یہ فکری، تاریخی اور حقیقی مغالطوں سے بھری اصطلاح ہے کہ افغانستان، برطانیہ، روس یا امریکہ جیسی سلطنتوں کا قبرستان بنا اور اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستانی ایجنسیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ افغان کتنے بہادر اور کتنے سمجھدار ہیں۔ موضوع یہ ہے کہ افغان طالبان ایک مرتبہ پھر اپنے وطن کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وہ دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان آگے بڑھے اور کابل، قندھار کو فتح کر لے مگر پاکستان ایسا کوئی ڈھول اپنے گلے میں ڈالنے کے لئے تیار نہیں جو پھٹا ہوا بھی ہو۔
مجھے سب سے پہلے استنبول مذاکرات میں افغان طالبان کے وفد کے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ روئیے پر بات کرنی ہے۔ بات پاکستان اور افغانستان کی نہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی ریاست، ہمسائیوں کی طرف سے دہشت گردوں کے گروہوں کی آمد کی اجازت نہیں دے سکتی اور اگر پاکستان کا یہ مطالبہ ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے تو اس میں کیا غلط ہے؟
پاکستان کے سفارتی اور سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوران افغان وفد کا رویہ مسلسل عدم تعاون پر ہی مبنی نہیں رہا بلکہ اشتعال انگیز گفتگو بھی کی گئی، توہین آمیز زبان کے استعمال پر قطری اور ترک ثالث بھی حیران ہوئے۔ یقینی طور پر افغان وفد سفارتی اور مذاکراتی آداب سے بے بہرہ تھا اور اس نے ایک ریاست کی بجائے مافیاز اور وار لارڈز والا رویہ اپنانے کی کوشش کی۔ وہاں موجود ذرائع کے مطابق تین روز کے دوران اڑتالیس گھنٹوں کی بات چیت کے بعد چوتھی مرتبہ پھر انہیں موقع دیا گیا کہ وہ امن اورمنطق کی طرف لوٹیں مگر اس میں کامیابی نہ ہوئی۔
جہاں تک یہ زعم اور دعویٰ ہے کہ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان رہا تواس کے لئے اعداد وشمار کا مطالعہ ہی کافی ہے کہ افغانوں کی عاقبت نااندیش اور بے شعور قیادت نے خود افغان عوام کے لئے ان کی دھرتی کو قبرستان بنا دیا۔ آپ امریکہ، روس اور برطانیہ کی آج بھی جی ڈی پی دیکھ لیجئے، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ عالمی برادری میں ان کا اثر ورسوخ دیکھ لیجئے۔ کیا وہ قبرستان بنے یا وہ افغانستان قبرستان بنا جس کے عوام کے لئے اس وقت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنی ویب سائیٹ پر چندے اور بھیک کی اپیل لگا رکھی ہے کہ ان سردیوں میں ان کی چار کروڑ بتیس لاکھ کی آبادی میں سے آدھی کے پاس پورا پورا دن کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوگا، وہ افغانستان جس کی جی ڈی پی اس وقت صرف ساڑھے سترہ ملین ڈالر ہے اور جس میں غربت دیہات کی سطح پر پچاسی فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
ان افغانوں کا اپنی جی ڈی پی اور ترقی کی شرح میں اضافے کا ارادہ بھی کوئی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر پابند ی عائد کر دی ہے۔ جو باقی نوجوان ہیں ان کے لئے بھی روزگار نہ ہونے کے برابر ہے اور جن کے پاس روزگار ہے ان کی اکثریت سمگلنگ، منشیات اور وار لارڈز کے کارندے بن کے کماتی ہے۔ اس وقت افغانستان میں زچہ بچہ کے مرنے کا شرح دنیا بھر میں انتہائی خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جسے دنیا کے ایک سو ترانوے میں سے ایک سو نوے سے زائد ممالک تسلیم ہی نہیں کرتے اور جن کے سفارتی تعلقا ت ہیں وہ بھی مشروط ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب امریکی افواج، افغانستان کو چھوڑ کے جا رہی تھیں تو افغانی جہازوں سے لپٹ لپٹ کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ اب بھی افغانستان کی نام نہاد امارات اسلامیہ، دنیا بھر میں مسلمان ملکوں اور مسلمانوں کے بدترین دشمن دو ممالک، بھارت اور اسرائیل کے ساتھ نتھی ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ افغان طالبان بھارت کو دس مئی کوملنے والی بدترین شکست کے بعداس کی پراکسی بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔ دوسری طرف پاکستان ایک پر امن اور ترقی کرتا ہوا افغانستان چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہر دور میں رہی ہے۔ اس دور میں بھی جب انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ نائن الیون کے بعد اپنے ملک کو ایک مرتبہ پھر تباہی اور بربادی کی طرف نہ لے کر جائیں مگر انہوں نے تباہی والا راستہ چنا۔
کیا افغانستان دہشت گردوں کی سرپرستی کرکے پاکستان کا مقابلہ کر سکتا ہے کہ افغان طالبان کی امارات اسلامیہ کی فوج، انتہائی بری حالت میں ہے جس کی نہ کوئی تنظیم ہے اور نہ ہی امریکہ کے چھوڑے ہوئے اسلحے کے علاؤہ اس کے پا س کوئی جدید جنگی سازو سامان، لینڈ لاکڈ کنٹری کی کوئی بحری فوج نہیں ہے اور فضائیہ بھی امریکہ اور روس کے چھوڑے ہوئے کچھ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں پر مشتمل ہے جن میں سے کئی اڑن کھٹولوں کے گرنے کی ویڈیوز ہم دیکھ چکے ہیں جنہیں اناڑیوں کی طرح اڑانے کی کوشش کی گئی۔ یہ گروہ اگر سمجھتا ہے کہ پاک فوج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے تو یہ شیخ چلی کا خواب ہے۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کسی سلطنت کا قبرستان نہیں بنا سوائے اپنے عوام کے جن کی ناگفتہ بہ حالت اوپر بیان کر دی، ہاں، اس کے عوام نے مزاحمت ضرور کی مگر وہ مزاحمت بھی پاکستان کی مدد سے تھی۔ مجھے سابق (عمرانی) حکومت کی بہت ساری پالیسیوں سے اختلاف کی یاددہانی کرواتے ہوئے کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی حکومت اور فوج اس وقت طالبان کی سہولت کار نہ ہوتی تو طالبان کی اس عبوری حکومت کا قیام بھی نہ ہوپاتا، ایک ایسی عبوری حکومت جس کی مدت کے بارے کسی کو کچھ علم نہیں۔
دوحا معاہدے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت قائم کی جائے گی مگر اس پر عمل ہوتا ہوا ابھی تک دکھائی نہیں دے رہا۔ اس صورتحال میں جب افغانستان بھارت اور اسرائیل کے سوا دنیا بھر کی ریاستوں کے لئے قابل قبول نہیں اور اسے فتنے، فساد اور دہشت گردی کی ایک سرزمین سمجھا جاتا ہے تو مجھے اس کے قائم رہنے کے بارے بھی شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ پشتونوں کی بنیاد پر قائم طالبان حکمران افغانستان کی آبادی کا چالیس سے پینتالیس فیصد ہیں اور تمام پشتون بھی انکے حامی نہیں۔
افغانستان میں بڑی تعداد میں ازبک، تاجک اور دیگر نسلی گروہ بھی موجود ہیں۔ اس وقت کہا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ ان کا تنازع برقرار رہا تو یہ بھارت سے کوئی براہ راست مدد نہیں لے سکیں گے کیونکہ ہندوستان سے افغانستان کی کوئی سرحد نہیں ملتی۔ افغان طالبان کے کمزور ہوتے ہی افغانستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس میں ایک بڑا حصہ سنٹرل ایشین اسٹیٹس، دوسرا حصہ ایران کے ساتھ جا سکتا ہے جبکہ پاکستانی سرحد کے ساتھ پشتون علاقہ بھی الگ ہوجائے گا اور عین ممکن ہے کہ کچھ عرصے بعد دنیا کے نقشے پر وہ ملک ہی موجود نہ ہو جسے بعض بڑھکیں مارنے والے سلطنتوں کا قبرستان کہہ رہے ہیں۔