Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Agar Aisa Punjab Mein Hota?

Agar Aisa Punjab Mein Hota?

اگر ایسا پنجاب میں ہوتا ہے کہ ایک مصروف شاہراہ پر دہشت گرد آتے، اس علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو تین، چار اہلکاروں کے ساتھ قتل کرتے، ان کا اسلحہ چھینتے، گاڑی کو آگ لگاتے اور دندناتے ہوئے فرار ہوجاتے تو آپ کی حکومتی اہلیت اور کارکردگی پر کیا رائے ہوتی اور معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہ ہوتابلکہ روزانہ دہشت گردی ہو رہی ہوتی، جیسے پانچ ماہ پہلے شمالی وزیرستان سے پہلے باجوڑ کے اے سی بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوچکے خدانخواستہ ایسا ہی پنجاب کے اضلاع میں بھی ہو رہا ہوتا تو کیا آپ اس امر کی حمایت نہ کرتے کہ پنجاب میں گورنر راج لگا دیا جائے۔

معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں کہ خیبرپختونخوا میں مسلسل دہشت گردی ہو رہی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہزارہ بیلٹ سے پرے حکومتی رِٹ زیرو ہوچکی ہے۔ پنجاب سے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف سے خیبرپختونخوا میں داخل ہوں اور آگے بڑھتے چلے جائیں تو وہاں عملی طور پر خوارج کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی عدالتیں لگاتے ہیں اور اپنے فیصلے جاری کرتے ہیں، ان کے بدمعاشوں کے گروہ ہی اپنے احکامات نہیں چلاتے بلکہ افسوسناک اطلاعات ہیں کہ ان تمام علاقوں میں، گڈ طالبان ہوں یا بیڈ طالبان، وہ تمام ترقیاتی منصوبوں پر اپنا د س فیصد جگا ٹیکس وصول کرتے ہیں یعنی اگر کوئی سکول یا پل دس کروڑ سے بن رہا ہے تو اس میں ایک کروڑ وہاں کے طالبان کی کمیشن ہے جس کو دینے سے کوئی مائی کا لعل انکار نہیں کرسکتا اور انکار بھی کیسے کرے کہ وہاں کے صوبائی وزراء کے بارے اطلاعات ہیں کہ وہ دہشتگردو ں کو بھتے دیتے ہیں اورپھر ان کے لائسنسوں یعنی اجازت ناموں پر کاروبار کرتے ہیں۔ وہاں نوگوایریاز عام ہیں، جی ہاں، صرف رات کے وقت نہیں بلکہ دن کے وقت بھی اور فکری مغالطوں کا حال یہ ہے کہ عوام دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، کچھ ڈر کے کچھ ساتھ مل کے۔ میں پھر پوچھوں گا کہ اگر یہ حالات پنجاب کے ہوتے تو کیا یہاں گورنر راج کی حمایت نہ کی جاتی؟

معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین اس لئے ہے کہ وہاں جس پارٹی کی حکومت ہے وہ دہشت گردوں کی سیاسی اور نظریاتی ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی دوست، محافظ اور سہولت کار ہے اور ان کے مقابلے میں امن کے لئے جانیں قربان کرتے ہوئے پاک فوج اور سیکورٹی فورسز کی دشمن، فوج پر نو مئی جیسے حملے کرتی ہوئی، سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور کردار کشی کی غلیظ مہم چلاتی ہوئی، جی ہاں، وہاں وہ پارٹی حکمران ہے جس نے اپنی وفاقی حکومت کے دور میں باقاعدہ طور پر افغانستان سے ہزاروں دہشت گرد لا کے خیبرپختونخوا میں بسائے۔

المیہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ جو جہاد کے نام پر دہشت گرد بن جاتا ہے تو وہ اس کا دھندا اور روزگار بن جاتا ہے۔ جب وہ اسلحہ اٹھا لیتا ہے، گولیاں چلانا اور بندے گرانا شروع کردیتا ہے تو اسے معمول کے کسی قانونی کاروبار اور روزگار میں نہ مزا ملتا ہے اور نہ ہی اتنا پیسہ۔ پھراس کے پاس یہی آپشن رہ جاتے ہیں کہ وہ سمگلر بن جائے، کرائے کا قاتل اور اغوا برائے تاوان کرنے والا بن جائے، منشیات کا دھندا شروع کر دے اور یہی کام خیبرپختونخوا میں ہوا۔ پی ٹی آئی دور میں لائے گئے ہزاروں دہشت گرد خیبرپختونخوا کے عوام کی زندگی کا سب سے بڑا عذاب بن گئے ہیں۔

یہ بات حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا کے عام لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ تمام غیر قانونی طور پر مقیم افغان واپس چلے جائیں تاکہ ان کی زندگیوں، گلیوں اور بازاروں میں امن آئے، ان کے حصے کاروبار آئے مگر خیبرپختونخوا کی حکومت ان غیرقانونی مقیم افغانوں کوواپس بھیجنے کی راہ میں ریاست کی پالیسی کے سامنے ایک دیوار بن کے کھڑی ہے۔ میرا پھر یہی سوال ہے کہ اگر یہ سب کچھ پنجاب کی حکومت کررہی ہوتی تو کیا آپ یہاں اس حکومت کو برقرارر کھنے کے حامی ہوتے یا گورنر راج کے نفاذ کے؟

آگے بڑھتے ہیں کہ معاملے کی سنگینی یہاں تک ہی محدود نہیں کہ خیبرپختونخوا کی نااہل اور عاقبت نااندیش حکومت اپنی ہی فوج اور سیکورٹی فورسز کی مخالف ہے، دشمن ہے بلکہ بدترین یہ ہے کہ وہ خود بھی کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کہتی ہے کہ فوج اس کے صوبے میں آپریشن نہ کرے مگر جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہاری اپنی پولیس کی اہلیت کیا ہے، اس کو کتنے وسائل فراہم کئے ہیں اور سب سے بڑھ کر سی ٹی ڈی میں کتنے لوگ ہیں جو تمہارے صوبے کے ساڑھے چار کروڑ عوام کی زندگیوں کا دہشت گردوں کے مقابلے میں تحفظ کر سکتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ صرف تینتیس سو۔ یہ تعداد بار بار کی تنقید کے بعد کچھ زیادہ ہوئی ہے کہ اس سے پہلے سی ٹی ڈی کی آپریشنل فورس سوا پانچ سو کے لگ بھگ تھی۔

مسئلہ سے جڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس حکومت کو جیل سے ایک سزایافتہ شخص کے ذریعے چلانے کی کوشش ہو رہی ہے جس کے پیش نظر نہ کوئی ملکی مفاد ہے اور نہ ہی قومی، وہ صرف ایک سو نوے ملین پاونڈ جیسے کرپشن کیس سے نکلنے کے لئے اپنی پارٹی اور حکومت کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ صوبائی حکومت کو وفاق پر حملوں کے لئے استعمال کرتا ہے تو دوسری طرف عشق پاکستان کی بجائے عشق عمران میں ڈوبا ہوا وزیراعلیٰ ہمیں اپنے صوبے کے عوام اور افسران کی جانیں بچانے کے لئے جان لڑانے کی بجائے ہر دوسرے روز دوسرے صوبے کی جیل کے سامنے پکنک مناتا اور موجیں اڑاتا نظر آتا ہے۔ میرا پھر یہی سوال ہے کہ اگر ایسا وزیراعلیٰ پنجاب کا ہوتا تو اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہوتی؟

سچ تو یہ ہے کہ گورنر راج نہ مارشل لا ہے اور نہ ہی غیر آئینی، یہ عین آئینی، قانونی اور عوامی ہے اگر یہ عوام کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ہے۔ آئین ریاست کی پہلی ذمے داری ہی یہ لگاتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرے اورباقی تمام آئینی قواعد اور ضوابط اسی کے تحت ہیں، اسی کو فالو کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا اس وقت بدترین دہشت گردی کا شکا ر ہے اور وہاں کی حکومت دہشت گردوں کی فکری اور نظریاتی ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی بھی سہولت کار ہے۔

اس صوبائی حکومت کی ملک دشمن پالیسیاں ہی نہیں بلکہ بدترین بیڈ گورننس بھی اس امر کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہاں پر گورنر راج لگایا جائے اور صوبائی مشینری اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے پاک فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز اپنے تمام علاقوں کودہشت گردوں سے پاک کریں کیونکہ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوگی نہ خیبرپختونخوا میں سرمایہ کاری آئے گی اور نہ ہی ہمارے ملک کے سب سے خوبصورت، جنت نظیر صوبے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحت کو فروغ مل سکے گا۔ مجھے اس وقت فکر بلوچستان کی بھی ہے مگر وہ خیبرپختونخوا کے مقابلے میں آدھی ہے کیونکہ وہاں پی ٹی آئی جیسی عوام اورملک دشمن حکومت نہیں ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran