نو مئی مقدمات میں یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ، احمد بھچر اور دیگر کودس، دس برس کی سزا ہونے کے ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے اور انہیں خود بھی اندازہ ہوگیا کہ وہ کس قسم کی سزا کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے سامنے توشہ خانہ یا 190 ملین پونڈ کیسز کی سزائیں مونگ پھلی ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز جو مرضی بڑھکیں مارتے رہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈھلوان کا جو سفر دس فروری 2022 کو شروع ہوا تھا اسے بانی پی ٹی آئی جیل میں رہتے ہوئے بھی کبھی فائنل کال، کبھی پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوششوں اور کبھی شیخ مجیب بننے کی خواہش کا اظہار کرکے مزید دھکے لگا رہے ہیں۔
9 مئی مقدمات میں تاحال دس مختلف شہروں میں ایک سو سے زائد پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی، عہدیداروں، کارکنوں کو سزائیں ہوچکی ہیں۔ یہ سزائیں ایک ایسا جال ہیں جس میں بانی پی ٹی آئی پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ جس پارٹی کے عہدیداروں، ارکان اور کارکنوں پر ملک بھر میں ایک جرم ثابت ہونے پر سزائیں ہوجائیں ان میں اس پارٹی کے بانی کا پھنس جانا کسی طور پر ناممکن یا مشکل نہیں ہے۔
اگر آپ تھوڑے سے بھی منطقی اور حقیقی انداز میں سوچیں تو آپ کو یہ ہرگز اتفاق نہیں لگ سکتا کہ درجنوں شہروں میں سیکڑوں لوگ ایک ساتھ ایک ہی ادارے کے عمارتوں پر چڑھ دوڑیں، وہاں توڑ پھوڑ کریں، آگ لگائیں اور اسے وہ اپنے لیڈر کی گرفتاری کے ساتھ کھلم کھلا جوڑ رہے ہوں۔ کسی کو اس پر شبہ ہے تو صنم جاوید سے لے کر خود عمران خان تک کے بیانات کو سن سکتا ہے جس میں واضح طور پر رینجرز اور فوج کو دھمکایا جا رہا ہے۔
میں نے بانی پی ٹی آئی کے حامی بہت سارے وکلا کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ وہ آن دی ریکارڈ کچھ اور بات کرتے ہیں اورآف دی ریکارڈ اپنی انتہائی کمزور قانونی پوزیشن کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ اپنے دفاع میں بہت ہی بھونڈے اور کمزور دلائل رکھتے ہیں جیسے یہ کہ وہ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس تک کیسے پہنچ گئے، ان کو روکا کیوں نہیں گیا۔ وہ جانتے ہیں اس غفلت پر فو ج میں تادیبی کارروائی ہوچکی ہے بلکہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ غفلت سے کچھ زیادہ چیز تھی۔
تجزیہ کاراس لئے غلط نہیں کیونکہ وہ اس کا پس منظر اور سیاق و سباق بھی جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے فیلڈ مارشل کی بطور آرمی چیف تقرری کو روکنے کے لئے ایک لانگ مارچ بھی کیا تھا جو پنڈی تک بھی نہیں پہنچ سکا تھا۔ بانی پی ٹی آئی کا فوج کے ادارے اور اس کے سربراہ کے حوالے سے تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا اور یہ ایک تسلسل میں تھا کہ وہ اس سے پہلے بھی انتہائی جسارت کرتے ہوئے اپنی ہی فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق کہہ چکے تھے۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فوج کے ادارے کا احترام کرتے تھے یا اب بھی کرتے ہیں کیونکہ ان کے روئیے کی اصل صورت ہمیں ان کے سوشل میڈیا کے ترجمانوں کے بیانات اور پوسٹس میں نظر آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ وہ محض سیاسی احتجاج نہیں تھا کہ اگر وہ سیاسی احتجاج ہوتا تو سیاسی عمارتوں اور شہری علاقوں ہوتا۔ میں نے کہا کہ وہ غفلت سے کچھ زیادہ چیز تھی تو دراصل وہ بغاوت کی باقاعدہ سازش تھی، وہ فوج کی سربراہی تبدیل کرنا چاہتے تھے اوراس کے بعد ملک میں حکومت۔ وہ ایک انقلاب کا خواب دیکھ رہے تھے اور سیاسی ماہرین اس پر متفق ہیں کہ ہر ناکام انقلاب ایک بغاوت ہوتا ہے اور ناکام بغاوت سر لے جاتی ہیں مگر یہاں ہمیں پاک فوج کو سراہنا ہوگا کہ اس نے آئین، قانون اور عدلیہ کا راستہ اختیار کیا۔
عمران خان کے وکلا کچھ ایسی سی سی ٹی وی فوٹیجز کا مطالبہ کر رہے ہیں جو شائد اپنا وجود ہی نہیں رکھتیں اور سب سے دلچسپ یہ ہے کہ وہ ان ویڈیوز کی موجودگی میں کچھ مبینہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کو بطور دلیل چاہتے ہیں جن میں ان کے عہدیدار اور کارکن کھلم کھلا فساد مچا رہے ہیں۔ ان کے وکلا عدالتی کمیشن کا مطالبہ بھی قوم کو کنفیوژ کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر وہ عدالت جس میں پی ٹی آئی کے تخریب کار کارکنوں کا مقدمہ چل رہا ہے وہ ایک عدالتی کمیشن ہی ہے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں انہیں انصاف نہیں مل رہا تو ان کے لئے آئین اور قانون موجود ہیں، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ بھی اپنی جگہ پر ہیں اور وہی حقیقی عدالتی کمیشن ہیں۔
میں واپس عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی طرف آتا ہوں۔ اگرچہ مجھے علم نہیں کہ فیض حمید سے ہونے والی تحقیقات میں عمران خان کس حد تک پھنستے ہیں مگر مجھے اتنا ضرور علم ہے کہ اگر کوئی معافی نہ ہوئی تو عمران خان اس میں ضرور پھنستے ضرور ہیں کیونکہ آئی ایس پی آر کی ایک سے زیادہ پریس ریلیزوں میں ان کے سیاسی رابطوں اور مقاصد کی تصدیق کی جا چکی۔
فیض حمید کے کورٹ مارشل کو ایک طرف رکھ دیجئے، لاہور ہائیکورٹ سے عمران خان کی نو مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانت کی منسوخی میں حکم کو دیکھئے، وہ صاف کہہ رہا ہے کہ عمران خان سازش میں ملوث ہیں اور وہ اپنی گرفتاری کی صورت میں اس کی منصوبہ بندی کرکے گئے تھے۔ اب آپ شروع میں دی ہوئی دلیل کی طرف دوبارہ آئیں کہ جس پارٹی کے عہدیدار، ارکان اسمبلی اور کارکن مجرم ثابت ہوجائیں اور ملک بھر میں ان کے درمیان ربط بھی ہو تو اس کا بانی ا س کا منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ ہونے سے کیسے انکار کر سکتا ہے جب وہ خود بھی بیان دے رہا ہوکہ اگر اسے دوبارہ پکڑا گیا تو پھر دوبارہ یہی کچھ ہوگا۔
پی ٹی آئی اس پوری صورتحال میں، جب اس کا ٹریک ریکارڈ ہی اسلام آباد میں آگ لگانے، لاہور میں پٹرول بم پھینکنے کاہو تو ایک دہشت گردتنظیم کے طور پر سامنے آتی ہے اور وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی ایک پرانی پریس کانفرنس اور دلائل دوبارہ تازہ ہوجاتے ہیں کہ اس پر پابند ی لگ سکتی ہے۔ نہ صرف پی ٹی آئی پر پابندی لگ سکتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے اس کے بانی کواس کے کارکنوں کی طرح صرف دس برس کی قید نہیں ہوگی بلکہ اس کی کم از کم سزا عمر قید ہوگی، یہ فقرہ دوبارہ پڑھ لیجئے کم از کم سزا عمر قید۔
ابھی ایک معاملہ اوربھی ہے جو عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر دس فروری دو ہزار بائیس کا سپریم کورٹ کا فل بنچ فیصلہ ہے جس میں عمران خان، عارف علوی، قاسم سوری اور فواد چوہدری کو آئین سبوتاژ کرنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے اور ابھی اس آرٹیکل 6، کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔