1187ء کی حطین کی جنگ میں شاندار فتح کے بعد بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کے قبضے میں آ گیا۔ یورپی کلیسا کیلئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا، پورے یورپ میں کھلبلی مچ گئی، عیسائیوں نے اسے اپنی بڑی شکست سمجھا اور تیسری صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔
تیسری صلیبی جنگ کی قیادت انگلستان کا مشہور بادشاہ رچرڈ دی لائن ہارٹ کر رہا تھا، رچرڈ اپنی تلوار اور بے خوف سپاہ گری کی وجہ سے مشہور تھا، وقت کے دو عظیم سپہ سالار آمنے سامنے تھے، ایک طرف صلیب کا محافظ رچرڈ اور دوسری طرف اسلام کا سپاہی سلطان صلاح الدین ایوبی۔ عین جنگ کے دوران خبر پھیل گئی کہ رچرڈ شدید بیمار ہوگیا ہے، سلطان تک خبر پہنچی تو اس نے جنگ روکنے کا اعلان کر دیا۔
سلطان نے اپنے شاہی طبیب کو حکم دیا کہ وہ رچرڈ کے پاس جائے اور اس کی تیمار داری کرے۔ سلطان نے برف سے بھرے برتن اور تازہ پھل بھی رچرڈ کے کیمپ میں بھجوائے تاکہ رچرڈ جلد صحت یاب ہو سکے۔ رچرڈ نے سلطان کے شاہی طبیب کو دیکھا تو حیرت اور تشکرکے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا: "سلطان صرف میدان جنگ کا شاہ سوار نہیں بلکہ انسانیت کے میدان میں بھی بے مثال ہے"۔ سکندر اعظم کے سامنے راجہ پورس کو قیدی بنا کر لایا گیا تو سکندر نے پوچھا: "تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟" راجہ نے جواب دیا: "بادشاہوں جیسا"۔
سکندر نے راجہ کو آزاد کرکے اسے اپنا دوست بنا لیا اور سلطنت واپس کر دی۔ چنگیز خان سلطان جلال الدین خوارزم کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے سندھ تک پہنچ گیا، سلطان نے چنگیز خان کے لشکر کو قریب آتا دیکھ کر دریا میں چھلانگ لگا دی، سلطان کو دریائے سندھ کی بے رحم موجوں سے لڑتے ہوئے دیکھ کر چنگیز خان سلطان کی جرأت کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا، اس نے سلطان کی جرأت و بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے بیٹوں سے کہا: "کاش میرے پاس بھی ایسے بیٹے ہوتے"۔
تاریخ کی یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ دشمنی میں بھی ایک اخلاقی قدر اور اصولی دائرہ ہونا چاہیے۔ جنگوں کی بھی کچھ اخلاقیات اور اصول ہونے چاہئیں۔ تاریخ ہمیشہ انہی کرداروں کو زندہ رکھتی ہے جو دشمن کو کم ظرفی سے نہیں بلکہ بڑے دل اور بڑے ظرف کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ طاقت کا اصل استعمال اسی وقت معنی رکھتا ہے جب وہ انسانیت کے اصولوں کے تابع ہو ورنہ فتح بھی ذلت میں بدل جاتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اللہ دشمن بھی دے تو بڑے ظرف والا دے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی تاریخ دھوکے اور سازشوں سے بھری ہوئی ہے لیکن حالیہ دنوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دشمنی کو جس پست سطح تک گرایا ہے وہ انسانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ ریاستوں اور اقوام کے مابین دشمنیاں اور جنگیں ہوتی رہتی ہیں لیکن دشمنی اور جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ جنگ کے قوانین، انسانی ہمدردی کے ضابطے اور معاہدے اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ دشمنی کے باوجود انسانیت باقی رہے۔ لیکن مودی جیسے کم ظرف، جاہل اور بد نیت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک انسانیت کا احترام ہے نہ جنگ کا کوئی اصول ہے۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب کے پیچھے اصل وجہ مودی کی کم ظرف اور بد نیتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق 25 جولائی تک بھارت کے ڈیم 43 فیصد بھرے تھے، یکم
اگست تک یہ مقدار 55 فیصد تک ہو چکی تھی۔ یکم اگست سے 25 اگست تک بھارت خاموشی کے ساتھ اپنے ڈیم بھرتا رہا اور پاکستان کے ساتھ کوئی ڈیٹا شیئر نہیں کیا۔ یہ سب انڈس واٹر ٹریٹی کے خلاف تھا جس کے تحت بھارت کو لازم تھا کہ وہ پاکستان کو پانی کی صورتحال اور ڈیموں میں ہونے والی تبدیلیوں کی بروقت اطلاع دے۔ مزید برآں 17 اگست کو بھارت کو کلاؤڈ برسٹ کی پیشگی اطلاع بھی ہو چکی تھی لیکن اس نے اس حوالے سے بھی اس نے پاکستان کو آگاہ نہیں کیا۔ یہ وہ بدنیتی تھی جس نے لاکھوں پاکستانیوں کو بے گھر کیا اورہزاروں ایکڑ فصلوں کو تباہ کر ڈالا۔
اگر بھارت چاہتا تو یکم اگست سے 22 اگست تک ذخیرہ شدہ پانی بتدریج چھوڑ سکتا تھا اور یہ پانی پاکستان میں معمولی مقدار میں آ کر جذب ہو جاتا لیکن مودی حکومت نے جان بوجھ کر ڈیم 87 فیصد تک بھر لیے۔ پھر جیسے ہی ڈیم اپنی انتہا کو پہنچے، بھارت نے اچانک 26 اگست کو پاکستان کو وارننگ دی اور دریائے ستلج میں ایک لاکھ کیوسک پانی کا ریلا چھوڑ دیا۔ اسکے ساتھ دریائے بیاس اور راوی جو انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق بھارت کے حصے میں ہیں، ان کا ذخیرہ شدہ پانی بھی پاکستان کی طرف بہا دیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا۔ یہ کوئی اتفاقی عمل نہیں تھا بلکہ مودی نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو "آبی دہشت گردی" کا نشانہ بنایا۔
مودی نے پاکستان دشمنی میں انتہا پر جا کر ثابت کر دیا کہ وہ دشمنی کے میدان میں بھی کم ظرف واقع ہوا ہے۔ اس کی سیاست اور کم ظرفی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کے نزدیک انسانیت کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کے نزدیک اگر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے لاکھوں بے گناہ پاکستانیوں کو ڈبونا پڑے تو یہ بھی درست ہے۔ یہی وہ کمینہ پن اور جہالت ہے جو مودی کو عالمی سطح پر ایک ناپسندیدہ اور بدنما چہرہ بنا کر پیش کر رہی ہے۔ مودی کے اس طرز عمل کو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی برادری بھی دیکھ رہی ہے۔
مودی کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان کے گاؤں اور شہر ڈوب رہے ہیں، لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو رہے ہیں، بچے اور عورتیں کھلے آسمان تلے پانی کے ریلوں میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ایسے وقت میں بھارتی میڈیا اور حکومتی ایوانوں میں ایک عجیب سی خاموش خوشی ہے۔ یہ خوشی اس بات پر ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچا ہے۔ مودی یہ بھول گیا ہے کہ تاریخ میں اس جیسے کم ظرف حکمران کبھی عزت کے ساتھ یاد نہیں رکھے جاتے۔ وہ یہ بھول گیا ہے کہ ملکوں اور قوموں کی عزت و عظمت یہ نہیں کہ آپ دشمن کو غیر انسانی طریقے سے نقصان پہنچائیں بلکہ اصل عظمت یہ ہے کہ دشمنی میں بھی انسانیت کا احترام اور وقار کو قائم رکھیں۔ مودی کی یہ نیچ حرکتیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ ایک بڑا لیڈر تو دور کی بات ایک ذمہ دار حکمران کہلانے کے بھی لائق نہیں ہے۔
طاقت وقتی ہے اور سیلابی ریلے لمحاتی ہیں لیکن کردار اور انسانیت کی اصل بنیادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ مودی نے پاکستان دشمنی کو جس کم ظرفی، بدنیتی اورکمینگی کے ساتھ ظاہر کیا ہے وہ تاریخ میں ہمیشہ بُرے لفظوں میں یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے جو حربے اس نے اختیار کیے ہیں وہ وقتی طور پر تو شاید اس کیلئے خوشی کا باعث ہوں لیکن طویل مدت میں یہ اس کی اپنی سیاسی اور اخلاقی موت کا سبب بنیں گے۔