سوشل میڈیا پر گالی دینا کون سا مشکل کام ہے، اس میں محنت لگتی ہے نہ اضافی خرچ آتا ہے۔ یہ ہمارے ہاں بہت آسان اور محفوظ ہے جہاں متعلقہ ادارے چند سو بڑے بڑے ناموں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو وہ باقی پچیس کروڑ عوام کوکہاں سے کریں گے، جہاں کی عدالتوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اس بارے کسی مقدمے کو سننا ہی نہیں اور اگر سننا بھی ہے تواس کا فیصلہ نہیں کرنا۔ یہ اور بھی آسان ہوجاتا ہے اگر آپ نے ٹوئیٹر پر اپنی شناخت چھپاتی ہوئی کوئی پروفائل بنا رکھی ہے یا فیس بک پر اپنی پروفائل کو لاک کر رکھا ہے۔ نہ کسی کو آپ کے بارے علم ہوگا اور نہ ہی کوئی آپ تک پہنچ سکے گا۔ یوں بھی کسی بھی صحافی یا سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کے لئے یہ کام بہت محنت اور خسارے کا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر گالی دینے والوں کو پیچھا کرتا پھرے۔
لیکن آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ بدگوئی کریں، الزام لگائیں یا گالی دیں تو ان سب سے پہلے آپ ایکسپوز ہوتے ہیں کیونکہ جسے آپ گالی دے رہے ہوتے ہیں اس بارے میں نو ے سے ننانوے فیصد تک گمان غالب ہے کہ آپ کبھی ملے نہیں ہوتے، کبھی اس سے معاملہ نہیں کیا ہوتا، کبھی اس کے ساتھ سفر نہیں کیا ہوتا لہٰذا آپ کیسے اس کے کردار سے آگاہ یا معاملات پر جج ہوسکتے ہیں۔ آپ کی گالی محض ایک سیاسی یا مذہبی رائے کے اختلاف پر ہوتی ہے جس پر آپ دوسرے کو کرپٹ سے حرامی تک جو دل چاہے کہہ لیتے ہیں سو اس سے دوسرے بارے تو کچھ پتا نہیں چلتامگرآپ کے والدین کے بارے پتا چلتا ہے کہ ان کا مزاج اور کردار کس قسم کا ہوسکتا ہے، آپ کے گھر میں گفتگو کس قسم کی ہوتی ہے، آپ کے اساتذہ کے بارے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ آپ کی تربیت کرنے میں کس حد تک ناکام رہے، آپ کے دوستوں بارے جانچا جا سکتا ہے کہ ان کی محفل کیسی ہوسکتی ہے کیونکہ اچھے والدین کی اولاد، اچھے اساتذہ کے شاگرد اور اچھی محفل میں اٹھنے بیٹھنے والے کبھی گالی نہیں دے سکتے۔
سرعام گالی دینے والے کتنے نیچ یا گندے خاندان سے ہوتے ہیں ان کے بارے اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ عام طور پر ایک مڈل یا لوئر مڈل کلاس کا بندہ بھی اپنی ماں، بہن یا بیٹی کے سامنے گالی نہیں دیتا لیکن جب آپ سوشل میڈیا پر گالی دیتے ہیں تو آپ کی ماں بہن بیٹی اوربیوی ہی نہیں بلکہ آپ کی چاچی، مامی، پھوپھی اور تائی بھی اسی سوشل میڈیا پر ہوسکتی ہے اور وہ آپ کی زبان و کلام کو پڑھ سکتی ہے یعنی آپ کسی اتنے گھٹیا اورننگے خاندان سے ہیں کہ آپ کو ان کا لحاظ اور شرم بھی نہیں ہے جنہیں ہم آپ کی فیملی کی خواتین کہہ سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ہونا اسی طرح ہے جیسے آپ کسی بیٹھک یا محفل میں بیٹھے ہوں اور جو چاہے آپ کی باتیں سن رہا ہو۔ کیا آپ کسی ایسی بیٹھک یامحفل میں کسی دوسرے کو ماں، بہن کی گالی نکال سکتے ہیں، ہرگز نہیں، اس لئے بھی نہیں کہ آپ کو وہاں علم ہوگا کہ آپ نے جس کو یہ گالی دی وہ آپ کے منہ پر مکا مار کے آپ کے دانت بھی توڑ دے گا مگر سوشل میڈیا پر وہ آپ کے سامنے نہیں ہوتا، اس کی رسائی آپ تک نہیں ہوتی۔
اگر آپ مجھ سے رینکنگ کروائیں تو پی ٹی آئی کے کارکنوں سے زیادہ کوئی دوسرا نہ زیادہ بدکلام ہے اور نہ ہی بدگو۔ یہ بات نہیں کہ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی یا لبیک وغیرہ کے کارکن حاجی نمازی ہیں اور پتا اس وقت چلتا ہے جب آپ ان سے اختلاف کرتے ہیں۔ اس وقت ان کا سارا دین اور دھرم ایک طرف رہ جاتا ہے۔
میں نے مسلم لیگ نون سے بھی اختلا ف کرکے دیکھا ہے اور جماعت اسلامی سے بھی، لبیک والے بھی کچھ دن پہلے بہت زیادہ ایکٹو ہوئے تھے اور جے یو آئی والے بھی متحرک ہوتے رہتے ہیں لیکن اگر دوسری جماعتوں کے سو میں سے دس، بیس کارکن بدکلامی کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کے سو میں سے اسی، نوے۔ یہ بات نہیں کہ وہ اس وقت مارکھا رہے ہیں، بہت مجبور ہیں بلکہ اس سے پہلے جب انہیں شجاع پاشا سے ظہیر الاسلام اور فیض حمید تک کی سرپرستی حاصل تھی، جب وہ کہتے تھے کہ انہیں بلا بلا کے فائلیں دکھائی جاتی تھیں، جب ان کی اپنی حکومت تھی تو تب بھی وہ اسی ظرف کے حامل اور اسی گفتگو کے عادی تھے۔
میں یہ بات بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا انہیں نہ بدتمیز بناتا ہے اور ہی بے حیا بلکہ وہ پہلے سے ہی بدتمیز اور بے حیا ہوتے ہیں، سوشل میڈیا انہیں صرف یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بدتمیزی اور بے حیائی کرسکیں سو، جو بدتمیز اور بے حیا ہوتے ہیں وہ بدتمیزی اور بے حیائی کرنے لگ جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں بارے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں یہ سب کچھ اوپر سے ملا ہے کہ جب لیڈر بدکلام اور گستاخ ہوگا تو اس کارندے اس سے دس ہاتھ آگے ہی ہوں گے۔ دوسری جماعتوں میں ایسے لوگوں کی کمی کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے رہنما میاں محمد نواز شریف ہوں یا آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان ہوں یا حافظ نعیم الرحمان، وہ سب بدگو نہیں ہیں، بدکلامی نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی نے اس کلچر اور طریقہ کار کو باقاعدہ ادارے کی شکل دی ہے۔
ان تمام معاملات کے باوجود میرا ایک بات پر یقین ہے کہ پاکستان کی پولیس اور اداروں میں رپورٹ ہوسکتی ہو یا نہ ہو سکتی ہو، یہاں کی عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہو یا نہ چل سکتا ہو اور اس دنیا میں سزا ہوسکتی ہو یا نہ ہوسکتی ہو ایک عدالت اللہ تعالیٰ کی ضرور ہے جس میں ہماراکہا ہوا، ہمارا لکھا ہوا ایک ایک لفظ محفوظ ہور ہا ہے۔ ہمارا رب تو ہماری نیتوں پر فیصلے کرنے والا ہے الفاظ تو بہت کھلی ڈلی اور واضح چیزیں ہیں۔ سو جب آپ کسی ایسی شخصیت کو جس سے نہ آپ کی ملاقات ہوتی ہے، نہ کبھی معاملہ کیا ہوتا ہے محض رائے کے اختلاف پر گالی دیتے ہیں، الزام لگاتے ہیں تو اللہ رب العزت اپنے دربار میں ایک اس حوالے سے ایک اکاؤنٹ کھول دیتے ہیں جس میں یہ مقدمہ درج ہوجاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز ایک شخص پہاڑ جیسی نیکیاں لے کر آئے گا کہ جنت جا سکے مگر وہ پہاڑ جیسے گناہوں کے ساتھ دوزخ چلا جائے گا کیونکہ اس نے گالی دی ہوگی، کسی کا حق مارا ہوگا۔ جس کو اس نے گالی دی ہوگی وہ بدلے میں اسے اپنی نیکیاں دے گا اور جب وہ ساری نیکیاں دے چکا ہوگا اور دی ہوئی گالیوں کے مقدمات باقی ہوں گے تو وہ بدلے میں اس کے گناہ لے گا جسے گالی دی ہوگی۔ یقین کیجئے، انصاف کی یہ یقین دہانی مجھے بہت اطمینان دیتی ہے، میں اس روز جزا کامنتظر ہوں۔