھا"۔ سفیر نے جواب دیا "سر! ہو سکتا ہے یہ واقعہ ماضی میں ہوا ہو لیکن جب سے آپ آئے ہیں یا میں کابل میں موجود ہوں ہم نے کسی کو خریدنے یا بیچنے کی کوشش نہیں کی"۔ حامد کرزئی نے مسکرا کر جواب دیا: "آپ جنرل کیانی کو میرا پیغام پہنچا دیں کہ آپ لوگ افغانوں کو خرید نہیں سکتے، آپ انہیں صرف کرائے پر حاصل کر سکتے ہیں۔ "
آپ احسان فراموشی کی ایک اور مثال دیکھیے، موجودہ طالبان حکومت کے تمام اہم لوگ 20 سال تک پاکستان میں پناہ گزین رہے اور ان کی حفاظت کے لیے پاکستان نے جتنا دباؤ برداشت کیا وہ ایک ناقابل یقین کہانی ہے۔ پاکستان نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان کی شوریٰ کے 25 ارکان کو اپنے پاس محفوظ رکھا۔ موجودہ افغان حکومت کے 34 گورنر، طالبان کی شیڈو گورنمنٹ کے 16 وزراء اور طالبان فوج کے 500 کمانڈرز پاکستان میں چھپے رہے۔
پاکستان نے طالبان کے 54 ہزار زخمیوں کا علاج بھی کیا، یہ سلسلہ 21 سال چلا اور اس دوران پاکستان نے ان کو رقم بھی دی، رہائش گاہیں بھی، راشن بھی اور سکیورٹی بھی۔ 2018ء میں جب دوحا میں مذاکرات شروع ہوئے تو 165 ملاقاتیں ہوئیں اور ان لوگوں کو پاکستان اپنے اخراجات پر قطر لے جاتا اور ان کی میٹنگز کراتا رہا۔ موجودہ حکومت کے تمام وزراء پاکستان میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پاکستانی اداروں اور مدارس میں تعلیم حاصل کی لیکن آج یہ پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے بھی آمادہ ہیں۔
آپ موجودہ طالبان حکومت کی حرص و ہوس کا اندازہ اس سے بھی کر سکتے ہیں کہ امریکا یو این کے ذریعے ہر ہفتے افغانستان کو 40 ملین ڈالر دیتا رہا ہے۔ یہ رقم کینیا کے ذریعے کابل پہنچائی جاتی تھی۔ ہر ہفتے نیروبی سے یو این کا خصوصی جہاز کابل آتا تھا، اس سے 40 ملین ڈالر کے باکس اتارے جاتے تھے اور یہ رقم افغانستان کے ریزرو بینک میں جمع کرا دی جاتی تھی۔ یو این بعد ازاں ریزرو بینک سے افغانی کرنسی نکال کر این جی اوز کو دے دیتا تھا اور یہ طالبان حکومت کے لیے امریکا کی سیدھی سادی مدد تھی۔ یہ تو ٹرمپ تھا جس نے حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس ایڈ کو ختم کیا تھا۔
آپ اس حرص و ہوس کا مزید نظارہ کرنا چاہتے ہیں تو بھارت کو دیکھ لیں۔ بھارت ٹی ٹی پی کے لیے افغانوں کو بے بہا رقم دے رہا ہے۔ یہ افغانوں کو ہتھیار، ڈالر اورپاکستان کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر طرح کی سپورٹ فراہم کر رہا ہے اور موجودہ طالبان بھارت کے لیے کرائے پر دستیاب ہیں۔ یہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے مجاہدین کو دکھا کر چین سے بھی رقم اینٹھ رہے ہیں۔ یہ سی آئی اے کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں آپ ہمیں اتنی رقم دے دیں ہم القاعدہ کو سرحدوں سے دور ہلمند میں آباد کر دیتے ہیں، سی آئی اے رقم دے دیتی ہے، یہ القاعدہ کو ہلمند بھجوا دیتے ہیں لیکن چند ماہ بعد یہ سب واپس کابل آ جاتے ہیں اور اس کے بعد وصولیوں کا نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
چین کے ساتھ بھی تین سال سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، رقم لیتے ہیں، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے مجاہدین کو چین کی سرحد سے دور بھجواتے ہیں اور چند ماہ بعد یہ دوبارہ چین کی سرحد پر ہوتے ہیں۔ افغانوں کی اصل تاریخ، کردار اور ڈی این اے یہی ہے۔ باقی یہ جو خود کو غزنوی اور غوری کی اولاد کہتے ہیں اس سے بڑا جھوٹ بھی شاید ہی کوئی ہو۔ محمود غزنوی 971ء میں اگرچہ غزنی میں پیدا ہوا تھا لیکن یہ ترک باپ کا بیٹا تھا۔ دوسرا اہم نام شہاب الدین غوری ہے اور شہاب الدین غوری بھی افغانی نہیں بلکہ ایرانی تھا۔
موجودہ افغانستان کی بنیاد احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں رکھی تھی اور وہ بھی ملتان میں پیدا ہوا تھا۔ تین سو سال مغلوں نے حکومت کی اور وہ ازبک تھے اور ہم اگر اس میں تاتاریوں کو بھی شامل کر لیں تو افغانستان دو اڑھائی سو سال چنگیز خان اور ہلاکو خان کی اولاد کے قبضے میں بھی رہا اور وہ لوگ منگولیا کے رہنے والے تھے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں افغان آج جن جنگجوؤں کی مثالیں دے کر پاکستان کو للکار رہے ہیں ان میں سے کسی کا تعلق بھی افغانستان کے ساتھ نہیں تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان باز نہیں آتا تو کیا پاکستان افغانستان کو احسان فراموشی کا سبق سکھلا سکے گا؟ اس کا سیدھا جواب ہے کہ ہاں کیونکہ دنیا میں اگر کوئی ملک افغانستان کا ایکسپرٹ ہے تو اس کا نام پاکستان ہے۔ افغانوں نے اگر سوویت یونین کو شکست دی تھی یا امریکا 20 سال بعد افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوگیا تو اس کا سارا کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے۔ پاکستان نہ ہوتا تو سوویت یونین آج تک افغانستان کو ریت کا ٹیلہ بنا چکا ہوتا اور اگر پاکستان افغانوں کی مدد نہ کرتا، یہ طالبان کو زندہ نہ رکھتا تو آج یہ ملک امریکا کی ریاست ہوتا۔
افغانوں کی اہلیت کی یہ حالت ہے یہ 1992 میں روس کے جانے کے بعد چار برسوں میں لڑ لڑ کر مر گئے تھے اور کوئی متفقہ حکومت نہیں بنا سکے تھے اور یہ 2001ء میں بھی صرف 35 دنوں میں امریکا کے سامنے ہتھیار پھینک کر فرار ہو گئے تھے۔ اس لیے پاکستان ان کی حقیقت کو جانتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اپنے ہی بت اپنے ہاتھ سے توڑ دے لیکن محسوس ہوتا ہے افغان شاید پاکستان کی امن پسندی کو اس کی کمزوری سمجھ رہے ہیں۔ یہ اب بھی اگر باز نہیں آئے تو پاکستان کو انہیں احسان فراموشی کا سبق یاد دلانا پڑے گا اور موجودہ حالات کے تناظر میں لگتا ہے کہ ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔
نوٹ: اس کالم کی تیاری میں بعض اہم حقائق javedch.com سے لیے گئے ہیں۔