Tuesday, 16 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Sethi/
  3. Imran Khan Ki Kamyabi Our Nakaami

Imran Khan Ki Kamyabi Our Nakaami

حالیہ گیلپ پول نے دلچسپ نتائج ظاہر کیے۔ رائے دینے والے افراد کی اکثریت نے جاوید ہاشمی کے پی ٹی آئی کو چھوڑ جانے کے فیصلے کی حمایت کی اور اس تاثر سے اتفاق کیا عمران خان کے دھرنے کے پیچھے کوئی "تیسری قوت" ضرور موجود ہے۔ اسی طرح اکثریت کی رائے تھی کہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کو اسلام آباد کے ریڈزون میں داخل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ رائے دینے والے اس بات پر متفق تھے کہ پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کرنے والے کارکنوں کا تعلق انہی دونوں جماعتوںسے تھا اور یہ کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے احتجاجی مارچ کو پرامن ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ اس سروے میں عوام کی اکثریت کا خیال تھا کہ دھرنوں نے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔ اہم بات یہ تھی کہ رائے دینے والے اس پس منظر میں میڈیا چینل کے کردار پر منقسم دکھائی دئیے۔ دو ٹی وی چینلوںکے کردار کو متضاد سوچ رکھنے والے افراد نے مثبت بھی قرار دیا اور منفی بھی۔ رائے دینے والوں کی اکثریت نے اس تمام معاملے میں شیخ رشید کو ان کے مشکوک، بلکہ قابل ِ اعتراض کردار کی وجہ سے منفی رائے سے نوازا۔ ساٹھ فیصد کا خیال تھاکہ اگر عمران خان نواز شریف سے استعفیٰ لینے، جو ان کا اہم ترین مطالبہ ہے، میں ناکام رہے تو اس سے ان کے سیاسی کیرئیر پر بہت منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ اصل مسلہ یہی ہے۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ پی ٹی آئی کی نظر کسی تیسرے امپائر کی متوقع طور پر اٹھنے والی انگلی کی طرف تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوا، اس لئےدھرنا ناکام ہوگیا۔ اس کے باوجود ہر کسی کا کہنا ہے کہ دھرنے سے وزیر ِ اعظم کے استعفے کے بغیر واپسی عمران خان کی سیاست کیلئے موت کی گھنٹی کے مترادف ہوگی، کیونکہ اسکا مطلب اپنی ناکامی، بلکہ شکست کا اعتراف ہوگا۔ اس سے ہمیشہ جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے افراد کو متاثر کرنیوالے کپتان نما لیڈر کی شخصیت کی ساکھ بری طرح مجروح ہوگی۔ درحقیقت دھرنے کے دوران ایسا موقع آیا تھا جب عمران خان شریف حکومت کو اپنے اہم مطالبات، وزیر ِ اعظم کے استعفے کے سوا، منوانے کی پوزیشن میں تھے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ہیرو بن کر واپس لوٹ سکتے تھے۔ ان کا دبائو حکومت پر برقراررہتا کہ اگر حکومت نے معاہدے کی ہلکی سی بھی خلاف ورزی کی تو ان کے جوشیلے جوانوں کی فوج پھر ریڈ زون میں داخل ہونے کیلئے اسلام آباد پر چڑھائی کردے گی، لیکن حقائق سے آنکھیں چرانے اور اپنی غلطی تسلیم نہ کرنے کی عادت نے وہ موقع گنوا دیا، چنانچہ عمران کو آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ اب اگر وہ دھرنے سے اٹھ جاتے ہیں تو بھی ان کے لئے خرابی ہے اور اگر نہیں اٹھتے تو بھی۔ اُنھوںنے دھرنے سے نہ اٹھنے کا آپشن چنا ہے۔ دھرنے کے جوش و جذبے کو برقرار ر اور میڈیا کو اپنے سحر میں مبتلا رکھنے کیلئے اُنھوںنے ملک بھر میں متاثر کن جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا میڈیا کے ذریعے تواتر سے نشر ہونے والا پیغام ...."بدعنوانی، دھاندلی اور شریف اور زرداری کا احتساب نہ ہونا ہی اس ملک کے مسائل کی تمام وجہ ہے"....عوام کو ازبر ہوچکا ہے۔ عمران خان کا دہرایا جانے والے موقف یہی ہے کہ اگر ان دونوں روایتی جماعتوںسے نجات حاصل کرلی جائے تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں "بدعنوان" جماعتوںسے نجات حاصل کرنے کے لئے ملک میںتازہ انتخابات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ 2013 کے انتخابات مکمل طور پر دھاندلی زدہ تھے۔ درحقیقت عمران خان کے پاس اپنے نوجوانوں کو جوش دلانے کے لئے صرف دھاندلی، بدعنوانی اور احتساب کے نعرے ہی ہیں۔ وہ فی الحال ملک کو معاشی یا سیاسی پالیسی دینے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ آزادی اور انقلاب کے داعی ضرور ہیں لیکن وہ کوئی بھی متبادل نظام پیش کرنے میں کامیاب نہیںہوئے ہیں۔ ان معاملات میں مبہم ہونے کے علاوہ وہ خود کو "مسٹر کلین " قرار دیتے ہوئے اگلا وزیر ِ اعظم سمجھنے لگتے ہیں جن کے ایوان میں قدم رکھتے ہی تمام ملک میں بدعنوانی اور جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تاہم فکری دلائل ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ اگر ان کا غیر جانبدارہوکر تجزیہ کیا جائے تو دکھائی یہی دیتا ہے کہ وہ ذاتی اور سیاسی زندگی میں تضادات کا مجموعہ ہیں۔ تاہم اس سے ان کے حامیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ان کو ایک مافوق الفطرت ہیرو سمجھتے ہیں جو کوئی غلط قدم اٹھا ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ کسی کو پسند کریں تو ان کے حامی اس کی تعریف میں دریا بہا دیں گے، اور اگر اگلے دن خان صاحب اُس سے ناراض ہوجائیں تو ان کے حامی اسے بیک جنبش ِ قلم ملعون قرار دے ڈالیںگے۔ یہ ہے وہ"ذہنی آزادی " جو اس پاکستان میںلائی جارہی ہے۔ اقتدار میں تبدیلی سے مکمل نظام کی تبدیلی کا تصور پاکستانی سیاست میں نیا شامل ہوا ہے حالانکہ اس کا تجربہ اب تک ناکام ثابت ہوا ہے۔ انگلینڈ میں ٹونی بلیئر، امریکہ میں باراک اوباما اور مصر میں محمد مرسی تبدیلی کے ہی دعویدار تھے۔ مشرق ِ وسطیٰ میں انتہا پسند اسلامی تنظیم داعش کا ابھرنا بھی انقلابی تبدیلی ہے۔ چونکہ ملک میں سیاسی اور معاشی نظام مفلوج ہوچکا تھا اس لیے وہاں خونریزی اور افراتفری کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ مسلح جتھے تبدیلی کے نام پر قدیم نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں نہ تو عمران خان اور نہ ہی طاہر القادری نے اپنے انقلاب کی تشریح کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ایسا کرتے ہوئے وہ خودساختہ اخلاقی چوٹی سے نیچے گر جاتے۔ ان کا اصل مقصد صرف اقتدار پر قبضہ کرنا ہے لیکن اس کے لئے وہ رات دن الف لیلیٰ گھڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پی ایم ایل (ن) بھی ذہنی طور پر اتنی فعال اور تخلیقی نہیں کہ وہ عمران خان اور طاہرالقادری کی جھوٹی اخلاقی تبدیلی کا بھرم چاک کرسکے۔ ان کے پاس بھی پی پی پی کی طر ح کوئی حکمت ِ عملی نہیں۔ حکومت نے مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بیروزگاری اور لاقانونیت کے ہاتھوں ستائے ہوئے شہریوں کو کوئی ریلیف فراہم کرنے کی کوئی کوشش نہیںکی۔ اس پر قہر یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر ایک خاندان کی حکومت کے تاثر نے ایٹمی چین ریکشن کا کام کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناکامی کے باوجود عمران خان کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

About Najam Sethi

Najam Sethi is the 16th and former (caretaker) chief minister of Punjab. He is an award winning Pakistani journalist, editor, and media personality, the editor-in-chief of The Friday Times, a Lahore based political weekly, and previously the editor of Daily Times and Daily Aajkal newspapers. He also has a popular current-affairs program on Geo TV called "Aapas ki Baat" and owns Vanguard Books, a publishing house and chain of bookstores.

In 1999, he was arrested by Inter-Services Intelligence following an interview with the British Broadcasting Corporation on government corruption, and detained for almost a month without charges. In 2008 and 2009, he was subject to death threats from Islamist groups for his papers' anti-fundamentalist stances.

Sethi won the 1999 International Press Freedom Award of the US-based Committee to Protect Journalists and the 2009 World Association of Newspapers' Golden Pen of Freedom Award.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran