پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگ فیلڈ مارشل کے ایک بالواسطہ انٹرویو میں سیاسی مصالحت کے لئے سچے دل سے معافی کی بات کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ مقتدرہ کو بانی پی ٹی آئی کی معافی کی اشد ضرورت ہے یا خواہش مگر یہ تشریح یکطرفہ ہے اور سیاق سباق سے ہٹ کر ہے۔ حکومت اور فوج کو ایسا کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے جس میں یہ کہا جا سکے کہ عمران خان کی معافی یا تعاون کوئی اہمیت رکھتا ہے یعنی اگر عمران خان معافی نہ مانگے یا تعاون نہ کرے تو اس سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا اور نہ ہی حکومت گر پڑے گی۔
اس کی معافی خود اس کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ اس وقت جیل میں ہے اور وہ اس جیل سے باہر آنا چاہتا ہے۔ جیل سے باہر آنے کے دو ہی طریقے ہیں، پہلا یہ کہ وہ اپنی سزائیں آئینی اور قانونی طور پر پوری کرے اور اس کے بعد باہر آ جائے اور دوسرا یہ کہ وہ ماورائے آئین کسی صلح یا معافی کے لئے کوشش کرے۔ جب عمران خان یہ کہتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے کمیٹیاں بناتا ہے تو اس کے پیچھے یہی دوسری ماورائے آئین کوشش ہوتی ہے۔
یہ بات نہیں کہ عمران خان معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہے یا وہ معافی مانگنا ہی نہیں چاہتا۔ وہ معافی مانگنا چاہتا ہے مگر اپنے طریقے سے اور اس پر کسی نہ کسی سطح پر ایک سے زیادہ مذاکرات کے دور ہو چکے ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی بتایا تھا کہ معافی کی پیشکش اور اس کی شرائط کوئی نیا موضوع نہیں ہیں اور ان پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ اس معافی کے لیے بہت سارے سیاسی رہنماؤں نے بھی کوششیں کی ہیں جن میں خود پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا کے حکومتی عہدیدار سب سے زیادہ اہم ہیں۔
عمران خان کا پیغام ایک سے زائد بار مقتدرہ کو مل چکا ہے کہ وہ معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں ایک دو بار بیانات بھی جاری کیے ہیں۔ وہ اس معافی کو کسی فوجداری مقدمے کی معافی کی بجائے سیاسی مقدمے کے طور پر مانگنا چاہتے ہیں۔ وہ الفاظ کا چناؤ اپنا رکھنا چاہتے ہیں جیسے یہ کہ وہ نو مئی کی ذمے داری قبول کرنے اور یہ ماننے کی بجائے کہ وہ اس کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ ساز تھے، اس واقعے کی مذمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اس کا بھی اشارہ دیتے ہیں کہ ان کے جو لوگ مختلف جگہوں پر براہ راست حملے کرتے ہوئے پکڑے گئے، ان سب کو چاہے سزا دے دی جائے مگر وہ اپنے کسی لفظ میں ذمے داری قبول کرنے اور معافی مانگنے والے جیسے الفاظ استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عمران خان ذمے داری قبول کرنے اور معافی مانگنے جیسے الفاظ استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ان کی اکڑ اور غرور ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک سابق وزیراعظم اور مقبول رہنما کے طور پر انہیں معافی نہیں مانگنی چاہیے مگر دوسری وجہ اس سے بھی زیادہ مضبوط ہے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ آپ نے جیسے ہی ذمے داری قبول کی اور معافی مانگی اسی وقت اسے آپ کے خلاف فرد جرم بنا دیا جائے گا اور آپ کے پاس سزا بھگتنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا لہٰذا عمران خان اپنے فائیو پوائنٹ فارمولے میں اپنی معافی کے ساتھ دوسرا پوائنٹ اس معافی کے قبول ہونے کی گارنٹی کو رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب وہ مذمت کریں تو اس مذمت کو معافی سمجھا جائے اور اس معافی کو قبول کیا جائے۔ جب وہ یہ بات کہتے ہیں تو ایک اور سٹیٹ آف مائنڈ میں چلے جاتے ہیں جو تین برس پہلے دس فروری سے پہلے والی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی معافی (یعنی مذمت) انہیں واپس اسی جگہ پر لے جا کر کھڑا کر دے گی جس جگہ وہ آج سے تین چار برس پہلے تھے اور اس کا منطقی تقاضا اور نتیجہ (ان کے مطابق) یہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ خود کو شہباز شریف اور آصف زرداری سے دور کر لے۔ وہ اس سے جڑا ایک اور مطالبہ کرتے ہیں مگر اس سے پہلے معافی فائیو پوائنٹس میں سے تیسرا پوائنٹ بیان کرنا ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس مذمت اور معافی کو صرف نو مئی کے مقدمات تک محدود نہیں رکھا جائے گا بلکہ اسے جنرل فیض حمید کے مبینہ سیاسی رابطوں سے کرپشن کیسز پر پھیلایا جائے گا۔ ان سے پوچھا جائے کہ کرپشن کیسز تو نو مئی سے الگ ہیں تو جواب ملتا ہے، ہرگز نہیں، کرپشن کیسز اسی مہم کا حصہ ہیں جس میں نو مئی کے مقدمات بنے۔ مقتدرہ کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ قانون کی عدالتوں میں وہ ان کے خلاف گواہ پیش کرے نہ ہی ثبوت، سرکاری عہدیدار جیسا کہ اٹارنی جنرل یا پراسیکیوٹر وغیرہ ان کے خلاف مقدمات میں پیچھے ہٹ جائیں اور یوں ان مقدمات کو آئینی اور قانونی عدالتیں ختم کر دیں۔
ان کا چوتھا نکتہ یہ ہے کہ جب ان کے معاملات مقتدرہ سے طے پا جائیں گے تو اس کے بعد یہ سسٹم بے معنی ہو جائے گا لہٰذا مقتدرہ کو قومی اور تین صوبائی اسمبلیوں کو توڑنا ہوگا۔ وہ اپنے مطالبے کو جائز اور اصولی قرار بنانے کے لیے کہتے ہیں کہ نئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں جن میں وہ جیت کر آئیں اور وزیراعظم بن جائیں۔ جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ اسمبلیوں کو توڑنا مقتدرہ کی مشرف دور سے ہی پالیسی نہیں ہے تو پھر ان کا نکتہ ہوتا ہے کہ اگلے انتخابات تک وہ امریکہ اور برطانیہ جا سکیں، وہاں بھرپور آزادی کے ساتھ وہ سیاسی اور دیگر سرگرمیاں بھی جاری رکھ سکیں، اس امر کو بھی ریاست کو ہی یقینی بنانا ہوگا۔
عمران خان جانتے ہیں کہ ان کے ایسے مطالبات صرف مقتدرہ ہی پورے کر سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت سے بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ شہباز شریف کے لوگوں کے ساتھ وہ کیسے یہ بات کر سکتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت ختم کر دی جائے۔ عمران خان کو بہت امید تھی کہ وہ امریکہ کے دباؤ سے آزاد ہو سکیں گے مگر اب ان کی یہ امید بھی ختم ہو کے رہ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے احتجاج کی دھمکی بھی چھبیس نومبر والی فائنل کال کے بعد کھوکھلی ہو کے رہ گئی ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ مقتدرہ کا اس پر جواب کیا ہے تو ابھی تک تو ان تمام نکات پر مکمل خاموشی ہے۔ اس پر سوال ہوتا ہے کہ اگر مکمل خاموشی ہے تو اشارے کیوں ہیں کہ عمران خان معافی مانگے تواس کا جواب یہ ہے کہ مقتدرہ ایک اور بھٹو نہیں بنانا چاہتی۔ وہ معاملات کو آئین اور قانون کے مطابق حل کرنا اور ملک کو افہام و تفہیم سے حل چلانا چاہتی ہے مگر پی ٹی آئی کے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ اس کی کوئی کمزوری ہے یا خواہش، تو یہ ان کی شدید قسم کی غلط فہمی ہے۔