Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. File Mafia Bamuqabla Hukumat

File Mafia Bamuqabla Hukumat

یہ فائل مافیا، پراپرٹی ڈویلپمنٹ اور ہاوسنگ سیکٹر سے تعلق رکھتا ہے جس کا شکار ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں مگر ان کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ اس مافیا کو عوام نے اسے کھربوں روپے اور حکومتوں نے بے شمار سہولتیں دی ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس کاروبار کے لئے کوئی قواعد وضوابط ہی موجود نہیں ہیں۔ بات کا آغاز وہیں سے کرتے ہیں جہاں سے یہ شروع ہوئی۔

جب صنعتیں چلانا مشکل ہوئیں تو بہت ساروں نے اسے آسان اور منافع بخش سمجھا کہ زمین کا ایک ٹکڑا لیا جائے، اس پر ایک ہاوسنگ سوسائٹی کا بورڈ لگایا جائے، ایک گیٹ اور ایک سڑک بنا کے صرف نقشوں میں ہی اس کے بہت سارے بلاکس بیچ دئیے جائیں۔ ان ہاوسنگ سوسائٹیوں کی طرف سے جو فرضی پلاٹ بیچے گئے ان کی ملکیت صرف ان کاغذوں میں تھی جسے فائل کہتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ تمام فائلیں ہی بوگس اور فراڈ تھیں مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اب تک مجموعی طور پر جتنی فائلیں بیچی گئی ہیں ان کے نصف بھی پلاٹ مالکان کو فراہم نہیں کئے گئے جبکہ ان فائلوں کے عوض پوری، پوری قیمت وصول کی جا چکی ہے اور برسوں پہلے وصول کی جا چکی ہے۔ اس میں ایڈن ہاوسنگ والے بدنام ہوگئے، اس کے مالک کے جنازے پر لوگوں نے باقاعدہ حملہ کیا اور اگر یہ روایت شروع ہوجائے تو ہر دوسری ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کا جنازہ ذلت کی علامت بن جائے۔

کئی لوگ کہتے ہیں کہ فائلوں کا کام تو جوا تھا مگر میں کہتا ہوں یہ جوا بڑے بڑے انویسٹرز کے لئے ضرور ہوتا ہوگا جنہوں نے کئی کئی سو فائلز اٹھائیں، قیمتیں اوپر نیچے کیں، مال بنایا اور نکل گئے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں بڑے بڑے انویسٹرز بھی گاڑیوں سے جوتیاں چٹخانے پر آ گئے مگر میں تو ان عام اور غریب لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کے پاس تین، پانچ یا دس مرلے کا گھر بنانے کے لئے، پلاٹ خریدنے کے لئے بھی یکمشت پیسے نہیں تھے سو انہوں نے ان کاروباریوں پر اعتبار کیا جو سرکاری اداروں کی منظوری کے لوگو لگا کے اشتہار بازی کر رہے تھے۔

انہوں نے سوچا کہ دو، تین برس میں پلاٹ کی قیمت ادا کرکے مالک بن جائیں گے پھر اسے تعمیر کرنے کا سوچیں گے مگر یوں ہوا کہ وہ دو، تین برس گزر گئے اوراس کے بعد بھی بہت سارے برس۔ ان ہاوسنگ سوسائٹی والوں نے قسطیں پوری لے لیں بلکہ ڈویلپمنٹ چارجز کے نام پر وصولی بھی کر لی مگر پلاٹوں کے قبضے نہیں دئیے۔ اب آپ ان لوگوں کو جواری کیسے کہہ سکتے ہیں۔ وہ فائلیں ہاتھ میں لے کر ان سوسائٹیوں کے دفاتر میں چکر لگا رہے ہیں اور آگے سے حکومت کی برائیاں سن رہے ہیں کہ اس نے کاروبار تباہ کر دئیے ہیں، وہ تو ڈلیور کرنا چاہتے ہیں مگر حکومتی پالیسیاں رکاوٹ ہیں، اس دوران حکومتی ادارے سوئے رہے اور اب تک سوئے ہوئے ہیں۔

میں نے بہت سارے لوگوں سے پوچھا کہ کیا جدید اور مہذب ممالک میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے تو جواب ملا کہ کسی بھی ملک میں یوں کھمبیوں کی طرح ہاوسنگ سوسائٹیاں نہیں اگائی جا سکتیں، اس وقت لاہور سے پنڈی چاہے جی ٹی روڈ سے جائیں یا موٹر وے سے ہرطرف یہی سوسائٹیاں ہیں۔ قانون یہ ہے کہ ہاوسنگ سوسائٹی وہی بنا سکتا ہے جس کے پاس اپنی زمین ہو اور ڈویلپمنٹ کے کم از کم چالیس فیصد فنڈز۔ اس کے بعد ہی وہ اپنی سوسائٹی کو بطور کاروبار ظاہر کر سکتا ہے، لوگوں کو پلاٹ بیچ سکتا ہے یعنی جس کے پاس اپنی زمین ہے اور آدھی ڈویلپمنٹ کر چکا ہے تو وہ کبھی فائل نہیں بیچے گا، ہمیشہ پلاٹ ہی دے گا مگر پاکستان میں یہ کاروبار ڈبل شاہ کی طرح چلایا گیا ہے۔

اس وقت یہی فائل مافیا حکومت سے بہت ساری مراعات مانگ رہا ہے جس میں سب سے بڑی مانگ یہ ہے کہ فائل مافیا کو اجازت دی جائے کہ وہ لوگوں کی بلیک منی یعنی کالے دھن سے کاروبار کر سکے۔ ایسا دیدہ دلیر ڈاکو قسم کا کاروباری طبقہ شائد دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک میں نہیں ہوگا۔ میں نے سنا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے پراپرٹی سیکٹر کو بہت ساری مراعات دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کے ساتھ بعض روایات کے مطابق چالیس اور بعض کے مطابق ستر سے زائد کاروبار جڑے ہوئے ہیں مگر آئی ایم ایف نے اس پر اعتراض کر دیا۔ اس کی وزیر ہاوسنگ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنی جس کی سامنے آنے والی سفارشات میں یہ بھی تھا کہ لوگوں کو بینکوں سے اسی طرح گھر اور پلاٹ مارگیج کرکے دئیے جائیں جس طرح یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگلا کام شروع کرنے سے پہلے یہ کون پوچھے گا کہ پہلے بکی ہوئی فائلوں پر کتنے پلاٹ ڈلیور ہوئے؟

مجھے کہنے میں عار نہیں کہ میں کسی مہذب ملک میں ہوتا تو ایسی ہاوسنگ سوسائٹیوں کے مالکان جیلوں میں ہوتے جنہوں نے قسطیں تو پوری وصول کر لیں مگر پلاٹ نہیں دئیے۔ یہ بالکل اسی طرح کی چارسوبیسی اور فراڈ ہے جس طرح آپ کسی بھی شے کی قیمت لے لیں اور وہ شے فراہم نہ کریں۔ اس امر کا عدالتوں کو بھی نوٹس لینا چاہئے تھا اور پارلیمنٹ کو بھی مگر پارلیمنٹ میں بھی کئی ایسے بیٹھے ہیں جنہوں نے لوگوں نے اسی نام پر لاکھوں لوٹے ہیں اور اب وہ فائلیں محض ردی ہیں۔

بنیادی طور پر جب آپ فائل دیتے ہیں تو یہ وعدہ ہوتا ہے کہ اتنے عرصے میں پلاٹ دے دیں گے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ جن لوگوں نے قسطیں پوری لے لیں اور پلاٹ ڈلیور نہیں کئے تو ان سب کو پابند کر دیا جائے کہ وہ قسطیں مکمل ہونے کے بعد سے اب تک کے عرصے کا کرایہ ادا کریں جو اس علاقے میں کسی بھی مکان کا بنتا ہے۔ ا س سلسلے میں اعلیٰ عدالتوں میں بھی معاملات لے جانے کی ضرورت ہے اور حکومت کو بھی اس پر فوری کارروائی کرنا ہوگی کیونکہ یہ باقاعدہ فراڈ کا معاملہ ہے اوربدقسمتی یہ ہے کہ اس میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جن کا بڑا نام ہے۔ جو اپنے بہت سارے پراجیکٹس بڑے فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ جو فائلیں آپ بیچ چکے، جن کی قیمت آپ لے چکے وہ پلاٹ کب ملیں گے تو اب وہ جواب میں جھوٹا دلاسا بھی نہیں دیتے، حکومت کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔

میری نظر میں حکومت کا اس پورے معاملے میں قصور یہ ہے کہ اس نے اس مافیا پر ڈنڈا نہیں رکھا، ا نہیں قیمت لینے کے باوجود پراڈکٹ نہ دینے پر جیل نہیں پہنچایا۔ حکومت کو برا بھلا تو ان غریب عوام کو کہنا چاہیے جو لاکھوں روپے ادا کرچکے ہیں اور مجموعی طور پر کھربوں روپے یہ مافیا جیب میں ڈال چکا ہے مگر ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت سے پوچھنا ہے کہ آئی ایم ایف پراپرٹی سیکٹر کو ٹیکس چھوٹ اور مراعات دینے سے منع کرتاہے مگر کیا وہ عوام کو پوری قیمت پربیچی گئی فائلوں پر پلاٹ دینے سے بھی روکتا ہے؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran