Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Muhammad Irfan Nadeem/
  3. Ghaza Ke Bache

Ghaza Ke Bache

کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایک ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو محض اس لیے بانہوں میں تڑپتا چھوڑ دے گی کہ اس کے پاس اسے پلانے کے لیے دودھ اور کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ غزہ کی گلیوں اور خیموں میں پچھلے کئی ہفتوں سے یہ قیامت روزانہ ٹوٹ رہی ہے۔ یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹس چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ غزہ میں پانچ لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور چالیس ہزار بچے بالکل موت کے منہ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔

ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بچوں کے جسم، اندر کو دھنسی آنکھیں، کئی دنوں سے بھوکے وجود، بے بس مائیں اور ہر طرف سے مایوسی کے سائے یہ اکیسویں صدی کا کربلا ہے۔ یہ صرف جنگ کا مارا ہوا غزہ نہیں بلکہ آٹھ ارب انسانوں کی اجتماعی بے حسی کا قبرستان بھی ہے۔ دنیا کے مختلف اخبارات، نیوز ایجنسیاں اور ابلاغی ادارے غزہ میں جاری قحط پر جو رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب تک غزہ میں غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں چالیس ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جن کی جانیں فوری خطرے میں ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امدادی راستوں کی بندش اور مسلسل بمباری کے باعث غزہ کے شمالی حصوں میں امداد نہ پہنچنے سے صورتحال مزید ابتر ہو چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جون کے وسط میں جاری رپورٹ کے مطابق غذائی قلت کے نتیجے میں روزانہ دو سے تین بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق شمالی غزہ کے ایک ہسپتال میں چار دن کے دوران سات نومولود بچے بھوک اور اس سے جڑی پیچیدگیوں کے باعث جاں بحق ہوئے۔ الجزیرہ کی جولائی کے پہلے ہفتے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کئی مائیں شدید کمزوری کے باعث اپنے نومولود بچوں کو دودھ پلانے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

رائٹرز کی ایک رپورٹ میں شمالی غزہ کی رہائشی ایک ماں کا انٹرویو شامل تھا جس میں ماں نے بتایا کہ اس کا تین ماہ کا بچہ دو دن سے کچھ کھا نہیں سکا اور اس کی سانسیں تیز چلنے لگی ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر بچے کمزوری کے باعث چل پھر بھی نہیں سکتے اور ماؤں کی گود میں ہی تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی امور کے کوآرڈینیشن آفس نے جون کے آخری ہفتے میں رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق غزہ کی ستر فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے اور دو لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر امداد کا راستہ نہ کھولا گیا تو صرف چند ہفتوں میں غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اے ایف پی کی جون کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہسپتالوں کے بچوں کے وارڈز بھر چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کچھ بچوں کا وزن دو ماہ کے بچے کے برابر ہے حالانکہ ان کی عمر چھ ماہ سے زیادہ ہے۔

پاکستانی اخبار ڈان کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ہسپتالوں میں مریض بچوں کی قطاریں لگی ہیں مگر ڈاکٹرز کے پاس دوائیں اور خوراک ختم ہو چکی ہے۔ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بچے اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی رگوں میں ڈرپ بھی لگانا مشکل ہوگیا ہے۔ روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی مجموعی تعداد سات سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر مائیں خود بھی کئی دنوں سے بھوکی ہیں اور ایسے میں ان کے بچوں کی جان بچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

الجزیرہ کی جولائی کے پہلے ہفتے کی رپورٹ کے مطابق بعض مائیں بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا کھانا بھی انہیں دے رہی ہیں اور خود بھوکی رہتی ہیں۔ رپورٹ میں ایک تصویر شامل کی گئی جس میں ایک ماں اپنے نومولود کو دیکھ رہی ہے جس کی آنکھیں آدھی بند ہیں اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہسپتالوں کے باہر سیکڑوں خاندان خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں خوراک، پانی اور دوائیں کچھ بھی دستیاب نہیں۔

یہ محض رپورٹس نہیں یہ آٹھ ارب انسانوں کی بے حسی کی اجتماعی داستان ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں ان کے پیچھے ان ماؤں کی چیخیں ہیں جو پانچ پانچ دن سے بھوکی پیاسی اپنے بچوں کو بانہوں میں لیے بیٹھی ہیں اور ان کے لیے ایک گھونٹ دودھ تک میسر نہیں۔ ان کے پیچھے ان باپوں کی ٹوٹتی ہوئی امیدیں ہیں جو روزانہ کسی معجزے کی آس میں ہسپتالوں کے دروازوں پر کھڑے رہتے ہیں مگر خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں۔

یہ صرف اخبار کے صفحات پر لکھے ہوئے ہندسے نہیں ہیں بلکہ یہ ان بچوں کے رکے ہوئے سانسوں کی گنتی ہے جو دودھ اور دوا کے انتظار میں مائوں کی بانہوں میں سسک سسک کر جان دے رہے ہیں۔ یہ ان قبروں کے اعداد و شمار ہیں جو غزہ کی زمین پر ہر روز تازہ کھو دی جا رہی ہیں اور ان میں پھول جیسے معصوم بچوں کو دفن کیا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار وہ ننگی حقیقت ہیں جوچیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ انسانیت کا زوال کتابوں میں لکھی ہوئی کوئی کہانی نہیں رہا بلکہ یہ غزہ کی گلیوں میں کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور یہ اعداد و شمار خبردار کر رہے ہیں اگر آٹھ ارب انسانوں کے ضمیر نہ جاگے تو عنقریب یہ زمینی سیارہ کسی بہت بڑے حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran