Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Inqilab Aur Baghawat Ki Baatein

Inqilab Aur Baghawat Ki Baatein

انقلاب اور بغاوت کی باتیں، گولی اور گالی کی باتیں کرنا بہت آسان ہے، یہ باتیں کتابوں، کہانیوں، فلموں، ڈراموں اور تقریروں میں ہی اچھی لگتی ہیں مگر عملی زندگی میں بہت سارے مسائل، بہت ساری مصیبتیں دے جاتی ہیں جیسے نومئی کے انقلابیوں کی زندگی عذاب ہوچکی ہے۔

عمران خان کو اس کے خوشامدیوں اور اپنے خوشامدیوں کو عمران خان نے یقین دلا دیا تھا کہ عوام اتنی بڑی تعداد میں نکلیں گے کہ پی ٹی آئی کے لیڈروں کے جی ایچ کیواور کور کمانڈر ہاؤسز پر قبضے ہوجائیں گے، ان کا اپنا آرمی چیف آجائے گا، عمران خان وہاں سے فاتح کے طور پر باہر نکلے گا اور ایوان وزیراعظم سنبھال لے گا۔

ارادے ان کے بھی وہی تھے کہ جیسے ہی ان کا قبضہ ہوگا یہ مخالفین کے گھروں پرحملے کر دیں گے، ان کی جائیدادیں لوٹ لی جائیں گی اور یہ بہت ساروں کو ان کے گھروں کے سامنے چوکوں میں پھانسیاں دے دیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا اور جو ہوسکا اس میں ان پر دہشت گردی کے مقدمات ہوگئے۔ یہ پاکستان کی فوج کی مہربانی ہے کہ اس نے آئین، قانون اور عدالت کا راستہ اختیار کیا ورنہ ناکام انقلابیوں کی گردنیں اڑا دی جاتی ہیں، ان کی نسلیں ختم اور دربدر ہوجاتی ہیں۔

اس وقت بھی آپ کو سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگ ایسے ملیں گے جو اپنی ہی ریاست کے خلاف بات کرنے کو آزادی اور شعور سمجھیں گے مگر یہ آزادی اصل میں مادر پدر آزادی ہے اور یہ شعور دراصل گمراہی۔ وہ بنگلہ دیش کی مثال دیں گے بلکہ یہ بھی ایک ایسا موقع تھا جب عمران خان کے حامیوں نے بنگلہ دیش طرز کے انقلاب کی امیدیں لگا کے اڈیالہ کا پھاٹک ٹوٹنے کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے تھے اور پھر بعد میں انہیں پتا چلا تھا کہ بنگلہ دیش کا انقلاب ریاست کے خلاف نہیں بلکہ خود ریاست کا انقلاب تھا جیسے اس سے پہلے پاکستان میں دس اپریل دو ہزار بائیس کو آیا تھا۔

فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان کا ریاستی انقلاب پر امن تھا، عین آئینی تھا۔ اپنی ریاست کے خلاف بات کرنے والے یہ وہ بدبخت ہیں کہ جب پاکستان کا ایران سے تنازع ہوا تو یہ ایرانی بن گئے اور جب افغانستان سے تو افغانی، بدترین تو اس دوران یہ رہا ہے کہ آپریشن سندور میں مودی کی طاقت او رفراست کے گن گاتے بھی پائے گئے۔ دنیا بھر میں ایسی مادر پدر آزادی اور غدارانہ شعور کسی ایک ریاست میں بھی قابل قبول نہیں ہے بلکہ ہمارے ارد گرد ہماری سرحدوں سے جڑے ہوئے ماڈل تو بہت ہی مختلف ہیں جیسے چین، ایران اور افغانستان کے ماڈل۔

مجھے پاکستان کی بات کرنی ہے اور میرے پاس بہت ساری مثالیں ہیں کہ انقلاب اور بغاوت کی باتیں کرنے والوں کو سرنڈر کرنا پڑا، ملک سے بھاگنا پڑا، جیل جانا پڑا یا دہشت گردی کے لیبل لگوانے پڑے۔ میرے سامنے عمران خان کی مثال ہے کہ جو ریاست کی مدد سے ہی ایک کلٹ کا سربراہ بنا مگر جب اس نے اپنی ہی ریاست کو ڈیفالٹ کرنے اور اس کی فوج پر حملے کئے تو اسے جیل میں پڑے ہوئے دو برس سے زیادہ ہو گئے اور اب تو وہ سوشل میڈیائی کی پیڈ وارئیر بھی ہار مان گئے جو روز کہتے تھے کہ عمران خان واپس آ رہا ہے، اب وہ بھی یہ پوسٹس نہیں کرتے۔

ریاست کے مقابلے میں ملک ریاض آیا جس کی دولت سے شہروں کے شہر آباد ہوگئے یا وہ جج آئے جنہوں نے ملک کایقینی چیف جسٹس بننا تھا، اس کے مقابلے میں اپنے مخالفین کی چار، چار نسلیں تک ختم کر دینے والے طیفی بٹ آئے یا وہ ڈکی بھائی سمیت دیگر جن کے سوشل میڈیا پر لاکھوں ا ور کروڑوں فالوورز تھے مگرکسی کی گرفتاری پر تھانے کے باہر ایک بھی بندہ نہیں تھا اور کسی کو رات کے اندھیرے میں ملک سے بھاگنا پڑا۔ سو یہ انقلاب اور بغاوت کی باتیں، ریاست سے ٹکرانے کی باتیں کرنی بہت آسان ہوتی ہیں مگر جب عملی زندگی میں ریاست کا سامنا ہوتا ہے تو ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بھی سابق خاتون اول کے ساتھ رات کے اندھیرے میں کارکنوں تک کو چھوڑ کے بھاگ نکلتا ہے اوراپنے صوبے میں جا کر ہی نکلتا ہے۔

میں تو ویسے بھی کسی انقلاب کو مسائل کا حل نہیں سمجھتا۔ انقلاب کسی ایک گروہ کے اقتدار کے قبضے کے ختم ہونے کے بعد دوسرے گروہ کے اقتدار کے شروع ہونے کا نام ہے۔ انقلاب ہزاروں اورلاکھوں کا خون بہا دیتا ہے جس کے میں سخت خلاف ہوں۔ انقلاب کے نعرے لگانے والوں کی اکثریت اپنے فالوورز کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ان کے مخالفین سے کھیت، جائیدادیں اور کارخانے چھین کے ان کے حوالے کر دے گی یعنی وہ انہیں لوٹ مار کے خواب دکھاتی ہے۔

میں نے بہت سارے انقلابیوں کو کام چور اور ہڈحرام ہی دیکھا ہے اور ان میں سے بیشتر کی عمریں غربت اور جہالت میں ہی گزر جاتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک دن سب کچھ چھپر پھاڑ کے مل جائے گا اور سب سے بری قسمت تو ان غریبوں کی ہوتی ہے جنہیں کچھ ہوشیار اور چالاک لوگ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرلیتے ہیں جیسے نو مئی کے حملہ آور اب ریاست اور قانون کی نظر میں دہشت گرد ہیں اور اسی طرح مریدکے کے بے چارے مجاہدین، جن کی اب گرفتاریاں ہور ہی ہیں، میں سوچ رہا ہوں کہ ان کے ساتھ بھی بدقسمتی کے ساتھ پی ٹی آئی والا حال ہی ہونے والا ہے۔

ایک سڑک پر کھڑے ہو کے دیکھیں، وہاں پر دو ہی مقام ہیں، ایک وہ ہیں جو چرسی بھنگی ہیں اورہر آتی جاتی اچھی خوبصورت گاڑی والے کو گالی دے رہے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو ان گاڑیوں کے مالک ہیں، اپنے سماجی مقام کی وجہ سے، اپنی تعلیم یا اپنے روزگار کی وجہ سے۔

آپ اچھا سمجھیں یا بُرا مگرمیرا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ آپ اس دو نمبر قسم کے انقلاب کی راہ دیکھنا بند کردیں اور اگر آپ واقعی غربت اور بے چارگی سے بغاوت چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کو کسی انقلاب سے بدلنا چاہتے ہیں تو وہ باہر نہیں آپ کے اندر سے آئے گا اور اس کے دو راستے ہیں، ایک تعلیم دوسرا روزگار، ان دونوں میں محنت آپ کو اس طبقے میں شامل کر سکتی ہے جس کے بارے سوشل میڈیائی پوسٹوں میں کہا جاتا ہے کہ ان کے خلاف انقلاب آناچاہیے، جی ہاں، آپ اپنی تعلیم اور محنت کی بنیاد پر سی ایس ایس کر سکتے ہیں اور اپنے پورے خاندان کی قسمت بدل سکتے ہیں، آپ جج بن سکتے ہیں اور جرنیل بھی کہ ہمارے فیلڈ مارشل بھی ایک استاد کے فرزند ہیں مگر اپنی محنت اور دیانت سے اس مقام پر آ پہنچے ہیں کہ تاریخ لکھ رہے ہیں۔

آپ کو اپنے ارد گرد ایسی ایک دو نہیں بلکہ درجنوں اور سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی جنہوں نے تعلیم اور محنت سے اپنی زندگی بدلی اور ایسے بھی بہت سارے ہوں گے جو ساری عمر دوسروں کی کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھتے رہے، انہیں بُرا بھلا کہتے رہے حالانکہ وہ بڑبولوں کے پیچھے لگنے کی بجائے محنت سے قسمت بدل سکتے تھے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran