تلخ سہی مگر حقیقت یہی ہے کہ بڑے صوبوں نے اپنی اپنی پارٹیاں چن لی ہیں اور ان پارٹیوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں چاہے وہ ایک دوسرے کی اتحادی ہی کیوں نہ ہوں۔ سندھ کی نمائندگی پیپلزپارٹی کے پاس ہے، پنجاب کی مسلم لیگ نون اور خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی کے پاس، بلوچستان اپنے سرداروں کے ساتھ جاتا ہے یعنی سردار جس پارٹی کی طرف جاتے ہیں بلوچستان کے ووٹروں کی اکثریت اسی طرف چلی جاتی ہے اور وہ پارٹی جیت جاتی ہے۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان سیاسی جماعتوں میں ٹکراو ہوتا ہے تو وہ صوبوں کا ٹکراو بن جاتا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ یہی کچھ ستر، اکہتر میں ہوا تھا جب مغربی پاکستان نے پیپلزپارٹی ا ور مشرقی پاکستان نے عوامی لیگ کو مینڈیٹ دیا تھا۔ یہ ٹکراو دو سیاسی جماعتوں کا تھا جس میں پیپلزپارٹی نے اس وقت عوامی لیگ کی مشرقی پاکستان کی بنیاد پر اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ادھر ہم ادھر تم، کا نعرہ لگایا تھا اور بھارتی مداخلت کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا تھا۔
ہم سب نے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے وفاق اور پنجاب پر چڑھائیاں بھی دیکھی ہیں اور انہیں خیبرپختونخوا کی چڑھائیاں بھی کہا گیا ہے کیونکہ اس صوبے کے وزیراعلیٰ نے اپنی پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں کو ایک سیاسی تحریک میں استعمال کیا جس کا وہ آئینی اور قانونی اختیار نہیں رکھتے تھے حالانکہ نصف سے زیادہ خیبرپختونخوا پی ٹی آئی کی پالیسیوں کے ساتھ اتفاق نہیں رکھتا مگر نصف کے قریب تو بہرحال رکھتا ہے اور یہی صورتحال سندھ میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کے حوالے سے ہے۔ لڑائیاں سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہیں اور وہ بنا صوبوں کی دی جاتی ہیں تو اس پر میرا سوال ہے کہ یہ سب کب تک چلے گا۔
پیپلزپارٹی کو بطور سیاسی جماعت یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے نظریات اور کارکردگی پر تنقید کرے مگرسندھ کو بطور صوبہ یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پنجاب کی طرف انگلی اٹھائے اور پیپلزپارٹی کا یہ حق اس وقت مزید محدود ہوجاتا ہے جب وہ اتحادی جماعت کے طور پر وفاق اور پنجاب میں بیٹھی ہوتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دوست کہتے ہیں کہ اتحادی ضرور ہیں مگر حکومت کا حصہ نہیں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ نون نے وفاق اور پنجاب میں شئیر دینے سے انکار کیا، ہرگز نہیں، شہباز شریف بار بار پیپلزپارٹی سے کہتے رہے کہ وہ اپنے وزرا نامزدکرے مگر یہ عجیب وغریب فیصلہ جناب آصف علی زرداری کا تھا جنہوں نے اپنے لئے تو صدر کا عہدہ لے لیا مگر اپنے کارکنوں کو وزارتیں نہیں لینے دیں۔ اب اس پر اگر کسی جیالے کو شکوہ ہے تو وہ صدر زرداری سے ہونا چاہئے، شہباز شریف یا مسلم لیگ نو ن کے کسی دوسرے رہنما سے نہیں۔
عوامی سطح پر تاثر کے مطابق پیپلزپارٹی سمجھتی تھی کہ شہبا زشریف یا مسلم لیگ نون ملکی اقتصادی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام ہوجائے گی اور اس طرح پیپلزپارٹی نہ صرف سندھ بلکہ وفاق میں بھی پاور شئیرنگ کے مزے تو لے گی مگر ناکامی کی صورت میں اپنا دامن جھاڑ کے ایک طرف ہوجائے گی مگر ہوا کچھ یوں کہ سب کچھ ان کی امیدوں اور توقعات کے برعکس ہوگیا بلکہ کچھ زیادہ ہی الٹا ہوگیا کہ صدر آصف زرداری اپنے بچوں کے ساتھ چین کے دس روزہ دورے پر تھے کہ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے ہی نہیں بلکہ سات دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر غزہ کی صورتحال پرڈونلڈ ٹرمپ کو رام کر لیا اور وہ پیپلزپارٹی جو ناکامیوں کا بوجھ اٹھانے سے بھاگ رہی تھی کامیابیوں کے تاج سے بھی محروم ہوگئی۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ ہوتے تو وہ اس وقت مسکرا مسکرا کر بہت سارے کریڈٹ لے رہے ہوتے۔ پیپلزپارٹی کو افسوس تو ہو رہا ہوگا کہ چالاکی گلے پڑ گئی، بلاول بھٹو زرداری محروم رہ گئے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، پنجاب نے قیام پاکستان سے لے کر آ ج تک اپنے خلاف ہونے والے کسی پروپیگنڈے کا جواب نہیں دیا اور اس وقت بھی خاموش رہا جب اس کے بیٹوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں ماری جاتی رہیں۔ وہ خوشی خوشی این ایف سی ایوارڈ سے اپنا چھ فیصد حصہ تک چھوٹے بھائیوں کو دیتا رہا جو اڑھائی کھرب روپوں کے لگ بھگ بنتا ہے حالانکہ وسائل کی تقسیم افراد کے مطابق ہی ہوتی ہے، یہ کسی کی مالی حالت دیکھ کر نہیں ہوتی کیونکہ مالی حالت دیکھ کر انصاف نہیں ہوتا، خیرات ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مریم نواز پہلی وزیراعلیٰ ہیں جنہوں نے پنجاب پر اٹھنے والی انگلی کو توڑنے کا اعلان کیا ہے جس پر وہ عشروں سے پنجاب کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے پریشان ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ پنجاب کی توہین کو دوسرے صوبوں نے اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ پنجاب کی قیادت اگر پنجاب کو ترقی دیتی ہے اور دوسرے صوبوں میں پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی قائم علی شاہ اور علی امین گنڈا پور جیسے وزرائے اعلیٰ دیتی ہے تواس میں پنجاب کا کیا قصور ہے۔ پنجاب اگر اپنے بچوں کو (بلکہ دوسرے صوبوں کے بچوں کو بھی) ہونہار سکالر شپ، لیپ ٹاپ دے رہا ہے، یہاں اورنج لائن، ٹرام، میٹروز اور موٹرویز بن رہی ہیں اور دوسرے صوبوں میں ا گر ستر کی دہائی کے ماڈل والی بسیں چل رہی ہیں تو اس میں پنجاب کا کیا قصور ہے۔ میں آ پ کو سچ بتائوں کہ پنجاب کے گندے نالے بھی کراچی کی سڑکوں سے زیادہ صاف ہیں اور اس کامشاہدہ ابھی دو چار روز پہلے میں نے ہڈیارہ ڈرین پر کیا ہے۔
پنجاب میں سیلاب آیا تو وزیراعلیٰ مریم نواز ایک ماں، ایک بہن، ایک بیٹی کے طور پر اپنے عوام کے ساتھ تھیں۔ ان کی محنت کی تعریف خود بلاول بھٹو زرداری نے کی مگر پیپلزپارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت کا رویہ بہت افسوسناک رہا۔ دوسرے صوبوں میں مصیبت آئے تو پنجاب ٹرکوں کے ٹرک امداد بھیجتا ہے مگر پنجاب میں مصیبت آئے تو وہاں ہتک آمیز اور نفرت آمیز ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں جو ناقابل قبول ہے۔ ا ب ایک بات تو طے ہوگئی کہ یک طرفہ طور پر پنجاب پر چڑھائی نہیں ہوسکے گی اور اگر کوئی ایک کہے گا توجواب میں اسے ایک سننی بھی پڑے گی۔
تمام صوبوں کو وفاق سے آبادی کی بنیاد پر یکساں فنڈز ملتے ہیں (بلکہ پنجاب کو چھ فیصد کم) اور اگر دوسرے اپنے عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترتے تو عوام کا حق ہے کہ ان سے سوال کریں، جواب مانگیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سب کے لئے یکساں عزت اور یکساں وسائل کی بنیاد پر صوبوں کے درمیان تعلقات کا ایک نیامعاہدہ کیا جائے۔ پنجاب عشروں سے گونگا رہا ہے مگر اب وہ گونگا نہیں رہے گا۔ پاکستان سب کا ہے، جنہوں نے اکہتر میں اکثریت کی عزت نہیں کی تھی اورپاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا، اب انہیں دوبارہ یہ غلطی نہیں دہرانی چاہئے اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہیں۔