یہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور کا واقعہ ہے جب میں نے کاشانہ کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کے اس وقت کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر یتیم بچیوں کے ادارے کے خفیہ دورے، اس کے وزیر کے ذریعے لڑکیوں کو وہاں سے غائب کئے جانے کے الزامات پر ایک کالم لکھا تھا اور اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
مجھے ایوان وزیراعظم سے وزیراعظم عمران خان کے ملٹری سیکرٹری کی کال موصول ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ کال خاتون اول بشریٰ بی بی کے کہنے پر کر رہے ہیں اور ان کا سوال ہے کہ میرے پاس ان الزامات کے کیا ثبوت موجود ہیں۔ میرا جواب تھا کہ اس سلسلے میں تمام ثبوت افشاں لطیف کے پاس موجود ہیں جن کا انہوں نے میرے پروگرام نیوز نائیٹ میں بھی کیا تھا اور انہی کو میں نے کالم میں بھی بیان کیا۔
میں نے افشاں لطیف سے کہا کہ عین ممکن ہے کہ بشریٰ بی بی ان تمام جرائم میں ملوث نہ ہوں اور وہ تحقیقات کروائیں مگر مجھے بعد میں ان کے شوہر نوشاد حمید کی بات سے متفق ہونا پڑا کہ انہوں نے یہ کال اس لئے کروائی تھی کہ کہیں اس صحافی کے پاس کوئی اضافی شواہد یا ثبوت تو موجود نہیں کیونکہ وہ اس معاملے کو دبانا چاہتے تھے۔ افشاں لطیف اورنوشاد حمید کو اس کے بعد کچھ اداروں کی طرف سے بلایا بھی گیا اور تحقیق و تفتیش کے نام پر انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔
دی اکانومسٹ، نے بشریٰ بی بی پر کوئی نئے الزامات نہیں لگائے بلکہ یہ باتیں زبان زد عام ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اس بارے ذکر کر چکے کہ بنی گالہ میں سینکڑوں من مرغی کا گوشت جاتا تھا اور اسے جلایا جاتا تھا لیکن چونکہ وہ ایک مہذب اور ذمے دار سیاستدان ہیں لہذا انہوں نے باقی واقعات کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ کبھی بِلو دی بیلٹ، نہیں جاتے لیکن وہ تمام الزامات اپنی جگہ پر موجود ہیں جیسے نہ صرف اقرا ریاض کا کیس بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے مزید چالیس بچوں کے غائب ہونے کا معاملہ، جس کا ذکر افشاں لطیف نے تواتر کے ساتھ کیا، جنہیں کاشانہ کے قریب واقع ایک دوسرے ادارے سے عثمان بزدار ہی کے دور میں غائب کیا گیا۔
افشاں لطیف الزام لگاتی ہیں کہ ان بچوں کو کالے جادو کے لئے بنی گالہ پہنچایا گیا کیونکہ ادارے کے پاس ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس طرح ان بچیوں کا کوئی ریکارڈ نہیں جنہیں کاشانہ سے شادی کے نام پر غائب کیا گیا مگر نہ ان کے شوہروں کے نام اور ایڈریس ریکارڈ میں موجود ہیں اور نہ ہی ان کے نکاحوں کی تصویریں۔
میں ابھی جمائما گولڈ سمتھ کے سترہ فروری دو ہزار کے بیس کے ٹوئیٹ کا حوالہ بھی دوں گا جس میں انہوں نے ایک پوسٹر شئیر کیا جس میں بشریٰ بی بی سفید برقعے میں ہاتھ پھیلائے یوں ہیں جیسے وہ کالا جادو کر رہی ہیں اوراس میں خود جمائما بھی موجود ہیں یعنی وہ بھی باالواسطہ انداز میں تصدیق کر رہی ہیں کہ وہ بھی اس کالے جادو کا شکار ہوئیں۔ میں اس کالم کے ٹائٹل میں عمران خان کی دوسری آفیشل وائف ریحام خان اور ان کی کتاب کا ذکر کرنا بھول گیا، وہ بھی ایسے بہت سارے واقعات سے بھری پڑی ہے جن کو پڑھ کے شریف لوگ صرف شرم سے سر جھکا سکتے ہیں۔
دی اکانومسٹ کی رپورٹ صرف کالے جادو کے بارے نہیں ہے بلکہ ان تمام طریقوں اور معاملات کا احاطہ کرتی ہے جس کے ذریعے عمران خان کے دور میں حکومتی معاملات چلائے جاتے تھے۔ یہ ایک مافیا کا دور تھا جس نے جمہوریت سے میرٹ اور شفافیت تک ہر شے کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ آئی ایس آئی میں د و مرتبہ رہنے والے فیض حمید نے بشریٰ بی بی کا چارہ عمران خان کی دوست کے ذریعے عمران خان کے سامنے ڈالا تھا اور کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مغرب میں بہت سارا وقت گزارنے والا ایک پلے بوائے اتنا دقیانوسی خیالات کا حامل بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جادو ٹونے پریقین کرے، اپنی بیوی کے کہنے پر قبروں کو سجدے کرتا پھرے۔
یہ مجھے کسی خوفناک فلم کا سکرپٹ لگتا ہے جس میں ایک سیاستدان کو ایک عورت کے ذریعے قابو میں لایا جاتا ہے اور عورت بھی کوئی حسین وجمیل دوشیزہ نہیں بلکہ مبینہ طور پر کالے جادو کی ماہر ہوتی ہے۔ کسی مصالحے دار فلم کے سکرپٹ کی طرح ہی وہ ایک صوبے کی حکومت اپنی بری شہرت کی حامل، ڈیفنس میں مشکوک کاروبار والی، دوست کے نکھٹو ایجنٹ کے حوالے کر دیتی ہے اور وہ نکھٹو ایجنٹ بارہ کروڑ افراد کے صوبے میں معاملات اس عورت اور ایک پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے اس طرح چلاتا ہے کہ ہر ڈپٹی کمشنر سے ہر جیلر اور فوڈ انسپکٹر تک کی پوسٹ کی بولی ایوان وزیراعلیٰ میں لگتی ہے اور ٹی کے، اس کی باقاعدہ وصولی کرتا ہے۔
دوسری طرف مال بنانے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا جاتا۔ ملک ریاض جیسے پراپرٹی ٹائیکون سے ہیروں کی انگوٹھیاں بھی ہتھیائی جاتی ہیں اور سینکڑوں کنال زمین بھی۔ جب آئی ایس آئی کے ایک ایماندار سربراہ نے ان کی نشاندہی کی تو اسے عہدے سے ہٹا دیا گیا جیسے یہ کوئی بنانا ری پبلک ہو، یہ سب کچھ محیر العقول تھا اور میرے صوبے پنجاب میں ہو رہا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کا کمرشل سوشل میڈیا الزام لگا رہا ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے میں مدد کرنے والی دی اکانومسٹ کی خاتون صحافی مسلم لیگ نون کی حامی ہیں اور عمران خان پر سوشل میڈیا پر تنقید کرتی رہی ہیں اور میرا کہنا ہے کہ ہر وہ صحافی جوفہم، عقل اور منطق کے ساتھ صحافت کرتا ہے یا اس میں شرم، غیرت اور حب الوطنی جیسی خصوصیات موجود ہیں وہ ان تمام معاملات پر تنقید ہی کرے گا، ان کا دفاع تو کوئی عقل، شرم اور اخلاق سے عاری ہی کر سکتا ہے۔
میری رائے میں پی ٹی آئی کے چئیرمین نے جس طرح اس رپورٹ کو بیرون ملک چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے میں اسے ذاتی طور پر بڑھک ہی سمجھتا ہوں اور اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش۔ اگر وہ سچے ہیں توانہیں یہ کام فوری طور پر کرناچاہئے بلکہ اس سے پہلے انہیں ریحام خان کی کتاب اور افشاں لطیف کے الزامات کو بھی چیلنج کرنا چاہئے۔ یہ معاملات بہت زیادہ مشکوک ہیں کیونکہ ان کا ذکر کرنے والی ایک اداکارہ مشکوک طریقے سے قتل ہو چکی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت یا پاک فوج کے اداروں نے اب تک اس پر تحقیقات کیوں شروع نہیں کیں کیونکہ یہ معاملات اتنے ہی سنگین اور خطرناک ہیں جتنی امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کے شہریوں کی عمران خان کو فنڈنگ ہوسکتی ہے، جتنی توشہ خانہ کی چوری یا سائفر لہرانا ہوسکتے ہیں۔ اسے آپ عدت میں شدت والے کیس کی ایک اور پرت کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک حیران کن معاملہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستان اس طرح چلایا جاتا رہا جس طرح افریقہ کا علم اور ٹیکنالوجی سے بہت دور کوئی توہم پرست، آدم خور قبیلہ ہو۔